نادیہ آغا وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔
نادیہ آغا وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔

کئی ممالک میں ماہِ اکتوبر چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کی آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں اس موذی بیماری کی علامات، آثار اور ممکنہ علاج کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جاسکے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال بریسٹ کینسر کے تقریباً 13 لاکھ 80 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں جبکہ ہر سال اس مرض میں مبتلا تقریباً 4 لاکھ 58 ہزار خواتین کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں بریسٹ کینسر میں مبتلا خواتین کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جن میں سے ایک بڑا حصہ نوجوان خواتین پر مشتمل ہے۔ ہر سال پاکستان میں بریسٹ کینسر میں مبتلا تقریباً 95 ہزار نئے مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے زیادہ تر جان کی بازی ہار بیٹھتی ہیں۔

بروقت علاج کے ذریعے بریسٹ کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے اسی لیے اس مرض کو اس کے ابتدائی مراحل میں ہی پکڑنے پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ تاہم مریضوں کی زندگیوں میں آسانیاں اور تشخیص اور علاج کے تکلیف دہ مرحلے کے دوران ان کو مدد فراہم کرنے کے لیے دیگر اقدامات بھی درکار ہیں۔

یہ آسان اقدامات ان کم آمدن والے ممالک میں نمایاں نتائج دے سکتے ہیں جہاں سماجی معاونت نہایت کم ہے اور غربا کینسر کے مہنگے علاج کی استطاعت نہیں رکھتے۔

خواتین کو مختلف سماجی، معاشی اور جغرافیائی مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک خواتین کی صحت کا تعلق ہے بالخصوص جب انہیں بریسٹ کینسر جیسے کسی موذی مرض کا علاج کروانا ہو تو یہ مسائل غیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان جیسے کم آمدن والے ممالک میں صحت مراکز کی سہولیات سمیت سماجی حلقوں میں صنفی امتیاز کافی عام پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صحت کے حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی کے ساتھ ساتھ صحت مراکز تک رسائی اور علاج کے اخراجات جیسے مسائل بھی پائے جاتے ہیں۔ ان مسائل سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں اور یوں بریسٹ کینسر کے کرب سے گزرنے والی خواتین کے لیے تکلیف میں مزید اضافہ کرنے والا ماحول وجود میں آجاتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص میں تاخیر کے پیچھے بنیادی وجہ معلومات و آگاہی میں رکاوٹوں کا حائل ہونا ہے۔ آگاہی نہ صرف صورتحال کا اندازہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ اس طرح لوگوں میں شعور بھی پیدا ہوتا ہے کہ انہیں کن صورتوں میں کب اور کہاں سے اپنی تشخیص کروانی ہے۔

پاکستان میں بالخصوص دیہی اور دنیا کا محدود علم اور کم خواندہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں خود تشخیصی عمل کے علاوہ بریسٹ کینسر کے آثار، علامات اور شدت کے حوالے سے بنیادی معلومات کی کافی کمی پائی جاتی ہے۔

اس موذی مرض کے حوالے سے غلط تصورات اور لاعلمی کی وجہ سے بھی کئی خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ مثلاً نئی دہلی میں زیرِ علاج کینسر میں مبتلا مریضوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق مریضوں کی اکثریت کو یہ لگتا ہے کہ ان کی یہ بیماری کسی کی بددعا یا گناہوں کی سزا کا نتیجہ ہے۔ اس قسم کے غلط تصورات انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں کیونکہ یہ غلط فہمیاں لوگوں کو اپنا بروقت علاج کروانے سے روک دیتی ہیں۔

جغرافیائی رکاوٹیں بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ صحت کی سہولیات اگر گھر سے دُور ہوں تو لوگوں پر اپنی صحت، تشخیص اور علاج سے جڑے رویوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ہمارے ہاں بنیادی سطح پر صحت کی معیاری سہولیات ہی موجود نہیں ہیں اور چند ہی ایسے ہسپتال ہیں جہاں کینسر کا علاج کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ہسپتال بھی شہری علاقوں میں واقع ہیں جبکہ زندہ رہنے کے لیے محدود وسائل کی حامل دیہی علاقوں میں بسنے والی پاکستان کی ایک بڑی آبادی اس قسم کی سہولیات سے بالکل محروم ہے۔

حتیٰ کہ دُور دراز علاقوں میں تو تشخیص برائے کلینکل بریسٹ کینسر یا میمو گرافی جیسے عمومی تشخیصی طریقہ کار بھی نہیں پائے جاتے۔ ٹرانسپورٹ کے نامناسب اور ناکافی انتظام دیہی اور پسماندہ خواتین کے لیے اسپیشلائزڈ ہسپتالوں تک رسائی مزید مشکلات پیدا کردیتا ہے۔

وہ خواتین جو علم و آگاہی کی دُوری اور جغرافیائی رکاوٹیں عبور کرجاتی ہیں ان میں سے اکثر کو ایک دوسری پہاڑ جیسی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے اور وہ ہے کینسر کے علاج پر آنے والے اخراجات، یہی وہ رکاوٹ ہے جس کے باعث صورتحال بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔

جہاں اسپیشلائزڈ ہسپتالوں تک پہنچنا پہلے ہی لوگوں کے لیے محال ہو وہاں وہ لوگ جو اپنی معمولی ذریعہ آمدن سے بمشکل اپنا گزارا کرپاتے ہیں ان کے لیے صحت مراکز تک پہنچنا تو دُور کی بات رہی وہ تشخیص و علاج کی استطاعت کہاں رکھتے ہوں گے، لہٰذا یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

سماجی مدد تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے خاندانوں میں ناقابلِ استطاعت علاج معالجے کے لیے ہسپتال کا رخ کرنے اور/ علاج شروع کرنے کے رجحان کی مزید حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

یہی سماجی، معاشی اور جغرافیائی رکاوٹیں کینسر میں مبتلا خواتین کی زندگی کا فیصلہ کردیتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ محدود معاشی وسائل اور خواندگی کے ساتھ دُور دراز کے علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

بریسٹ کینسر میں مبتلا غریب خاندانوں کی خواتین طویل سفر اور مہنگے علاج معالجے کے مرحلے سے کتراتی ہیں۔ اس طرح پسماندہ علاقوں کی خواتین کی بروقت تشخیص اور علاج نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحتِ نسواں کی سہولیات کے لیے کسی ایک نہیں بلکہ کئی مختلف شعبوں میں بہتری لانا ہوگی۔

اگر بریسٹ کینسر کے ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص ہوجائے تو زندگی بچائی جاسکتی ہے کیونکہ اس طرح علاج میں بہت کم پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ کینسر کے ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہوجانا بلاشبہ کامیاب علاج کی پہلی شرط ہے۔ چنانچہ دیہی علاقوں کے صحت کارکنان کو ابتدائی آثار اور علامات پہچاننے کی تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں خود تشخیصی عمل کی آگاہی اور اسے فروغ دینا بہت ہی ضروری امر ہے۔

صحت کی خواندگی کا کردار بھی بہت اہم ہے، خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ بظاہر غیر نقصاندہ اور بنا درد کے سینے میں پیدا ہونے والی گانٹھوں (بریسٹ لمپس) کا تعلق کینسر سے بھی ہوسکتا ہے۔

عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ خواتین کو روٹین میموگرافی کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص ممکن ہوسکے۔ ضلعی ہیڈکوارٹرز میں موجود ہسپتالوں کو اسپیشلائزڈ ہسپتالوں سے جوڑنا بھی کافی سودمند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ضلعی سطح کے ہسپتالوں تک زیادہ لوگوں کو رسائی میسر ہوتی ہے۔

پاکستان میں اکثر خواتین کی زندگیاں غربت کی وجہ سے داؤ پر لگی ہوتی ہیں ایسے میں بریسٹ کینسر میں مبتلا خواتین کو صحت انشورنس فراہم کرکے غیر معمولی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔


یہ مضمون 02 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں