لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

پنجاب آج کل کافی خبروں میں ہے اور خبریں کچھ اچھی نہیں ہیں۔

غیر متاثر کن وزیر اعلیٰ سے لے کر بچوں کے جنسی استحصال اور ڈینگی سے لے کر صوبے میں ترقیاتی عمل کے تعطل کو ظاہر کرتی خبروں تک، خبریں ہی خبریں ہیں، جبکہ ان کے درمیان ایسی خبریں بمشکل ہی کہیں پڑھنے یا سننے کو ملتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پنجاب میں ایک سالہ اقتدار کے دوران کچھ کامیاب حاصل کرسکی ہے۔

حتیٰ کہ ’وسیم اکرم پلس‘ کے وعدے فقط وعدے ہی رہے اور موجودہ صورتحال میں اب یہ خیال کیا جارہا ہے کہ عمران خان اور خاص اہمیت کے حامل افراد کے درمیان دراڑ پیدا ہونے کو ہے۔

اور چونکہ ہم انتہا کو پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے اس لیے اختلافِ رائے پر کم اور علیحدگی پر زیادہ بات کی جاتی ہے۔ علیحدگی؟ جناب اب ایک نئے (یا پرانا کہیے) آپشن پر غور کیا جا رہا ہے، کچھ لوگوں کا جوش اور ولولہ اس قدر ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہ وہ خود کو یہ خبر سنانے یا پیش گوئی کرنے سے روک نہ سکے کہ شہباز شریف ایک بار پھر اقتدار میں آسکتے ہیں، کیونکہ حالیہ دہائیوں کے دوران شہباز شریف ہی وہ واحد شخص ہیں جن کی صورت میں اس صوبے نے اپنے کام میں ماہر حکمران دیکھا ہے!

گزشتہ ہفتے جیل میں قید نواز شریف کی شہباز شریف و دیگر لیگی رہنماؤں سے اچانک ہونے والی ملاقات کو (دیگر معاملات کے ساتھ) اس روشنی میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے؟ یہ معاملہ ’ذرائع‘ والوں پر چھوڑ دینا چاہیے اور چھوڑ بھی دیا جائے گا۔

تاہم ایسی کئی مختلف خبریں بھی ہیں جو ہماری سیاست کے متعدد پہلوؤں یا پھر ان سُروں کو آشکار کرتی ہیں جسے محفل موسیقی میں سُن سُن کر سر چکرانے لگتا ہے، یہاں محفل موسیقی سے مراد ہمارے ملک کی سیاست ہے۔

یہاں ایک بار پھر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سویلین اور وردی والوں کے درمیان ٹکراؤ دونوں کے درمیان تعلقات کا موروثی حصہ ہے اور یہ گنی چنی شخصیات تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف اِس وزیرِاعظم اور اُس چیف سے نہیں، اور نہ ہی اس سے کہ وہ پلاؤ بمقابلہ بریانی کے مباحثے پر اتفاق کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔

دراصل اس کا تعلق طاقت سے ہے۔ ایک کے پاس فیصلے کرنے کا قانونی حق ہے جبکہ دوسرا اس ایک کے فیصلوں پر اپنی الگ رائے قائم کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اور رائے میں اختلاف کسی حد تک ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ شخصیات اور سویلین کی بنیادیں (یعنی کس طرح وہ اسلام آباد پہنچے) مرکزی معاملے سے توجہ ہٹا دیتی ہیں اور ہٹاتی رہیں گی۔

دوسری بات یہ کہ پنجاب ایک اہم سیاسی تحفہ ہے اور آگے بھی رہے گا۔ اس کی 2بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اس کا رقبہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پنجاب کبھی یک جماعتی صوبہ نہیں رہا ہے اور نہ ہی رہے گا۔

1990ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دشمنی کی جگہ اب مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی مسابقت نے لے لی ہے۔ ان جماعتوں کے ووٹ بینک میں فرق ہوسکتا ہے اور ایک جماعت دوسری کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی ہوسکتی ہے، مگر اہم بات یہ ہے کہ دونوں جماعتیں ووٹ بینک رکھتی ہیں اور یہی وہ مسابقت ہے جو پنجاب میں پی ٹی آئی کی نااہلی کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

پی ٹی آئی اس وقت اسی تخت کی دعوے دار ہے جس پر کبھی شریف حضرات بڑے آرام سے براجمان تھے۔ اب یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی 5 سالہ حکمرانی سے ہوگا کہ میدان میں موجود نیا نویلا حریف کس قدر سخت چیلنج فراہم کرسکتا ہے۔ تاہم اگر پی ٹی آئی ڈلیور نہیں کرتی تو مسلم لیگ (ن) کو اسی کے قلعے میں کمزور کرنے کی صلاحیت کا وعدہ بس ایک وعدہ ہی بن کر رہ جائے گا۔ ویسے بھی ووٹرز کو کب تک محض وعدوں کی بنیاد پر اپنے ساتھ جوڑا رکھا جاسکتا ہے؟

دراصل یہی وہ عنصر ہے جو پنجاب کو عمران خان کے ہاتھوں سے نکالنے کے کسی بھی منصوبے میں رکاوٹ بنے گا۔

ووٹ بینک کو محفوظ بنانے کے لیے صرف اور صرف اچھی گورننس ہی کافی نہیں ہوتی، اگر یہی بات ہوتی تو 08ء-2002ء کے عرصے کے بعد تو چوہدری برادران کو صوبائی سطح کے بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آنا چاہیے تھا۔

کئی اعتبار سے انہوں نے گورننس کا کام قطعی طور پر بُرے انداز میں انجام نہیں دیا تھا، لیکن پھر بھی گجرات کے باہر ان کا سیاسی اثر و رسوخ کہیں دکھائی نہیں دیا، جبکہ نواز شریف صوبے کے سیاسی منظرنامے پر غالب آگئے۔

حالیہ برسوں میں نواز شریف کو عمران خان نے چیلنج دیا ہے، وہی عمران خان جنہوں نے اس سے پہلے کبھی حکمرانی نہیں کی۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کسی وقت میں پیپلزپارٹی مخالف ووٹ بینک نواز شریف کی جھولی میں ہی گرا کرتا تھا۔

اور اگر یہ چیلنج یونہی اپنی جگہ پر قائم رہا تو پی ٹی آئی اور عمران خان کو پنجاب میں ڈلیور کرنے کی کوئی راہ تلاش کرنی ہی پڑے گی۔ اگر صوبہ چوہدریوں یا کسی دوسرے کے ہاتھوں میں سونپا بھی جاتا ہے تو شاید وہ حکمرانی تو بہتر کرلے لیکن یہ خدشہ رہے گا کہ آیا وہ خود کو ٹکر کی شخصیت ثابت کرتا ہے یا نہیں۔

آثار یہی دکھائی دیتے ہیں کہ اگلے 5 سال بعد (یا جب کبھی بھی انتخابات منعقد ہوتے ہیں) پنجاب میں شریف نامی طاقت کو دوبارہ اپنا قبضہ جمانے میں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ جو کوئی بھی صوبے کو بزدار سے آزاد کروانا چاہتا ہے تو اسے اگلی چال چلنے سے پہلے یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے۔

تیسری اہم بات یہ کہ اگر بزدار ناکام ہوجاتے ہیں تو بدقسمتی سے اس تاثر کو تقویت پہنچے گی کہ پنجاب کو ایک مضبوط مرکزیت پر مبنی قیادت مطلوب ہے۔

ممکن ہے کہ شہباز شریف زیادہ بہتر تصور و خیالات رکھتے ہوں، مگر وہ اس خیال کے قائل تھے کہ اچھی گورننس کا تعلق اچھی انتظامیہ سے ہے جہاں صرف ایک ہی فرد اہمیت کا حامل ہو، یعنی فیصلہ ساز۔ یہ ایک مرکزیت پسند گورننس کا ماڈل تھا جس کا بڑی حد تک انحصار شہباز شریف اور بیوروکریٹس پر تھا۔

دوسری طرف عمران خان نے خیبرپختونخوا میں ایک مختلف طرز کی حکمرانی متعارف کروائی اور ان کا خیال تھا وہ اسی طرز کو پنجاب میں بھی رائج کرلیں گے۔ ایک ایسا نظام جس کے تحت وزرا اور دیگر افراد اپنے محکموں کا انتظام سنبھالتے اور چلاتے، مگر وہ عمران خان کے ماتحت بن کر ہی کام کیا کرتی تھی۔

ویسے تو یہ طرزِ حکمرانی ایک حد تک شہباز شریف کی طرزِ حکمرانی جیسا ہی تھا مگر پھر بھی اس میں کسی حد تک اختیارات کو تقسیم کیا گیا تھا۔

تاہم، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانی کا یہ طریقہ پنجاب میں نہیں چل پایا ہے اور جس طرح ماضی میں کھو کر شہباز شریف کو یاد کیا جارہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب چند افراد یہ سوال بھی کھڑا کرسکتے ہیں کہ پنجاب کو مضبوط اداروں کی نہیں، بلکہ آدمی کی ضرورت ہے۔

آخری مگر اہم چیز یہ ہے کہ یہ پوری صورتحال ایک بار پھر ہماری جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت وجود میں لانے کی نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔ بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی برسوں تک سرگرم رہی لیکن اس دوران انہیں کبھی بھی ایک ایسی شخصیت دستیاب نہ رہی جو اتنی قد آور یا مضبوط ہوتی کہ پنجاب کا چہرہ کہلا سکتی۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اسی مسئلے کا سامنا پی ٹی آئی کو ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسا شخص دستیاب ہی نہیں ہے جو اتنی اہلیت اور اعتماد کا حامل ہو کہ پورے صوبے کا نظام سنبھال سکے۔

اس اعتبار سے نواز شریف اپنے بھائی کی موجودگی کے سبب کافی خوش قسمت رہے۔ چھوٹے بھائی میں بڑے بھائی والے کرشماتی پہلو کی کمی تھی اور یوں ان سے خطرہ بھی کیونکر ہوتا، لیکن انہیں صوبے کا انتظام سونپ کر ان پر ایک حد تک اعتماد بھی کیا گیا۔ اپنے بھائی سے خونی رشتہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ بہت ہی کم لوگ ان پر تنقید یا انہیں کمزور بنانے کی جرات کرپاتے۔

اگر عمران خان کو قابلِ اعتماد (بزدار سے زیادہ اہل) شخص مل بھی جاتا ہے تو بھی ان کی جماعت کے دیگر لوگ خود عہدہ حاصل کرنے کی پاداش میں نئے شخص کو بھی کمزور بنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

داخلی لڑائی سے متعلق پارٹی کلچر کی وجہ سے کسی دوسری راہ کا انتخاب بھی ناممکن بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر جہانگیر ترین بھی نااہل نہ ہوئے ہوتے اور انہیں یہ عہدہ مل جاتا تو انہیں بھی مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں انہیں مسلسل توقعات پر پورا اترنے والے ایک ایسے نمبر ٹو یا چھوٹے کی تلاش جاری رکھنی ہوگی جو حقیقی زندگی کے چھوٹے (یعنی شہباز شریف) کی جگہ لے سکے۔


یہ مضمون 24 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں