فردوس اعوان، چوہدری غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کیسز کے فیصلے محفوظ

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2019
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ 25 نومبر کو فیصلے سنائیں گے — فائل فوٹوز: ڈان نیوز
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ 25 نومبر کو فیصلے سنائیں گے — فائل فوٹوز: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی پر توہین عدالت کے کیسز کے فیصلے محفوظ کرلیے۔

چوہدری غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کے کیسز کے فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ 25 نومبر کو سنائیں گے۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کو ڈیل سے جوڑنے پر وفاقی وزیر برائے ہوا بازی چوہدری غلام سرور کی سرزنش کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ' آپ وفاقی کابینہ کے نمائندے ہیں، آپ نے حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ پر سوالات اٹھائے ہیں'۔

مزید پڑھیں: نوازشریف کی رہائی سے متعلق بیان پر چوہدری غلام سرور سے جواب طلب

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ' اسی میڈیکل بورڈ پر عدالت نے فیصلہ سنایا اور آپ نے اسے جعلی قرار دے دیا'۔

جس پر وفاقی وزیر ہوا بازی چوہدری غلام سرور خان نے کہا کہ انہوں نے میڈیکل بورڈ پر شک کا اظہار کیا تھا۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ' آپ نے زیر التوا کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے، یہ توہین عدالت ہے اور آپ کو احساس ہی نہیں کہ آپ نے کیا کہا ہے'۔

چوہدری غلام سرور نے کہا کہ کہ ' مجھے یقیناً احساس ہے'، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ کی عزت کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فردوس عاشق کی پرانے نوٹس پر غیرمشروط معافی قبول، توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ' آپ کو بلانے کا مقصد آپ کو سمجھانا ہے، آپ نے اپنی باتوں سے لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد اٹھانے کی کوشش کی'۔

جس پر چوہدری غلام سرور نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی اور کہا کہ ' میرے الفاظ سے عدالت کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معافی چاہتا ہوں'۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ' عدالت کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی عدالتی فیصلے تاریخ میں لکھے جاتے ہیں'۔

علاوہ ازیں فرودس عاشق اعوان بھی توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں تھیں۔

جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے خلاف توہین عدالت کے کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کرلیا۔

توہین عدالت کیسز کا پس منظر

خیال رہے کہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں عدلیہ پر تنقید کی اور کہا کہ نواز شریف کو ضمانت دینے کا حکم مختلف بیماریوں کا سامنا کرنے والے قیدیوں کو اسی طرح کی درخواستیں دینے کے لیے راستہ کھولے گا۔

تاہم یکم نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے نوٹس پر فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرتے ہوئے انہیں عدالتی کیس پر اثر انداز ہونے پر ایک اور توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

بعدازاں 5نومبر کو توہین عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے ایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم 3 روز قبل فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم کے مطابق توہین عدلت کیس میں اپنا تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے ایک بار پھر معافی مانگی تھی۔

اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے قائد نواز شریف کی ضمانت کو ڈیل سے جوڑنے کا بیان دینے پر وفاقی وزیر برائے ہوابازی چوہدری غلام سرور خان سے جواب طلب کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل خالد محمود خان نے غلام سرور خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کروائی تھی جس میں نجی ٹی وی چینل پر نشر کیے گئے ٹاک شو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وفاقی وزیر غلام سرور نے نواز شریف کی رہائی کو حکومت اور سابق وزیراعظم کے درمیان ڈیل سے جوڑا تھا۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے کہا تھا کہ غلام سرور خان نے مبینہ ڈیل سے متعلق بیان دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ جعلی میڈیکل رپورٹ جاری کی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں