ہانگ کانگ میں پولیس کی احتجاج کرنے والے شخص پر براہ راست فائرنگ

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2019
پولیس احتجاجی شخص کو حراست میں لے رہی ہے — فوٹو: اے پی
پولیس احتجاجی شخص کو حراست میں لے رہی ہے — فوٹو: اے پی

ہانگ کانگ میں 5 ماہ سے جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس افسر نے ماسک پہنے ایک شخص کو گولی ماردی جبکہ علیحدہ واقعے میں ایک شخص کو آگ لگادی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین جو پہلے ہی شہر بھر میں احتجاج کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی حب کو مفلوج کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، نے آج پولیس کی فائرنگ کے رد عمل میں ٹرین اسٹیشنز پر دھاوا بولا، سڑکوں پر ناکے لگائے اور دکانوں کو آگ لگائی۔

ایک اور ماسک پہنے شخص نے دوسرے شخص کو بحث کے دوران آگ لگادی، ہولناک منظر کو کئی لوگوں نے موبائل فونز کے کیمروں سے ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالا۔

پولیس نے الزام لگایا کہ مظاہرین نے اس سمیت دیگر پر تشدد حملے کیے ہیئں جن میں ٹرین کے ڈبے پر پیٹرول بم پھینکا جانا بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: چین کا ہانگ کانگ میں سخت سیکیورٹی قوانین لانے کا مطالبہ

پولیس ترجمان جون سے نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 'مسلسل ہونے والے پر تشدد واقعات ہانگ کانگ کے لیے تباہی کی صورتحال پیدا کررہے ہیں'۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے ویڈیو دکھائی جس میں ایک شخص کو نظر آتش کیا جارہا تھا اور ٹرین میں فائرنگ کی جارہی تھی۔

کاروباری روز کے آخر میں ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ ان واقعات پر حکومت کوئی رعایت نہیں کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں یہ واضح کررہی ہوں کہ ایسا نہیں ہونے والا'۔

فائرنگ کی سوشل میڈیا پر لائیو اسٹریمنگ

قریب کھڑے شخص کی جانب سے فیس بک پر براہ راست فائرنگ دکھائی گئی جس میں دیکھا گیا کہ مظاہرین کی جانب سے بند کیے گئے جنکشن پر ایک پولیس افسر نے ایک ماسک پہنے شخص کو گرفتار کرنے کے لیے پستول نکالی۔

فوٹیج میں دیکھا گیا کہ اسی دوران مظاہرین میں سے ایک دیگر شخص نے پولیس کو روکنے کی کوشش کی تو افسر نے اس پر گولی چلادی جس کے نتیجے میں وہ زمین پر گرگیا۔

حکام کا کہنا تھا کہ وہ ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں ہے۔

پولیس سربراہ نے افسر کا دفاع کرتے ہوئے کہ کسی بھی قسم کے خدشے کے پیش نظر اسلحہ نکالنا اور فائر کرنا اہلکاروں کا قانونی حق ہے۔

تاہم پولیس پر کئی مہینوں سے بے جا قوت کا استعمال کرنے کے الزامات عائد کرنے والے مظاہرین نے واقعے کی خودمختار انکوائری کا مطالبہ کیا۔

احتجاجی مظاہرے میں شامل آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ شخص کا کہنا تھا کہ 'مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پولیس کو اس طرح کا جبر کرنے اور مظلوم عوام کو نقصان پہنچانے کی کیا ضرورت ہے، صورتحال بے قابو ہوتے جارہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ہانگ کانگ حکومت جھکنے پر مجبور، ملزمان حوالگی کے متنازع قانون سے دستبردار

واضح رہے کہ مظاہرین اب تک 3 مرتبہ پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بن چکے ہیں تاہم کسی بھی واقعے میں کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی ہے۔

ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ 'جس شخص کو آگ لگائی گئی تھی وہ تشویش ناک حالت میں ہے'۔

تشدد میں اضافہ

ہانگ کانگ میں مسلسل 24 ہفتوں سے پر تشدد ریلیاں دیکھی گئی ہیں جن کا مقصد چین سے آزادی حاصل کرنا اور جمہوریت لانا ہے۔

خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا جس کے بعد سے چین نے یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کی ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ خطے پر اپنے کنٹرول کو سخت کر رہا ہے جس کی وہ مخالفت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب بیجنگ نے بھی ہار ماننے سے انکار کردیا ہے اور خبر دار کیا ہے کہ وہ مزید سخت سیکیورٹی اقدامات کرے گا۔

مزید پڑھیں: ہانگ کانگ: عوام کے نئے مطالبات، حکومت کے خلاف مظاہرہ

ہانگ کانگ میں جاری کشیدگی رواں ہفتے کے آغاز میں مزید بڑھ گئی تھی جب پولیس کے کلیئرنس آپریشن کے دوران 22 سالہ طالب علم گر کر زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہوگیا تھا۔

خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں ملزمان کی حوالگی سے متعلق بل کی منظوری کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا جس کے بعد حکومت نے یہ بل واپس لے لیا تھا، تاہم مظاہرین اب بھی احتجاج کر رہے ہیں اور پولیس اہلکاروں کے تشدد کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں