لاہور ہائیکورٹ: حکومت کی شرط مسترد، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2019
وفاقی حکومت نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر ملک سے باہر جانے کی اجازت کی درخواست کی سماعت کی مخالفت کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر ملک سے باہر جانے کی اجازت کی درخواست کی سماعت کی مخالفت کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کے شرط کو مسترد کیا جبکہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی پر انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی۔

عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے 7 ارب روپے کے بونڈ کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے حکم میں کہا کہ نواز شریف علاج کی خاطر 4 ہفتوں کے لیے ملک سے باہر جاسکتے ہیں اور علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔

شہباز شریف نے عدالت میں بیان حلفی جمع کرادیا
شہباز شریف نے عدالت میں بیان حلفی جمع کرادیا

عدالتی 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی اور صورت حال کی روشنی میں 7 ارب روپے کے بونڈ کی شرط کو معطل کرکے 4 ہفتوں کے لیے ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے ای سی ایل سے نام نکالنے اور حکومت کی جانب سے بونڈ کی شرط سے متعلق 5 سوالات اٹھائے ہیں اور اس درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے جنوری 2020 کے تیسرے ہفتے میں سماعت مقرر کردی ہے۔

بیان حلفی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں دو مرتبہ بیان حلفی جمع کرایا جس میں انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حلف نامہ جمع کرادیا۔

شہباز شریف نے دوسرے حلف نامے میں کہا کہ ‘میں یقین دلاتا ہوں کہ میرے بھائی نواز شریف کو 4 ہفتوں میں یا صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی اجازت اور پاکستان واپسی کے لیے فٹ ہونے پر وطن واپسی یقینی بناؤں گا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ڈاکٹروں کی رپورٹس کو سفارت خانے کے ذریعے عدالت کے رجسٹرار تک پہنچاؤں گا’۔

نواز شریف نے بھی بیان حلفی جمع کرادیا
نواز شریف نے بھی بیان حلفی جمع کرادیا

شہباز شریف نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ ‘اگر کسی موقع پر وفاقی حکومت کو پتہ چلے کہ نواز شریف صحت یابی کے باوجود بیرون ملک مقیم ہیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کو تصدیق کے لیے ڈاکٹروں سے ملنے یا ان کی صحت کے حوالے سے تصدیق کرنے کی اجازت ہوگی’۔

دوسرے بیان حلفی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ کہا ‘میں اپنے ماضی کے ریکارڈ کے مطابق 4 ہفتوں کے اندر یا جیسے ہی مجھے صحت یاب قرار دیا جائے اور میرے ڈاکٹروں کی جانب سے پاکستان آنے کے لیے فٹ قرار دیتے ہی پاکستان واپس آنے کی یقین دہانی کراتا ہوں’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘میں اپنے بھائی شہباز شریف کی جانب سے دیے گئے بیان حلفی پر عمل کرنے کا بھی پابند ہوں’۔

شہباز شریف کا قوم سے اظہار تشکر

عدالتی حکم کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عدالت عالیہ نے نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔

شہباز شریف نے وکلا کا شکریہ ادا کیا—فوٹو:ڈان نیوز
شہباز شریف نے وکلا کا شکریہ ادا کیا—فوٹو:ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکومت کی جانب سے عائد کی گئی غیر قانونی شرط کو مسترد کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔

شہباز شریف نے وکلا اور قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔

قبل ازیں جب عدالت نے سماعت شروع کی تو ابتدائی دلائل کے بعد4 مرتبہ سماعت ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کی تھی جس پر باقاعدہ سماعت کا آغاز آج صبح 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم سماعت کا آغاز تقریباً 30 منٹ تاخیر سے ہوا۔

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی عدالت میں پیش ہوئے اور ان کے علاوہ دیگر لیگی رہنما پرویز رشید اور احسن قبال بھی لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت

شہباز شریف کی قانونی ٹیم نے عدالت پہنچ کر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے اپنے دلائل شروع کیے۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر کی درخواست پر سماعت کی۔

علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری اشتیاق اے خان جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فیصل بخاری اور چوہدری خلیق الرحمٰن پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومتی میمورینڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ حکومت کے علم میں ہے کہ نواز شریف کی صحت تشویش ناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف حکومت کو بانڈز جمع نہیں کرانا چاہتے تو عدالت میں جمع کرا دیں۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کے وکیل بتائیں کہ کیا نواز شریف ضمانت کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔

عدالت نے شہباز شریف کی قانونی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نواز شریف سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتی حکم کے باوجود نواز شریف کے باہر جانے پر شرط ٹھیک نہیں، پی ٹی آئی رہنما

بعدازاں درخواست گزار کی قانونی ٹیم نے اس معاملے پر مشورے کے لیے 15 منٹ کی مہلت مانگی، جس پر عدالت نے سماعت 15 منٹ (ساڑھے بارہ بجے) تک ملتوی کردی۔

سماعت کا دوبارہ آغاز

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کا دوبارہ آغاز 15 منٹ تاخیر کے بعد تقریباً 12 بج کر 45 منٹ پر ہوا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں اور اگر ضمانت کے بعد ایسی شرائط لاگو ہوں تو، کیا اس سے عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی یا نہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے عدالت کی رٹ قائم کرنے کے لیے شرائط لاگو کی ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟

حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے شرائط اس لیے لاگو کیں تاکہ نواز شریف واپس آ کر عدالت میں پیش ہوں۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر نواز شریف بیرون ملک علاج کروانا چاہتے ہیں تو کرواسکتے ہیں مگر سابق وزیر اعظم عدالت کو مطمئن کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت مطمئن ہو تو ہمیں نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر اعتراض نہیں۔

اس موقع پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں ہو تو حکومت مداخلت نہیں کرسکتی اور ہم نواز شریف کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ سابق وزیراعظم جب بھی صحت مند ہوں ملک میں آجائیں گے۔

مزید پڑھیں: 'حکومت 7 ارب کے ضمانتی کاغذ پر نواز شریف کی توہین کرنا چاہتی ہے'

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ہم عدالت میں تحریری حلف نامہ دے دیتے ہیں کہ نواز شریف صحت یاب ہوکر پاکستان آئیں گے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف یقین دہانی کراتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو واپس لائیں گے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے تحریری حلف نامہ لے لیتے ہیں اور وفاق اس کو دیکھ لے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'یہ تحریری حلف نامہ عدالت میں دیا جائے گا اور اگر حلف نامے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے'۔

اس دوران شہباز شریف نے کہا کہ اللہ نواز شریف کو صحت دے اور اللہ تعالیٰ نواز شریف کو واپس لائیں گے۔

عدالت نے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کر دیں، جس کے بعد عدالت نے ایک مرتبہ پھر سماعت تقریباً دوپہر سوا ایک بجے 15 منٹ کے لیے ملتوی کر دی۔

نواز شریف اور شہباز شریف کی تحریری یقین دہانی کا ڈرافٹ عدالت میں پیش

بعدزاں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے تقریباً 1 بج کر 45 منٹ پر نواز شریف اور شہباز شریف کی تحریری یقین دہانی کا ڈرافٹ تیار کر کے ججوں کے چیمبر میں جمع کرادیا۔

ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریری یقین دہانی کا ڈرافٹ دو صفحات پر مشتمل تھا۔

وکلا کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے کے متن میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ نواز شریف صحت مند ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور اپنے عدالتوں میں اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے۔

ڈرافٹ میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف پاکستان کےڈاکٹروں کی سفارش پر بیرون ملک جا رہے ہیں اور بیرون ملک ڈاکٹر جیسے ہی اجازت دیں گے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب

عدالت کی جانب سے بیان حلفی کی کاپی تقریباً پونے دو بجے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو فراہم کردی گئی تاہم عدالت نے مقدمے کی سماعت ڈھائی بجے تک ملتوی کردی۔

حکومت کا ڈرافٹ کے متن پر اعتراض

ساڑھے تین بجے شروع ہونے والی سماعت میں شہباز شریف کے وکیل نے نواز شریف کی یقین دہانی کا درافٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

وکیل نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے بیان حلفی جمع کرایا ہے کہ جیسے ہی نواز شریف صحت یاب ہوں گے تو واپس آئیں گے۔

جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا کیا موقف ہے، عدالت کے پوچھنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ڈرافٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں اس درافٹ پر اعتراض ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ڈرافٹ میں یہ نہیں لکھا گیا کہ نواز شریف کب جائیں گے اور کب واپس آئیں گے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی تھی اور25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کیس کی مرکزی اپیل بھی مقرر ہے۔

وکیل نے کہا کہ نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے اور ضمانتی بونڈ جمع کرائیں، جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ہر کوئی جانتا ہے نواز شریف کی صحت خراب ہے۔

حکومت کا جوابی ڈرافٹ

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافت کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفر کر کہ ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔

عدالت اپنے تیار کردہ ڈرافٹ کی روشنی میں فیصلہ کرے گی

حکومتی وکیل نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ اگر حکومت کو اینڈیمنٹی بانڈ جمع نہیں کرانے تو عدالت میں جمع کرا دیں تاہم جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہ عدالت حکومتی شرائط سے متعلق فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہمارے خیال سے یہ درست نہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دی اور حکومت نے شرائط عائد کیں۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر نواز شریف کی صحت ٹھیک ہو جاتی ہے تو وفاقی حکومت کا بورڈ نواز شریف کا معائنہ کر سکتا ہے۔

بعدازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنا ڈرافٹ تیار کر کے فریقین کے وکلا کو دے گی اور اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔

لاہور ہائی کورٹ نے تقریباً 4 بجے نواز شریف کا نام ای ایل سی نکالنے پر مشتمل مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔

بعدازاں تقریباً 5 بجے عدالت کی جانب سے مجوزہ ڈرافٹ فریقین کے وکلا کو فراہم کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد حکومتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی اور حکم دیا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کو درخواست پر سماعت کا اختیار نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے سے متعلق درخواست کی مخالفت کی تھی اور عدالت میں موقف پیش کرتے ہوئے جواب جمع کرایا تھا کہ مذکورہ معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کو سماعت کا اختیار نہیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور نیب کا عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کر دیا تھا۔

درخواست پر وفاقی حکومت کا موقف

واضح رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے اپنا جواب جمع کرادیا؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری اشتیاق اے خان نے بتایا تھا کہ جواب جمع کرادیا گیا ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر ملک سے باہر جانے کی اجازت کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کا معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا

وفاقی حکومت نے عدالت میں اپنا موقف جمع کرایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کو درخواست کی سماعت کا اختیار بھی نہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے 45 صفحات پر مشتمل جواب میں استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر اس کو مسترد کرے۔

وفاق نے جواب میں کہا تھا کہ حکومت نے نواز شریف کو چار ہفتے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی ہے، بعد ازاں عدالت نے حکومتی موقف کی نقول مسلم لیگ (ن) کی وکلا ٹیم کو فراہم کردی تھی۔

شہباز شریف کا درخواست میں موقف

نواز شریف کا نام ای سے ایل سے نکالنے کے لیے درخواست ان کے بھائی شہباز شریف نے جمع کروائی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ 'وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی لیکن نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا'۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔

خیال رہے کہ شہباز شریف نے اپنی درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور چیئرمین قومی احتساب بیورو کو فریق بنایا تھا اور موقف اپنایا تھا کہ نواز شریف نے علاج کے لیے بیرون ملک جانا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے۔

7 ارب کی ضمانت نواز شریف کی توہین ہے، رہنما مسلم لیگ

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا تھا کہ میں اور اسمبلی میں موجود 84 اراکین قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومتی اراکین 7 ارب کے ضمانتی کاغذ کی بنیاد پر نواز شریف کی توہین کرتے رہیں گے۔

نواز شریف کو مشروط اجازت

واضح رہے کہ دو روز قبل کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے جس کے بعد انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ہوگی'۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹرز نے نواز شریف کے خون کی ٹیسٹ رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دے دیں

انہوں نے کہا تھا کہ '2010 کے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین اور 1981 کے آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کو ای سی ایل سے اس وقت تک نہیں ہٹا سکتے جب تک اس کی کوئی ضمانت حاصل نہ ہو'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'نواز شریف کی طبیعت اگر ٹھیک نہ ہو تو قیام میں توسیع کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے'۔

حکومتی شرط مسترد

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی شرط کا حکومتی فیصلہ مسترد کردیا تھا۔

وفاقی وزیر قانون اور معاون خصوصی احتساب کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصبانہ رویے اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کی عدالت سے ضمانت کے وقت تمام آئینی و قانونی تقاضے پورے اور ضمانتی مچلکے جمع کرائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کا نام 'ای سی ایل' سے نکالنے کو مشروط کرنا حکومت کا ناقابلِ فہم فیصلہ ہے اور عدالت کے اوپر ایک حکومتی عدالت نہیں لگ سکتی۔

واضح رہے کہ نواز شریف العزیزیہ ریفرنس میں اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے تھے کہ اس دوران نیب نے انہیں چوہدری شوگر ملز کیس میں تفتیش کے لیے اڈیالہ جیل سے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

نیب کی تحویل کے دوران ہی سابق وزیراعظم کی صحت بگڑی تو انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا۔

جہاں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا اور انہیں علاج کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے 8 ہفتوں کے لیے خصوصی اجازت مل گئی جس کے بعد وہ ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کردیے گئے۔

اس دوران سرکاری میڈیکل بورڈ نے بھی نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کی تجویز دی تاہم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ وزارت داخلہ اور نیب کے مابین گھومتا رہا۔

بعدازاں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے لیکن وہ 7 ارب روپے کے ضمانتی بانڈ جمع کرائیں گے۔

مذکورہ حکومتی فیصلے کو مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا اور لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست جمع کرادی۔

لاہور ہائی کورٹ نے درخواست کو قابل سماعت قرار دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں