کمشنر کراچی افتخار علی شلوانی نے حکم جاری کیا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو اب بالکونیوں پر کپڑے سُکھانے کے بجائے پھولوں کے گملے رکھنا ہوں گے۔ یوں شہریوں کو پتا چلا کہ شہر کی کوئی انتظامیہ بھی ہے، جس کا ایک عدد کمشنر بھی ہے، جان کر تسلی ہوئی، دل کو قرار آیا۔

البتہ کراچی میں کچھ بھی ’ہونے‘ کا مطلب یہ نہیں کہ جو ہے وہ اپنے کُل اوصاف اور جملہ فرائض سمیت ہے، ہم کراچی والوں کے لیے تو بس نام ہی کافی ہے، جیسے لیاری ندی اور ملیر ندی میں پانی نہیں، گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں کوئی اندازِ گلستانی نہیں، نیو کراچی پرانے شہر سے زیادہ پُرانا لگتا ہے، سہراب گوٹھ سمیت کراچی کے اکثر ’گوٹھوں‘ میں کھیت کیا کوئی پودینے کا باغ بھی نہیں، جسے دو دریا کا نام دیا گیا ہے وہ نِرا سمندر ہے۔

یہی معاملہ بلدیہ عظمیٰ کراچی، میئر کراچی اور کراچی انتظامیہ کا ہے، یعنی ایک کا کام کہیں دکھائی نہیں دیتا تو دوسری کا انتظام۔ اس صورت حال میں کمشنر کے وجود کا بذریعہ حکم ثابت ہونا بھی غنیمت ہے، جس سے شہر میں انتظامیہ کے ہونے کا سُراغ ملا۔

اب ہم آتے ہیں اصل بات کی طرف، یعنی کمشنر صاحب کا حکم۔ معلوم نہیں انہیں بالکونی میں کپڑے سُکھانا بُرا لگتا ہے یا یہ ہدایت انہوں نے شہر کو گل و گلزار بنانے کے لیے جاری کی ہے۔ جہاں تک تعلق ہے کپڑے سکھانے کا تو یہ فلیٹوں کی روایت ہے۔ ان سوکھتے کپڑوں کو دیکھ کر ہمیں کرشن چندر کا افسانہ ’مہالکشمی کا پُل‘ یاد آجاتا ہے، جس میں کرشن چندر نے لوہے کے جنگلے پر ٹنگی ساڑھیوں سے فی ساڑھی ایک کہانی برآمد کرلی تھی۔

اسی طرح بالکونیوں پر سوکھتے کپڑے بھی اہلِ خانہ کے راز کھول رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً چَڈیوں کے سائز سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ گھر کے بچے کس عمر کے ہیں، جس سے خاتون خانہ کے سن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ صاحب خانہ کی قمیض کا ٹوٹا ہوا بٹن بتا دیتا ہے کہ یا تو ان کی بیگم کا دل ٹوٹا ہے یا شوہر کی قسمت پھوٹی ہے۔

نسوانی ملبوسات اگر نئے ڈیزائن کے اور بیش قیمت ہیں تو کپڑے سُکھانے کے دُور رس اثرات سامنے کے فلیٹوں کے حضرات کی جیب پر پڑتے ہیں، اور اگر یہ لباس اپنے گھر کی بالکونی میں سوکھتے شامیانے کے مقابلے میں نصف حجم کے ہوں تو ان کے دل پر، اس صورت میں ’شامیانے والی‘ بالکونیوں کی مالکنیں اپنے ’شامیانے‘ مسلسل دھوکر ٹانگے رہتی ہیں کہ شوہر کو ’موازنے‘ کی سہولت میسر نہ آسکے۔

اگر بالکونی کی منڈیر پر کوئی ’خاکی‘ پتلون بھی سوکھتی نظر آجائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ ’یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا مقام ہے‘، پھر وہ فلیٹ چاہے پہلی منزل کا ہو اس کا مقام دیگر فلیٹوں میں بلند ترین ہوجاتا ہے۔

بالکونیوں پر سوکھتے کپڑے پردے کا کام بھی دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف خواتینِ خانہ کو نظر بھر کر اور منہ میں پانی بھر کر دیکھنے والے مردوں المعروف بہ تاڑو حضرات سے نجات مل جاتی ہے بلکہ گھریلو حالات کا بھی پردہ رہ جاتا ہے۔

اب اگر بالکونیوں میں کپڑے سکھانے کی ممانعت ہوگئی تو مکینوں کے حال جاننے سے پردے کی سہولت تک کیا کچھ ختم ہوجائے گا، پھر شہری یہ سوال کر رہے ہیں کہ کمشنر بھیا! ای تو بتاؤ، ہم فلیٹوں والے پھر کپڑے کہاں سکھائیں گے؟

یہ سوال کرنے والوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اس مسئلے کا آسان حل تو یہ ہے کہ وہ کپڑے دھونا چھوڑ دیں۔ یوں بھی کراچی میں جس طرح پانی کا بحران بڑھتا جارہا ہے اس سے لگتا ہے کہ اب روز منہ دھونے ہی پر اکتفا کرنا ہوگا اور باقی ساری ’دھلائیوں‘ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

ہمیں تو کمشنر صاحب کے اس حکم میں ان کی نیک نیتی صاف صاف نظر آتی ہے۔ وہ بیک وقت پانی اور خواتین کو کپڑے دھونے کی مشقت سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس حکم کی بنا پر ان سے بدگمانی رکھنے والے ان کی نیت جان کر شرم سے پانی پانی ہوجائیں گے اور سوکھنے کے لیے بالکونی پر لٹک جائیں گے۔

شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ پانی اور نسوانی بچاﺅ کی اس مہم میں کمشنر صاحب کا پوری طرح ساتھ دیں۔ اگر گندے کپڑے دھونا ہی ہیں تو بیچ چوراہے پر دھوئیں، جہاں ٹینکروں سے بہتا پانی کثرت سے دستیاب ہوگا۔ کپڑوں سے بھی داغ رگڑ رگڑ کر دھونے کی ضرورت نہیں کیونکہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ زیادہ پانی ضائع کرنے کے بجائے چھڑکاﺅ یا ایک دو کُلیاں کرکے قسم کھانے کے لیے دھلائی کی رسم پوری کرلی جائے۔ ان ’نم ناک‘ کپڑوں کو گیلا قرار دے کر سکھانے کے لیے چند پھونکیں بھی بہت ہوں گی، یقین رکھیں آپ کی پھونکوں پر کپڑے تُنک کر اور خندہ زن ہوکر یہ نہیں کہیں گے کہ ’پھونکوں سے یہ لباس سُکھایا نہ جائے گا۔‘

رہا سوال بالکونیوں میں گملے رکھنے کا تو اگر اس حکم کی اطلاع دیتی خبر میں صاف صاف ’پھول دار گملے‘ نہ لکھا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ صرف گملے رکھنے کو کہا گیا ہے اور ہم اپنی بالکونی میں خالی گملے لاکر رکھ دیتے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ گملوں میں پھول بھی ہوں، کمشنر صاحب بھول گئے کہ پھولوں کے پھلنے پھولنے کے لیے پانی کا ہونا ضروری ہے۔

پانی کے بغیر اور طرح کے گُل کھلائے جاسکتے ہیں مگر اصلی گُلوں کی نشو و نما نہیں کی جاسکتی۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اہل خانہ خود کسی خوشی سے پھول جائیں اور گملوں میں جا بیٹھیں، لیکن اس کے لیے خوشی کا ہونا ضروری ہے، جیسے مہنگائی کی قیمت کم ہونے کی اطلاع، پیٹرول کے نرخ گھٹنے کی خبر، ڈینگی کے ختم ہونے کا واقعہ، کراچی سے کوڑا صاف ہونے کا منظر، شہر میں پھرتے آوارہ کتوں کے خاتمے کی نوید۔

ایسی کوئی خوشی میسر ہے نہ اس کا امکان، چنانچہ خوشی سے پھولنا بھی ممکن نہیں۔ اب یہی ہوسکتا ہے کہ گملوں میں پلاسٹک کے پھول پودے لگا کر دل اور کمشنر صاحب کو بہلا لیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ طریقہ عرصے سے مستعمل ہے، جس کے ذریعے ’مطلوبہ‘ سیاسی قیادت اُگائی جاتی ہے، اس فصل کے پھولوں میں خوشبو ہوتی ہے نہ تِلوں میں تیل، اب یہی تجربہ گھر گھر کرنے میں کیا حرج ہے!

تبصرے (5) بند ہیں

Khan Nov 01, 2019 02:30pm
جامعی صاحب! کیا زوردار لگایا ہے پڑھ کر مزہ آگیا۔
زاہد بٹ Nov 01, 2019 03:51pm
عثمان جامعی صاحب نے جب بھی کالم لکھا، اس میں ہمیں بھی اپنے دل کی آواز نظر آئی۔ شکریہ۔ بس جن کے لئے لکھا ہے، وہ پڑھ لیں، اور پڑھ کے سمجھ لیں، اور سمجھ کے کچھ عقل سے کام بھی لیں۔
usman jamaie Nov 02, 2019 12:19pm
کرن، زاہد بٹ، شکریہ
سہیل احمدصدیقی Nov 02, 2019 03:29pm
ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوب۔۔۔۔۔۔حسب سابق۔۔۔۔۔۔۔۔۔احتیاطااس کی ایک عکسی نقل۔۔۔۔۔۔۔۔کمشنربھیاکوارسال کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ ان کی معلومات کی دھلائی بھی ہوسکے
usman jamaie Nov 04, 2019 03:10pm
shukria سہیل احمدصدیقی