برطانیہ، امریکا اور دیگر ممالک ہانگ کانگ میں مداخلت بند کریں، چین

18 نومبر 2019
پولیس نے یونیورسٹی کا گھیراؤ کرلیا—فوٹو:رائٹرز
پولیس نے یونیورسٹی کا گھیراؤ کرلیا—فوٹو:رائٹرز
مظاہرین پولیس کے گھیراؤ کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں—فوٹو:اے ایف پی
مظاہرین پولیس کے گھیراؤ کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں—فوٹو:اے ایف پی

لندن میں تعینات چینی سفیر نے امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کردیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے لیے چینی سفیر لیو شیاؤمنگ کا کہنا تھا کہ امریکا اور برطانیہ سمیت غیرممالک کو ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کردینی چاہیے جیسا کہ مظاہرین پولیس کے ساتھ تصادم کرہے ہیں۔

چینی سفیر نے کہا کہ ‘چند مغربی ممالک نے کھلم کھلا انتہائی تشدد پسند مظاہرین کی حمایت کی، امریکا کے ایوان نمائندگان نے واضح طور پر ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کے لیے نام نہاد ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اور ڈیموکریسی ایکٹ کا معاملہ اٹھایا جو چین کے اندرونی معاملات ہیں’۔

مزید پڑھیں:چین کا ہانگ کانگ میں سخت سیکیورٹی قوانین لانے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ ‘برطانوی حکومت اور دارالعوام کی خارمہ امور کی کمیٹی نے ہانگ کانگ کے حوالے سے چین سے متعلق غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے ہوئے رپورٹس شائع کیں’۔

برطانیہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘برطانیہ کے مخصوص سیاست دانوں نے بدترین رویہ اختیار کیا اور یہاں تک کہ ہانگ کانگ کی آزادی کا پراپیگنڈے کے سرغنہ کو ایوارڈ پیش کرنے کا منصوبہ بنایا’۔

چینی سفیر نے کہا کہ ‘ہانگ کانگ کی حکومت حالات کو قابو میں لانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے’۔

یونیورسٹی کا گھیراؤ

دوسری جانب ہانگ کانگ میں پولیس نے ایک یونیورسٹی کا گھیراؤ کر رکھا ہے جہاں پیٹرول بم اور دیگر ہتھیاروں سے لیس حکومت مخالف مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں گھیراؤ کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے تشدد کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔

برطانیہ کی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کو ہانگ کانگ کی یونیورسٹی میں دونوں جانب سے ہونے والے تشدد پر تشویش ہے اور مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں پھنسے ہوئے افراد کو محفوظ راستہ اور طبی امداد فراہم کردی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:ہانگ کانگ: پُرتشدد مظاہروں کے بعد طلبہ نے اسکولوں کا بائیکاٹ کردیا

وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ہانگ کانگ کی صورت حال، مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں پر تشویش ہے’۔

یونیورسٹی میں درجنوں افراد پھنسے ہوئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی
یونیورسٹی میں درجنوں افراد پھنسے ہوئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے پر مسلسل زور دے رہے ہیں اور پرامن احتجاج کی حمایت کریں گے’۔

برطانوی دفتر خاجہ کا کہنا تھا کہ ‘سب سے اہم یہ ہے کہ جو افراد احتجاج کے دوران زخمی ہوگئے ہیں انہیں مناسب طبی امداد دی جائے اور ان تمام افراد کو محفوظ راستہ دیا جائے جو علاقے کو چھوڑنا چاہتے ہیں’۔

اے ایف پی کے مطابق ہانگ کانگ کی پولی ٹیکنیک یونیورسٹی سے مظاہرین کو بے دخل کرنے کے لیے پولیس نے پرتشدد کارروائی دھمکی دی تھی جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں:ہانگ کانگ میں پولیس کی احتجاج کرنے والے شخص پر براہ راست فائرنگ

رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی مظاہرین اور پولیس کے درمیان میدان جنگ بنی ہوئی ہے جہاں درجنوں افراد یونیورسٹی کے گھیراؤ کو توڑنے کے لیے رسیاں بچھا کر اورمختلف انداز میں کوششیں کررہے ہیں۔

چین مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرچکا ہے اور خبردار کیا ہے کہ کسی قسم کے تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ہانگ کانگ میں رواں برس اس وقت احتجاج مظاہرے شروع ہوئے تھے جب نیم آزاد ریاست سے چین کو قیدیوں کے تبادلے کا ایک قانون منظور کیا گیا تھا جو بعدازاں واپس لیا گیا لیکن احتجاج مزید طول پکڑ گیا اور نہ صرف حکومت کی مخالفت کی گئی بلکہ آزادی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں