چونیاں واقعہ: ملزم سہیل شہزاد کے جسمانی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

16 اکتوبر 2019
ملزم کو 15 روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
ملزم کو 15 روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور کی تحصیل چونیاں میں مبینہ طور پر چار بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے سیریل کلر سہیل شہزاد کے جسمانی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کردی۔

سہیل شہزاد کو 2 اکتوبر کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا جسے آج انسداد دہشت گردی کی عدالت پیش کیا گیا۔

جج عبدالقیوم خان نے کیس کی سماعت کے دوران ملزم سے دریافت کیا کہ دوران حراست کیا اس پر تشدد کیا گیا۔

ملزم سہیل شہزاد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسے کسی نے نہیں مارا اور دوبارہ گزارش ہے اب بھی نہ مارا جائے۔

جج کی جانب سے ملزم کا میڈیکل کرانے سے متعلق دریافت کرنے پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم کا اسی دن ہی میڈیکل کروا لیا گیا تھا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دیگر دو کیسز میں بھی ملزم کا ڈی این اے مقتول بچوں سے میچ ہو گیا ہے۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ دیگر دو کیسز میں بھی ملزم کے خلاف شواہد موجود ہیں جو جلد عدالت میں پیش کر دیے جائیں گے۔

سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو نے عدالت میں دلائل دیے جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ بھی پیش کر دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: چونیاں میں بچوں کا ریپ،قتل: عثمان بزدار کا ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ

پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے جائے وقوع پر استعمال شدہ جوتے برآمد کر لیے گئے ہیں تاہم رکشے کے ٹائر برآمد کرنا ابھی باقی ہے۔

سرکاری وکیل نے عدالت سے ملزم کا 30 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرنے کی استدعا کی تاہم عدالت نے مزید 14 روزہ ریمانڈ منظور کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم کو 4 میں سے ایک بچے کے قتل اور جنسی استحصال کے خلاف درج ایف آئی آر پر عدالت میں پیش کیا گیا ہے جبکہ دیگر 3 بچوں سے متعلق درج مقدمات میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ہزار 668 افراد کے ڈی این اے کروائے گئے، ملزم سہیل شہزاد کا ڈی این اے مقتول سے میچ ہوا۔

واضح رہے کہ رواں سال جون سے 8 سے 12 سال کی عمر کے 4 بچے لاپتہ ہوگئے تھے جبکہ 16 ستمبر کی رات کو 8 سالہ فیضان لاپتہ ہوا تھا۔

ان میں سے 3 بچوں کی لاشیں 17 ستمبر کو چونیاں بائی پاس کے قریب مٹی کے ٹیلوں میں سے ملی تھیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا، وزیراعظم

علاوہ ازیں لاقانونیت اور لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ میں پولیس کی ناکامی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

بعد ازاں یکم اکتوبر کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری کا اعلان ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ ملزم کی شناخت کے لیے کن طریقہ کاروں کو استعمال کیا۔

وزیراعلیٰ نے تصدیق کی تھی کہ یہ ملزم ریپ کے بعد قتل ہونے والے ان چاروں کیسز کے پیچے تھا جبکہ ساتھ ہی ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت ہوگی۔

تبصرے (1) بند ہیں

عاطف Oct 16, 2019 09:01pm
چاہے کتنا بڑا مجرم ہو اس کے منہ کو چھپانا غلط ہے جب تک کے اس کی شناخت چھپانا مقصود نہ ہو ۔ اسی طرح اسے دونوں بازوؤں سے پکڑنے کی بھی کیا ضرورت ہے جب کہ وہ حراست میں ہے اصل بات یہ دیکھنی چاہیے کہ اسے وہی سزا ملے جو قانون دے پولیس اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ نہ بناے کیونکہ معاشرے کی اس لاپرواہی کی وجہ سے پولیس تشدد نے معصوموں کی بھی جان لی ہے اسے بدلنا ہوگا اگر آگے بڑھنا ہے تو ۔