قصور: 3 بچوں کے 'ریپ اور قتل' کے خلاف علاقہ مکینوں کا پرتشدد مظاہرہ

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2019
مظاہرین نے روڈ پر ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی — فوٹو: ڈان نیوز
مظاہرین نے روڈ پر ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی — فوٹو: ڈان نیوز

صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں 3 بچوں کے اغوا، ان کے مبینہ ریپ اور قتل کے بعد پر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوگیا جہاں مظاہرین نے پولیس کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔

پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چنیاں میں مشتعل مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیں جبکہ پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

مظاہرین نے علاقے کے ایک بچے فیضان کے اغوا ہونے اور پھر اسے مبینہ طور پر قتل کرنے والے ملزمان کی عدم گرفتاری پر پولیس اسٹیشن کا بھی محاصرہ کیا۔

خیال رہے کہ ضلع قصور کے 4 بچے رواں برس جون سے لاپتہ تھے جن کی عمریں 8 سے 12 سال تک تھیں جن میں گزشتہ روز مردہ حالت میں پایا جانے والا بچہ فیضان بھی شامل ہے جو 16 ستمبر کو لاپتہ ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: نوشہرہ میں 9 سالہ بچی ریپ کے بعد قتل

فیضان سے قبل رانا ٹاؤن کا 12 سالہ بچہ محمد عمران 3 جون کو لاپتہ ہوا، غوثیہ آباد کے 9 سالہ علی حسنین اور 8 سالہ سلیمان اکرم بالترتیب 8 اور 17 اگست کو لاپتہ ہوئے جن 2 کی باقیات ایک روز قبل برآمد ہوئیں۔

اس حوالے سے مقامی افراد کا کہنا تھا کہ اسی سلسلے میں پانچواں بچہ بھی لاپتہ ہے۔

پولیس کو ملنے والی لاشوں میں ایک بچے کی شناخت فیضان کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر بچوں کی باقیات سے متعلق امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ علی حسنین اور سلیمان اکرم کی ہیں۔

پولیس اب تک محمد عمران نامی بچے کی تلاش میں ناکام رہی ہے لیکن امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس بچے کو بھی مبینہ طور پر قتل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کے ساتھ ریپ: سابق کانسٹیبل کو 2 مرتبہ سزائے موت

آج فیضان نامی بچے کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں رشتہ داروں سمیت اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فیضان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال چنیاں کے میڈیکل افسر ذوہیب عابد نے اپنے رائے دیتے ہوئے کہا کہ بچے کی موت گلا دبانے کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی جبکہ اس کے گلے پر نشانات بھی موجود تھے۔

میڈیکل افسر نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی کہ بچے کو موت سے قبل جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب فارنسز سائینس ایجنسی (پی ایف ایس اے) سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد ہی اس معاملے پر حتمی رائے دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: شانگلہ میں 10 سالہ بچی کا ریپ، '2 ملزمان' گرفتار

دریں اثنا انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس عارف نواز خان کا کہنا تھا کہ چنیاں میں 3 تحقیقاتی ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور متعلقہ واقعے سے متعلق مختلف لوگوں کے خلاف تفتیش جاری ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ایف ایس اے 3 بچوں کی باقیات کا ڈی این کا ٹیسٹ کرے گا جو مشتبہ ملزم کے ڈی این اے سے میچ ہوجائے گا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ وہ اس معاملے کی لمحہ بہ لمحہ معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ قصور میں اس وقت خوف و ہراست پھیل گیا جب پولیس نے 17 ستمبر کو بچوں کی لاشیں برآمد کیں، اس حوالے سے مقامی افراد کو خدشہ ہے ان بچوں کے قتل میں کوئی گروہ ملوث ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے نواحی علاقے میں بچی کا ریپ کے بعد قتل

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عبدالغفار قیصرانی نے کہا تھا کہ مارے جانے والے بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی تصدیق میڈیکل رپورٹ کے بعد ہی کی جائے گی۔

انہوں نے اس معاملے میں کسی گروہ کے ملوث ہونے کے تاثر کو رد کردیا اور کہا کہ بچوں کے قتل سے قبل ان کے ریپ ہونے کا امکان موجود ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی تھی اور انہوں نے ملزمان کو فوری طور پر گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ 16 ستمبر کو قصور کے علاقے چنیاں میں لوگوں نے احتجاج کیا اور کئی دنوں سے لاپتہ رہنے والے بچوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: 15 سالہ لڑکی کے ریپ کی تصدیق، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا

تاہم انتظامیہ کی جانب سے انہیں یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ معاملہ جلد حل کریں گے جس کے بعد مظاہرہ ختم ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور گزشتہ چند سالوں کے دوران بچوں کے اغوا اور پھر ان کے ساتھ ریپ کے واقعات ہوئے جن میں جنوری 2018 میں 6 سالہ زینب کے ریپ اور قتل کا واقعہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور ملک گیر مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے تھے۔

عمران علی نامی شخص زینب کے ریپ اور اس کے قتل میں ملوث پایا گیا جسے ٹرائل کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کا اغوا، ریپ روکنے کیلئے 'زینب الرٹ بل' کا ابتدائی مسودہ منظور

اسی طرح قصور کا علاقہ حسین خان والا 2015 میں اس وقت دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا تھا جب وہاں پر بچوں کی فحاش ویڈیو بنانے والا ایک گروہ بے نقاب ہوا تھا۔

ہزاروں کی تعداد میں ویڈیوز منظر عام پر آئیں تھیں جن میں ایک گروہ درجنوں بچوں اور بچوں کو جنسی عمل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اسی طرح یہ گروہ بچوں کی فحش ویڈیو بنا کر متاثرہ خاندان کو بلیک میل کرکے ان سے کروڑوں روپے اور سونا لوٹنے میں بھی ملوث رہا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 18, 2019 06:26pm
اللہ معاف کرے اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ تاہم کچھ لوگ اس کو معمولی واقعہ سمجھتے ہیں۔ لاہور میں اسٹیج ڈرامے کرنے والے ایک دوسرے کو جگت کے انداز میں کہتے ہیں کہ تمہاری ویڈیو تو قصور سے مل جاتی ہے۔ یہ رویہ کس طور ٹھیک نہیں، پنجاب پولیس کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کا وقت ہے اگر وہ سائنسی تفتیش کرے، خدانخواستہ زیادتی کی صورت میں اگر ویڈیو ثبوت موجود ہوں تو ایف آئی سائبر کرائم شعبے کو ساتھ ملا کر اس لعنتی گروہ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور پھر شاہد خان آفریدی کے بقول عبرتناک سزا بھی دی جاسکتی ہے۔