جب لٹریچر کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے متوقع ادیبوں کا اعلان ہوا، تو پوری ادبی دنیا میں سنسنی پھیل گئی، کیونکہ اس بار اردو کا ایک ادیب بھی شارٹ لسٹ ہوا تھا۔

یورپی ناقدین نے اردو ادیب کی نامزدگی کو خوش آئند ٹھہرایا۔ ماہرین لسانیات نے امید ظاہر کی کہ اس سے اردو زبان مستحکم ہوگی، اور ناشروں نے فیصلہ کیا کہ دُور افتادہ، ترقی پذیر خطے کے ادب کا ترجمہ نئے گاہکوں کی کھوج میں معاون ہوگا۔

البتہ جب اس اعلان کی بازگشت ان علاقوں تک پہنچی، جہاں اردو لکھی، پڑھی، بولی اور سمجھی جاتی تھی، تو وہاں کے باسیوں نے گال کھجاتے، سر ہلاتے حیرت کا اظہار کیا۔ ایسی حیرت، جس کا اس خطے نے آخری بار اس روز سامنا کیا تھا، جب نیل آرم اسٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے کی ڈرامائی خبر کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔

وہ پلکیں جھپکتے ہوئے ایک دوسرے کی سمت دیکھتے اور سوال کرتے: یہ شخص کون ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ کیا بیچتا ہے؟ آج سے پہلے تو کبھی اس کا ذکر نہیں سنا۔

ٹی وی چینلز نے اس بوڑھے آدمی کو لاہور کے ایک قدیم، گنجان علاقے سے ڈھونڈ نکالا۔ ابتدائی معلومات کی بنیاد پر سطحی سے پیکج تیار کیے گئے، جس میں ادیب کی جائے پیدائش، تاریخ پیدائش، کتابوں کے نام اور سرکاری ملازمت کا ذکر تھا۔

اندازہ ہوا کہ 3 عشروں قبل اس کا ڈنکا بجا کرتا تھا، مگر پھر وہ ریٹائر ہوگیا۔ بڑھاپے کا شکار ہوکر گوشہ نشیں ہوگیا، ریڈیو اور ٹی وی والوں نے مدعو کرنا ترک کیا اور وہ خبروں کے مرکزی دھارے سے کٹ گیا۔

البتہ میلوں ٹھیلوں میں، ادبی کانفرنسوں میں، سیمینارز میں وہ باقاعدگی سے شرکت کیا کرتا۔ نئی نسل کے ادیب احتراماً اس کے گھٹنے چھوتے، گو وہ دل سے اس کا احترام نہیں کرتے تھے۔ لڑکے لڑکیاں اس کے ساتھ سیلفیاں بناتے، گو وہ اس کے نام سے لاعلم تھے۔ ناشر اسے اسٹال پر بٹھائے رکھتے تاکہ کچھ کتابیں بک جائیں۔ ایونٹ کور کرنے والے صحافی بار بار ’ادب کی صورت حال‘ اور ’اردو زبان کا مستقبل‘ والا سوال دہرائے جاتے۔

البتہ اب صورت حال مختلف تھی۔ وہ نوبیل انعام کا فاتح ہوسکتا تھا۔ تو اس کے انٹرویوز کا اہتمام کیا گیا، اسے خبرنامے میں جگہ دی گئی، اس پر خصوصی پیکجز نشر کیے گئے اور جب ایک بار اکتا دینے والا مواد ختم ہوگیا تو پروگرام پروڈیوسرز نے فیصلہ کیا کہ اس کے ہم عصروں کی رائے بھی لی جائے، دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں۔

اس کے ہم عصروں، ہم عمر ادیبوں اور شعرا، جن کی اکثریت مر کھپ گئی تھی، ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا۔ سنسنی خیز، دھماکا خیز۔ جیسے، ’جناب، ان کا تو ادبی نظریہ ہی واضح نہیں، زبان لکھنی نہیں آتی، بس لابنگ کے آدمی ہیں۔‘ مزید یہ کہ ’لبرل ہیں، امریکا میں مقیم ایک مترجم مل گئی، کچھ چیزوں کا ترجمہ ہوگیا، نام بن گیا، ورنہ ان کے ادب میں دم نہیں۔‘

ایک صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کا بیشتر فکشن ایک گم نامہ عرب ادیب کا سرقہ ہے۔’ بس، وہی پرانا چورن بیچ رہے ہیں۔‘

بین الاقوامی معاملات پر نظر رکھنے والے ایک رجعت پسند ریٹائر بیوروکریٹ کا مؤقف دلچسپ تھا، جس نے انگریزی میں ایک کالم لکھ مارا۔ ’مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ قسم عزت دینے والے کی، یہ کسی مسلمان کو ایوارڈ نہیں دیں گے، ہم اپنا ایوارڈ خود بنائیں گے۔‘

مگر چند روز بعد نوبیل انعام کی کمیٹی نے ایک بار پھر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ہمارے ادیب کو نوبیل کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ یہ اردو کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا، ایک اردو فکشن نگار دنیائے ادب کا اعلیٰ ترین ایوارڈ اپنے نام کرچکا تھا۔

البتہ اردو دنیا میں صورت حال پرپیچ تھی۔ ہم عصروں نے، جو چھڑی اور چشمے کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے، اس کے خلاف محاذ بنا لیا۔ اس ایوارڈ کو اردو ادب کے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے چند پُرلطف مطالبے کیے گئے۔ جیسے: ’ان سے زیادہ کام تو فلاں لائبریرین کا ہے‘ اور تو اور ’میری بیٹی ان سے اچھی شاعری کرتی ہے۔‘

سرکار نے اب تک اس واقعے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی۔ البتہ جب پڑوسی ملک کے وزیرِ ثقافت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے بوڑھے ادیب کو مدعو کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس کے فکشن کا اصل موضوع اور محور تو وہ علاقہ ہے، جہاں وہ ہجرت سے قبل آباد تھا، تب سرکار کو یکدم یاد آگیا کہ ماضی میں یہ شخص کمیونسٹ پارٹی کا عہدے دار رہ چکا ہے اور سنا ہے کہ ایک تقریب میں ضعیفی کی آڑ میں قومی ترانے پر کھڑا نہیں ہوا تھا۔ ایسے شخص کو سب سے بڑا بین الاقوامی ادبی ایوارڈ دینے کا مقصد اس ریاست کے نظریاتی تشخص کو مجروح کرنا ہے۔

نیم مذہبی، نیم سیاسی، نیم سماجی تنظیموں نے اعلانیہ ایک خفیہ میٹنگ بلوائی اور متفقہ فیصلہ کیا کہ یہ ایوارڈ ملک کے خلاف سازش ہے۔ میٹنگ کے بعد نوبیل انعام کی کمیٹی کے خلاف ایک پُرامن دھرنے کا اعلان کیا گیا اور بزرگ ادیب کو دھیمے اور مہذب لہجے میں کہلوا بھیجا کہ بہتر ہے آپ یہ ایوارڈ واپس کردیں اور اللہ اللہ کریں۔‘

آنے والے چند دنوں میں کچھ پُراسرار واقعات ہوئے۔ ادیب صبح باہر نکلا تو اس کی گاڑی کے چاروں ٹائروں کی ہوا نکلی ہوئی تھی۔ اگلے دن گھر کے باہر کوئی کچرا پھینک گیا، ایک ہفتے بعد گیس کا پریشر کم ہوگیا۔ کچھ دھمکی آمیز پرچیاں بھی موصول ہوئیں۔

سرکار نے اعلان کیا کہ اگرچہ یہ انعام ہمارے خلاف سازش ہے، مگر ہم اپنے بزرگ ادیب کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک مقامی ایوارڈ بھی دیا جائے گا، ساتھ 99 ہزار کیش، اگر فائلر ہوئے تو کٹوتی کم ہوگی۔

البتہ ادیب، کیونکہ ایک سیدھا سادہ شریف انسان تھا، بوڑھا، نحیف اور ڈرپوک۔ لہٰذا اس نے نوبیل کمیٹی کو کانپتے ہاتھوں سے ایک خط لکھا، جس میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا

’صاحبو، آپ نے میری صلاحیتوں کا اعتراف کیا، اس کا شکریہ۔ البتہ میرے ہم وطنو کی محبت ہی میرا اصل اعزاز ہے۔ میں یہ ایوارڈ واپس کرتا ہوں۔‘

اور یوں اردو کے خلاف نوبیل کمیٹی کی سازش ناکام ہوئی۔

واقعے کے ایک ہفتے بعد بزرگ ادیب کو ہارٹ اٹیک لے بیٹھا۔

حکومت نے بزرگ ادیب کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک لنگر خانہ ان سے موسوم کردیا۔


نوٹ: یہ ایک طنزیہ تحریر ہے

تبصرے (8) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Oct 12, 2019 11:35pm
غالب کا شعر یاد کرادیا: یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے لوحِ جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
honorable Oct 12, 2019 11:40pm
A1 writing
محمد اظہر جمیل Oct 13, 2019 06:52am
کمال کی طنزیہ تحریر ھے!
VR Oct 13, 2019 03:13pm
بلاشبہ یہ تحریر پاکستانی معاشرے کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔
anwar shahid Oct 13, 2019 10:58pm
بہت عمدہ ۔۔۔پڑھنے کا لطف ایا ۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ 
Engineer Oct 14, 2019 03:21pm
Who was that Guy? name please
الطاف Oct 14, 2019 06:26pm
کون تھا یہ بندہ
nuzhat nisar Nov 06, 2019 02:08pm
جناب اقبال خورشید صاحب، سرخی یوں لکھنا چاہئے تھی، ”جب اردو کے ایک ادیب کو نوبیل ایوارڈ ملا“ سرخی میں ”ایک اردو“ لکھنا غلط ہے، ایک ادیب لکھنا درست ہوگا۔