عمران فاروق قتل کیس: برطانیہ، پاکستان کو ثبوت فراہم کرنے پر رضامند

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2019
ڈاکٹر عمران فاروق کو 2010 میں لندن میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر عمران فاروق کو 2010 میں لندن میں قتل کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

برطانیہ کی انتظامیہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس سے متعلق ثبوت پاکستان کو فراہم کرنے پر رضا مند ہوگئی۔

اس حوالے سے پاکستانی حکومت کے وکیل ٹوبی کیڈمین نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے اس کیس سے متعلق دستاویز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دیں، ان دستاویز میں ثبوت کے اشاریے (انڈیکس) سمیت برطانوی حکومت کا ایک خط بھی شامل ہے، جس میں وہ اصل فراہم کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایم کیو ایم کے رہنما کے قتل کی تحقیقات سے متعلق ثبوت فراہم کرنے کے لیے پاکستان نے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل اے) کے لیے درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: شواہد کی فراہمی ’مجرموں کو پھانسی نہ دینے‘ سے مشروط

ٹوبی کیڈمین کا کہنا تھا کہ وہ منظوری کا خط، ثبوت فراہم کرنے اور کیس کی سماعت کے لیے پاکستان میں ہیں۔

واضح رہے کہ 2010 میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں ان کے گھر کے باہر قتل کردیا گیا تھا۔

بعدازاں رواں سال جون میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے خصوصی پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کو بتایا تھا کہ برطانیہ قتل کیس میں ثبوت فراہم کرنے کے لیے تیار تھا بشرط یہ کہ ملزمان کو کیس میں سزائے موت نہ دی جائے۔

خواجہ امتیاز نے عدالت کو بتایا تھا کہ برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی نے قتل کیس میں ثبوت کا تبادلہ خیال کرنے سے متعلق خط و کتابت کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی قوانین اس ملک کے ساتھ ثبوتوں کو شیئر کرنے کی اجازت نہیں دیتے جہاں جرم کی سزا موت ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کی حکومت نے پاکستان کو کہا تھا کہ وہ اس بات کی ضمانت دیں کہ قتل سے متعلق ثبوت کی بنیاد پر مجرم کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔

خصوصی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی کو بتایا تھا کہ یہ معاملہ زیربحث ہے اور اس مخصوص کیس کے لیے قوانین کو یا صدارتی استثنیٰ کے ذریعے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جاسکتا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملے کا حتمی فیصلہ وزارت قانون کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن مرحلے میں داخل، ساڑھے 3 برس بعد شہادتیں مکمل

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے ٹی سی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اکتوبر 2018 تک اس کیس کا ٹرائل مکمل کریں جبکہ دوسری جانب ٹرائل کورٹ سے وقت مانگا گیا تھا کیونکہ ایم ایل اے کی درخواست کے تحت برطانیہ سے شواہد حاصل کرنے کی توقع تھی۔

تاہم ابتدائی طور پر برطانیہ کی انتظامیہ نے پاکستان کی ایم ایل اے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں 2 ملزمان خالد شمیم اور سید محسن علی نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کیا گیا کیونکہ ان سے 'ایم کیو ایم کی قیادت کو شدید خطرہ' تھا۔

تاہم بعد ازاں ملزمان اپنے اعترافی بیان سے مکر گئے اور کہا کہ انہوں نے گزشتہ بیان دباؤ میں ریکارڈ کرایا تھا، علاوہ ازیں اس کیس میں ایک اور ملزم معظم علی نے ابھی تک اپنا اعترافی بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔

شواہد کیلئے مزید مہلت نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران فاروق قتل کیس میں شواہد پیش کرنے کے لیے مزید مہلت نہ دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔

اس دوران عدالت عالیہ کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پاکستان کو شواہد دینے کے لیے رضا مند ہوگیا ہے۔

دوران سماعت ہی برطانوی سینٹرل اتھارٹی کی منظوری کا خط اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ شواہد آنے کے 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کیا جائے۔

خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے مزید شواہد جمع کرانے کے لیے ایف آئی اے کی استدعا مسترد کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں