لکھاری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ گلوبل مائگریشن کے شعبے میں لیکچرار ہیں۔
لکھاری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ گلوبل مائگریشن کے شعبے میں لیکچرار ہیں۔

ریاستی شناخت سے محرومی کی عام یا علمی اعتبار سے سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت نہ رکھنے والا شخص ریاستی شناخت سے محروم یا بے ریاستی کہلاتا ہے۔ بے ریاستی آبادی کے تناظر میں اکثر و بیشتر مشرقی یورپ کی نیم خانہ بدوش کمیونٹی روما کو موضوعِ گفتگو بنایا جاتا تھا۔

تاہم بدلتے وقت کے ساتھ اس موضوع کا محور میانمار کی روہنگیا کمیونٹی بن چکی ہے۔ ان لاکھوں باشندوں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے جنہیں اس ملک کی شہریت دینے سے انکار کردیا گیا ہے جس میں وہ پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا انہیں میانمار یا پھر کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت اور خودمختاری کی فراہمی کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔

یہ صورتحال صرف انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے ہی تشویشناک نہیں بلکہ اس طرح خطرناک مثال قائم ہو رہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے دیگر ممالک بھی شہریت کے حوالے سے فیصلے کررہے ہیں کہ کون ان کا شہری ہے اور کون نہیں۔

بھارت کا شمال مشرقی ریاست آسام کے تقریباً 20 لاکھ افراد کو شہریت سے محروم اور انہیں اپنی شناخت ’ثابت‘ کرنے پر مجبور کیے جانے سے متعلق حالیہ فیصلہ اسی بات کو ثابت کرتا ہے۔ اب شناخت سے محرومی کے نتیجے میں ان لوگوں کے پاس پناہ گزین کیمپوں میں پڑے رہنے کے علاوہ اب کوئی اور ٹھکانہ ہی نہیں بچا۔

اس کے علاوہ پاکستان کا 2016ء میں سیکڑوں اور ہزاروں افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسے ’حالیہ دور میں پناہ گزینوں کو جبراً واپس بھیجنے کی سب سے بڑی مہم قرار دیا ہے‘۔

ان افغان باشندوں میں سے زیادہ تر تکنیکی اعتبار سے ریاستی شناخت سے محروم نہیں ہیں کیونکہ انہیں پناہ گزین کا درجہ ملا ہوا ہے۔ تاہم پاکستان میں پناہ گزینوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو اس وقت بھی فوری طور پر پاکستانی شہریت نہیں دی جاتی ہے (حالانکہ قانونی رو سے وہ شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں)، اور یہ معاملہ ایک عرصے سے سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے جب پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچوں کو پاکستان کی شہریت دینے کا وعدہ کیا تو اس پر انہیں شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث انہوں نے اس پورے معاملے سے ہاتھ کھینچ لیے۔ دوسری طرف یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا انہیں افغان شہریت بھی فراہم کی جائے گی یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ لوگ بھی ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جن کے پاس کوئی شہریت نہیں۔

یہ صورتحال اسی حوالے سے ایک اور واضح مثال ہے کہ کس طرح ریاستیں ان برادریوں کو اپنانے سے انکار دیتی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسے اپنا وطن پکارا ہوتا ہے بلکہ جہاں وہ پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں جتنا زیادہ عمل دخل زمینی سیاست کا ہے، بالخصوص پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کے درمیان، اتنا ہی زیادہ یہ بھی قواعد اور اصول کے خلاف ہے کہ آپ کسی شہری کو ’بے ریاست‘ بنادیں۔

اقوام متحدہ کے کنونشنز 1954 ریاستی شناخت سے محروم افراد کی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے کنونشن 1961 کا تعلق لوگوں کو ریاستی شناخت سے محروم کیے جانے سے ہے اور یہ دونوں ہی کنونشن ان مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

لیکن معاملہ یہ ہے کہ مذکورہ ممالک میں سے کوئی ایک بھی ان کنوینشنز کا دستخط کنندہ نہیں ہے، لہٰذا یہ ممالک کسی بھی قسم کے عالمی احتساب سے مستثنی ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے معروف پائیدار ترقی کے مقاصد میں بھی ریاستی شناخت سے محرومی کے معاملے کو نمایاں انداز میں شامل نہیں کیا گیا، جن کے حصول کا ہر ملک پابند ہے۔

لوگوں سے ان کی شہریت چھیننے اور ریاستی شناخت سے محروم کرنے کا بڑھتا رجحان باعثِ تشویش ہے۔ اس سے نہ صرف لاکھوں افراد پر مشتمل برادریوں کے لیے مشکلات کھڑی ہورہی ہیں بلکہ دیگر اقلیتی برادریوں کو ریاستی شناخت سے محروم کیے جانے کا عمل بھی سہل بن جائے گا۔

لوگوں کو ریاستی شناخت سے محروم کیے جانے کے عمل کے پیچھے ایک اور وجہ دہشتگردی کی روک تھام کا عالمی رجحان بھی ہے، جس کی ایک تازہ مثال انتہا پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی دلہنوں سے جڑا معاملہ ہے۔

جتنا زیادہ لوگوں کو ریاستی شناخت سے محروم کیا جائے گا اتنے ہی زیادہ پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اب جبکہ دنیا میں جہاں پہلے ہی عالمی پناہ گزین نظام پر لوگوں کی بڑی تعداد کا بوجھ لدا ہوا ہے ایسے میں ریاستی شناخت سے محروم ہونے والی آبادیاں خود کو زندہ رکھنے کے لیے انہی محدود وسائل کے حصول کی خاطر ہر حد تک جائیں گی۔

جنوبی ایشیا میں لوگوں کو ریاستی شناخت سے محروم کرنے والے ملکوں کے آپسی سیاسی تعلقات صورتحال کو جس انداز میں مزید بگاڑ دیتے ہیں، اسے مدِنظر رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کے لیے یہ ایک بہت ہی کٹھن چیلنج رہے گا۔

روہنگیا باشندوں کو اپنے ہاں ٹھہرانے میں بنگلہ دیش کو مسئلہ ہے اور اس کے میانمار کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔

بھارت میں جن افراد سے ریاستی شناخت چھینی گئی ہے ان پر غیر قانونی بنگلہ دیشی شہری ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ اپنے نازک حالات سے دوچار تعلقات کو ہرگز خراب کرنا نہیں چاہے گا پھر چاہے اس کے لیے 20 لاکھ لوگوں کو اپنے ہاں ٹھہرانا ہی کیوں نہ پڑجائے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو اس پر پہلے ہی پناہ گزینوں کا بھاری بوجھ لدا ہوا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ تعلقات عدم استحکام کا شکار ہیں، پھر بنگلہ دیش کے ساتھ بھی تاریخی دوریاں موجود ہیں، اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی کافی کمزور پائے جاتے ہیں۔

مگر زمینی سیاست انسانیت کے دکھوں اور تکلیفوں کو کبھی خاطر میں ہی نہیں لاتی۔ جنوبی ایشیا میں ریاستی شناخت سے محروم افراد کی حالتِ زار جنگ اور قحط کے متاثرین سے بھی بدترین ہے، ایسی بدترین حالت جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔

کسی شخص کی شناخت، جو اسے پیدائشی حق کی صورت میں ملی ہو یا پھر کسی ملک میں آباد ہونے پر فراہم کی گئی ہو، اس سے انکار انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں سے ایک شمار کی جاسکتی ہے۔

ان مظالم کو نظر انداز کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کے اندر ریاستی شناخت سے محروم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے لہٰذا سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کو فوری طور پر اس طرف دھیان دینا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ باقی دنیا کو بھی اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرنی ہوگی۔


یہ مضمون 26 نومبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں