اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے حکومت کی 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2019
کمیٹی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ بھی شامل ہیں — فائل فوٹو
کمیٹی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ بھی شامل ہیں — فائل فوٹو

اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر حکومت کی 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔

وزیر دفاع اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما پرویز خٹک کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی اپوزیشن سے بات چیت کرے گی۔

کمیٹی کے دیگر اراکین میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وفاقی وزرا شفقت محمود اور نورالحق قادری، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر شامل ہیں۔

کمیٹی کے اراکین کا اعلان کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ 'ملک کسی طور پر سیاسی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا، ملک کو اس وقت اتحاد و یکجہتی اور کشمیر کے مسئلے پر پوری قوم کو اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'کمیٹی کو اپوزیشن سے بات چیت کا اختیار دیا گیا ہے، اپوزیشن کے ساتھ افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے معاملات حل کیے جائیں گے اور کمیٹی کسی بھی سیاسی انتشار سے بچنے کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کرے گی۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف نے جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کردیا

واضح رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے دو روز قبل مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ 'وزیر اعظم کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس تھا، اجلاس میں ہم نے چند سیاسی فیصلے کیے، ہم سیاسی جماعت ہیں اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت اور جذبہ رکھتے ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے پرویز خٹک کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے مختصر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'سیاسی جماعتوں کو سیاسی رویے اپنانے چاہیئں، مولانا فضل الرحمٰن کی کسی سیاسی بات میں وزن ہوا تو ہم سننے کو تیار ہوں گے اور اگر کوئی معقول راستہ نکل سکتا ہے تو ہم وہ راستہ نکالنے کو ترجیح دیں گے، یہ اس لیے نہیں کہ ہمیں کسی قسم کا خوف ہے، میں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کو غلط فہمی ہےکہ کسی کی آمد اور دھرنے سے حکومتیں چلی جاتی ہیں تو ہمارا تجربہ اس سے زیادہ ہے۔'

تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا تاکہ استعفے کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات کیے جاسکیں’۔

یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا تاہم 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف حکومت کی جانب سے یوم سیاہ منائے جانے کے پیش نظر انہوں نے تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں