موسم سرما اور خزاں میں لوگ اداسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019
ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔۔ فوٹو/ شٹراسٹاک
ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔۔ فوٹو/ شٹراسٹاک

اکثر اوقات لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ انہیں سال کے چار موسموں میں سے کون سا موسم زیادہ پسند ہے تو زیادہ تر افراد کا انتخاب موسم بہار ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو موسم سرما اور برف باری کا سال بھر انتظار کرتے ہیں مگر سرد علاقوں میں رہنے والے ایک ماہ بعد ہی سردی سے اکتاہٹ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ دن کا دورانیہ کم اور طویل تر رات تو تھی ہی مگر گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سردی کی شدت بڑھ گئی ہے جو عموماً خشک ہوتی ہے۔

ایک عشرے پہلے تک شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں سردیوں کا آغاز ہی موسلا دھار بارشوں سے ہوتا تھا اور دسمبر تک ان علاقوں کے بلند و بالا پہاڑ برف کی دبیز چادر اوڑھ چکے ہوتے تھے۔ مگر اب فروری مارچ تک بمشکل ایک یا دو بار بارش ہو پاتی ہے۔ اس وجہ سے سرد علاقوں کے رہائشی افراد اب سردیوں میں ایک نئے مرض کا شکار ہو رہے ہیں جسے سائنسی اصطلاح میں 'سیزنل افیکٹو ڈس آرڈ' موسمی اثر سے پیدا شدہ بیماری یا 'ونٹر ڈپریشن' کا نام دیا گیا ہے۔ اس علامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے 'سیڈ' یعنی اداسی کا نام بھی دیا گیا ہے۔

اس مرض میں زیادہ تر وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ چونکہ سردیوں میں دن کا دورانیہ چھوٹا ہو جاتا ہے اور شدید خشک سردی میں دھوپ کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے اس لیے کئی ماہ تک ایسے ماحول میں رہنے سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں جس سے ان کے روزمرہ کے کام کی رفتار اور موڈ دونوں میں واضح تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ شدید سردی میں بستر سے نکلنا کسی محاذ سے کم نہیں ہوتا۔ اس محاذ کو جیسے تیسے سر کر کے ہم روزمرہ کے کام شروع کرتے ہیں تو دیگر عوامل رکاوٹ بنتے ہیں جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔

سرکیڈین کلاک

ہماری روزمرہ کی روٹین سے ہمارے اندر کی گھڑی کی ٹائمنگ سیٹ ہوتی ہے اسے سائنسی اصطلاح میں 'سرکیڈین کلاک' کہا جاتا ہے۔ موسم سرما میں صبح کے وقت شدید سردی، کہر یا اسموگ کے باعث صبح 9 بجے تک بمشکل سورج نکل پاتا ہے۔ ایسے میں آفس، اسکول یا گھر کے کام کاج کے لیے وقت پر ہی اٹھنا پڑتا ہے مگر ہماری سرکیڈین کلاک کہتی ہے کہ ہمیں ابھی اور آرام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گھڑی سورج کی روشنی پر چلتی ہے۔ اسی طرح رات جلدی ہوجاتی ہے اور شدید سردی میں لوگوں گھروں میں ہیٹر یا انگیٹھی کے پاس مقید ہوجاتے ہیں۔ ابتدا میں مونگ پھلیوں، خشک میوہ جات اور گرم طاقتور کھانوں کے ساتھ یہ سیشنز کافی لطف دیتے ہیں مگر آہستہ آہستہ بوریت اور اکتاہٹ بڑھنے لگتی ہے۔

سیرو ٹانن لیول

ہمارے دماغ میں ایک خاص قسم کا سیال مادہ سیروٹانن کہلاتا ہے جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔ موسم سرما میں سورج کی روشنی میں کمی اور طلوع و غروب کا دورانیہ کم ہونے سے اس سیال مادے میں کمی واقع ہوجاتی ہے جو براہ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو کسی خاص وجہ کے بغیر ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔

میلا ٹانن لیول

سیروٹانن لیول میں کمی سے دماغ متاثر ہوتا ہے جس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے اور دیگر مادوں مثلاً میلاٹونن لیول میں کمی کی وجہ سے نیند کے اوقات میں واضح تبدیلی آتی ہے یا تو بالکل نیند نہیں آتی یا پھر بہت زیادہ نیند آتی ہے اور مریض کے لیے روزمرہ کے کام سرانجام دینا مشکل ہو جاتا ہے۔

اگر آپ بھی سردیوں میں بلاوجہ گھبراہٹ یا موڈ میں تبدیلی کا شکار رہتے ہیں تو مندرجہ ذیل علامات کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا آپ ونٹر ڈپریشن کا شکار ہیں یا موڈ میں یہ تبدیلی وقتی اتار چڑھاؤ ہے:

1۔ کسی خاص واقعے یا وجہ کے بغیر گھبراہٹ محسوس ہونا جو سارا دن رہے اور مسلسل کئی ہفتوں تک جاری رہے۔

2۔ آہستہ آہستہ روزمرہ کے معمولات میں عدم دلچسپی اور وہ کام جو کبھی آپ شوق سے کرتے تھے کسی معقول وجہ کے بغیر آپ کو زہر لگنے لگیں۔

3۔ جسم میں توانائی کی کمی کے ساتھ نیند کے اوقات میں تبدیلی، بہت زیادہ نیند آنا یا پھر ساری رات جاگتے رہنا۔

4۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنا جسے کنٹرول کرنے میں آپ کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔

5۔ زندگی سے مقاصد کا ختم ہو جانا اور غیر ضروری کاموں میں وقت برباد کرنا۔

6 ۔جسم میں توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے زیادہ کاربوہائیڈریٹ والی غذاؤں کا استعمال کرنے سے وزن میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے سستی کاہلی اور نیند کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔

احتیاطی تدابیر

ضروری نہیں کہ سرد علاقوں کے رہائشی افراد میں یہ ساری علامات موجود ہوں۔ اگر آپ ان میں سے محض تین علامات کی شناخت بھی کرتے ہیں تو بھی آپ معمولی درجے کی ونٹر ڈپریشن کا شکار ہیں جس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر بہت آسان ہیں۔

1۔ کوشش کیجیے کہ دن میں ایک یا دو گھنٹے سورج کی روشنی اور حدت میں گزاریں۔ اگر آپ بند آفس میں کام کرتے ہیں تو لنچ آفس سے باہر کھلی جگہ پر کیجیے۔ شام میں کسی پارک یا کھلی جگہ پر واک کے لیے وقت نکالیے۔ جس سے نہ صرف موڈ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ زیادہ توانائی والی غذا کھانے سے وزن میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔

2۔ شدید سردی سے نمٹنا یقیناً آسان نہیں ہوتا اس کے لیے اضافی توانائی ہم بھاری یا زیادہ چکنائی والی غذا کو استعمال کر کے حاصل کرتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ عموماً سرد علاقوں کے رہائشی افراد اس موسم میں وزن بہت بڑھا لیتے ہیں جو بعدازاں دل، جگر اور دیگر پیچیدہ امراض کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اہلِ خانہ خوراک کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہوئے ایسی خوراک کا اہتمام کریں جو توانائی بخش اور کم کاربوہائیڈریت والی ہو۔

3۔ سردیوں میں لوگ عموماً سستی کا شکار رہتے ہیں اور درجۂ حرارت منفی ہوتے ہی روزمرہ کے کام سرانجام دینا بھی مشکل ہونے لگتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بے شک آپ برفانی ہواؤں میں باہر زیادہ وقت نہ گزاریں مگر بند کمروں میں بھی خود کو متحرک رکھنے کی کوشش کریں۔ موسم سرما کتابیں پڑھنے کا لکھنے لکھانے کے حوالے سے آئیڈیل موسم ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ کے اندر کا قاری اور لکھاری سونے نہ پائے۔ اسی طرح موسیقی، ویڈیو گیمز یا دیگر مشاغل کو اپنا کر اچھا وقت گزارا جاسکتا ہے۔

4۔ اگرچہ ونٹر ڈپریشن ایک وقتی موسمیاتی مرض ہے لیکن کچھ افراد میں اس کی شدت بڑھ بھی جاتی ہے جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً 2018 میں بلوچستان بھر میں موسم سرما نومبر سے اپریل تک رہا اور فروری تک بارشوں کی قلت کے باعث خشک سردی پڑی۔ مقامی افراد چار سے پانچ ماہ تک نزلہ، زکام، دمہ یا جوڑوں کے درد جیسے امراض کا شکار رہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر افراد نے اس دوران شدید گھٹن اور ڈپریشن کی محسوس کی اور مئی سے موسم بہتر ہوتے ہی مقامی افراد نے سکون کا سانس لیا۔ اگر موڈ میں تبدیلی سے آپ کے دوست و احباب کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے لگیں، کچھ بھی کرنے کو دل نہ چاہے تو کسی ماہر نفسیات یا اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ مناسب ادویات کے ذریعے سیروٹانن اور میلا ٹانن لیول کو درست رکھا جاسکے اور ڈپریشن شدید نہ ہو۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


تبصرے (0) بند ہیں