بھوک لگنے پر کھانے کا ذائقہ زیادہ اچھا کیوں لگنے لگتا ہے؟

17 اکتوبر 2019
اس کا جواب آخرکار سائنس نے ڈھونڈ لیا ہے— شٹر اسٹاک فوٹو
اس کا جواب آخرکار سائنس نے ڈھونڈ لیا ہے— شٹر اسٹاک فوٹو

کیا کبھی آپ نے سوچا کھانا اس وقت زیادہ مزیدار کیوں لگتا ہے جب بھوک زیادہ لگ رہی ہو اور اس وقت ذائقہ کیوں غائب محسوس ہوتا ہے جب پیٹ پھرا ہوا ہو؟

تو اس کا جواب آخرکار سائنس نے ڈھونڈ لیا ہے۔

درحقیقت جب پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں تو غذاﺅں کا ذائقہ تو اچھا لگتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ تلخ یا کڑوی چیزوں کو کھانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔

اور اس کے پیچھے ایک عصبی سرکٹ چھپا ہوتا ہے۔

یہ بات جاپان کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار سائیکلوجیکل سائنسز کی تحقیق میں سامنے آئی۔

عام طور پر جب زیادہ بھوک نہ ہو تو ہم لوگ تلخ اور کھٹے ذائقے کے مقابلے میں میٹھے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ ترجیحات اندرونی کیفیت جیسے بھوک کی صورت میں بدل جاتی ہے۔

محققین نے چوہوں پر دریافت کیا کہ بھوک کی صورت میں یہ جانور مٹھاس کو بہت زیادہ ترجیح دیتا ہے جبکہ دیگر بدذائقہ چیزوں کے لیے بھی حساسیت میں کمی آجاتی ہے۔

انہوں نے ایسے نیورونز پر توجہ مرکوز کی جو بھوک کی کیفیت میں متحرک ہوکر پیٹ بھرنے کے رویے کو جنم دیتے ہیں جبکہ 2 ایسے عصبی کیفیات کی شناخت کی گئی جو بھوک کی صورت میں ذائقے کی ترجیحات میں تبدیلیاں لاتی ہیں۔

AgRP-expressing نامی یہ نیورونز تھیلمس میں دریافت کیے گئے جو دماغی کا ایسا حصہ ہے جو بھوک کو کنٹرول کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ انہوں نے چوہوں میں ان نیورونز کو متحرک کرکے یہ دیکھا کہ بھوک کی صورت میں ان کے ذائقے پر کیا تصورات غالب آجاتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ان نیورون کو متحرک کرنے میں ذائقے کے حوالے سے ترجیح میں 2 مختلف انداز سے تبدیلی آتی ہے، یعنی میٹھے کی خواہش بڑھ جاتی ہے جبکہ تلخ ذائقے کے لیے ناپسندیدگی بھی کم ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ذیایبطس اور موٹاپے کے حوالے سے اس عصبی طریقہ کار کے کردار پر تحقیق کی جانی چاہیے، مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ موٹاپے کے شکار افراد میٹھے کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور یہ ممکنہ طور پر اس عصبی نظام کی سرگرمی میں تبدیلی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں