شہرِ قائد کے مصائب اور آلام ہیں کہ کسی طرح کم نہیں ہو رہے۔ پہلے صرف امن و امان ہی ایک مسئلہ معلوم ہوتا تھا، مگر اب دیکھیے، تو کبھی پانی، بجلی، تو کبھی کچرا اور گندگی کا مسئلہ منہ زور ہوتا ہے۔ کبھی مکھیاں وبال بنتی ہیں اور کبھی ڈینگی جانیں نگلنے لگتا ہے اور اب دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں کتوں کا بول بالا ہے۔

گزشتہ روز سرجانی ٹاؤن کے رہائشی 45 سالہ محمد سلیم ’سگ گزید‘ کے سبب اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ وہ 6 ہفتے قبل اپنی بیٹی کو بچاتے ہوئے کتے کی زد میں آئے تھے۔

بھائی کے بقول محمد سلیم کو سندھ گورنمنٹ ہسپتال اور عباسی شہید ہسپتال لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں تو ویکسینیشن موجود ہی نہیں ہے۔ عباسی شہید ہسپتال کی انتظامیہ نے باہر سے ویکسین لانے کے لیے کہا۔ جب وہ لاکر دی تو وہ بھی پوری نہیں لگائی گئی اور آدھی لگاکر فارغ کردیا گیا۔ پھر جب طبیعت مزید بگڑی تو انہیں جناح ہسپتال لے جایا گیا مگر صورتحال بے قابو ہوتی گئی اور یوں محمد سلیم دم توڑ گئے۔

کہنے میں اور لکھنے میں یہ جتنا آسان ہے، حقیقت اس سے کئی گنا سخت اور مشکل ہے۔ ایک پورا گھرانا محض ایک کتے کے کاٹنے کی وجہ سے بے سہارا ہوچکا۔ اس ایک واقعے کی وجہ سے 6 بچے یتیم اور ایک عورت بیوہ ہوچکی، مگر باہر شہر کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

افسوس یہ کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اور سرکار کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے خدشہ یہ ہے کہ یہ آخری بھی نہیں تھا۔

تقریباً 2 ماہ قبل لاڑکانہ میں 10 سالہ بچہ میر حسن بھی اسی طرح ’سگ گزید‘ کا شکار ہوا اور ویکسینیشن نہ ملنے پر جان سے گزر گیا۔ جب صحافیوں نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے انتہائی انوکھا جواب دیتے ہوئے کہا کہ والدین بچے کو بہت تاخیر سے ہسپتال لائے اس لیے علاج نہیں ہوسکا۔

لیکن کوئی ہے جو بلاول ’صاحب‘ کو بتائے کہ اب جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ ملک کے کسی بھی دوسرے شہر سے کم سے کم 30 گنا زیادہ ٹیکس دینے والے کراچی میں پیش آیا ہے!

ابھی تو اندرونِ سندھ صحت کی بنیادی سہولتوں کا رونا رویا جا رہا تھا کہ اِدھر کراچی جیسے شہر میں یہ افسوسناک خبر سامنے آگئی۔ لیکن کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مصطفیٰ زیدی کے بقول

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

کتا مار مہم کی بات کی جائے، تو یہ مؤقف بھی سامنے آتا ہے کہ بھلا کتے مارنا بھی کوئی انسانیت ہے۔ چلیے اگر آپ کو کتے مارنے پر اعتراض ہے تو کوئی اور راستہ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ انہیں کم سے کم پکڑ کر ’شہر بدر‘ تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن صاحب، یہاں یہ بھی نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف کتے کے کاٹے کی ویکسینیشن کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، جس کے سبب لوگ سسک سسک کر مر رہے ہیں۔

کراچی میں کتوں کا مسئلہ نیا نہیں۔ ابنِ انشا نے تو بہت پہلے ہی کتے ’پالنے‘ کا ’ذمہ‘ کارپوریشن (بلدیہ) پر ڈالا تھا۔ وہی ’بلدیہ کراچی‘ اب یہ کہہ چکی ہے کہ اس کے پاس کتوں کو دینے کے لیے ’زہر‘ نہیں ہے، جس پر ایک بھنّائے ہوئے شہری نے کہا تھا کہ کہاں سے آئے گا، سارا زہر اپنے لہجوں میں جو گھول لیا ہے۔

احمد شاہ پطرس بخاری نے لکھا تھا کہ ’بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے، لیکن صاحب کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے اور کاٹنا شروع کر دے‘۔

کچھ ایسی ہی بات پچھلے سال ستمبر میں سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہی تھی کہ ’سگ گزید‘ کی ویکسین بہت مہنگی ہے، سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرنا چاہیے‘۔

اب اس بات سے ان کی کیا مراد ہے، یہ آج تک کسی کو سمجھ نہ آسکی۔ یہ ویکسین کوئی ’اے سی‘ ہے، گاڑی ہے یا کوئی عیاشی کی چیز ہے، جو سوچ سمجھ کر استعمال کریں؟ پھر مزید یہ بھی فرمایا کہ ’سب کتے پاگل نہیں ہوتے، بہت سے دفاع میں بھی کاٹتے ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ’دفاعی کارروائی‘ پر ٹیکہ نہیں لگنا چاہیے، تاکہ کتے کی ’بے ادبی‘ کرنے والے کو اپنے کیے کی سزا مل سکے۔

کتوں کی بے لگامی پر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ’سنگ و خشت مقید ہیں سگ آزاد‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایک نظم ’یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے‘ بھی لکھی، جس میں کہا کہ ’کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے، کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے!‘

ایسا لگتا ہے کسی نے سچ مچ کے کتوں کی سوئی ہوئی دم ہلادی ہے اور ایسی ہلائی ہے کہ 2019ء میں صوبے بھر میں کتے کے کاٹنے کے 92 ہزار واقعات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

خوفناک بات یہ ہے کہ اس کی زد میں بچوں کے ساتھ اسکوٹر سوار بھی آئے، جن پر کتوں کے غول کے غول حملہ آور ہوئے۔ کراچی کے پرآشوب دور میں ایک مرتبہ یہ کہا گیا کہ اگر ایک گلی میں ’وہ‘ ہو اور دوسری میں کتا تو کتے سے کٹوا لینے کا خطرہ مول لے لینا، لیکن دوسری گلی سے نہ جانا، پھر چند برس پیش تر نوبت یہ آئی کہ اب کتا کہتا ہے ’بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا‘۔

کتے سے متعلق چند مشہور مثل بھی ہیں۔

  • کتنا ہی جتن کرلو، کتے کی دم ہے، ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہتی ہے،
  • کتے بھونکتے رہتے ہیں قافلے گزر جاتے ہیں
  • کتا اگر لیلیٰ کا ہو تو اس کی ’عزت‘ بڑھ جاتی ہے، سائیں کا ہو تو پھر وہ بھی سائیں ہی کہلاتا ہے
  • کتا اگر کنویں میں گرا ہو تو اسے نکالنا ضروری ہے
  • کتا، دھوبی کا ہو تو نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔

ہمارے ایک سیاسی رہنما نے جذبات میں آکر کہہ ڈالا تھا کہ امریکا اگر کسی کتے کو بھی مارے گا، تو وہ اسے بھی شہید مانیں گے! بات نکلے گی تو دُور تلک جائے گی، ہم واپس کتوں پر آتے ہیں۔

رواں سال سندھ بھر میں ’سگ گزید‘ سے متاثرہ 14 جانیں جاچکی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ہم کتے مارنے کی بات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ آپ ضرور ان کی جانوں کا تحفظ یقینی بنائیے، لیکن انسانی جانوں کے بارے میں بھی تو کچھ سوچیے۔ یہ سوچ لیجیے یہ کتے معصوم انسانی جانوں کو نگل رہے ہیں۔ میرے شہر کے بچوں کو یتیم کر رہے ہیں۔ گھروں سے ان کا واحد کفیل چھین رہے ہیں۔ اس لیے کتے بے شک نہ ماریں، لیکن ان سے شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے تو کوئی اقدام کیجیے۔

کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹے کی ویکسینیشن ہی مہیا کردیں۔ اپنے شہریوں سے زندہ رہنے کا حق تو نہ چھینیے!

تبصرے (1) بند ہیں

Engineer Nov 06, 2019 04:09pm
جب صحافیوں نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے انتہائی انوکھا جواب دیتے ہوئے کہا کہ والدین بچے کو بہت تاخیر سے ہسپتال لائے اس لیے علاج نہیں ہوسکا۔ After all Dog will support dog not human.