بھارت کے چاند پر بھیجے جانے والے خلائی مشن چندریان کے تباہ ہوجانے والے لینڈر کو لگ بھگ 3 ماہ بعد امریکی ادارے ناسا نے تلاش کرلیا۔

ناسا کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ' تصویر (اوپر لگی ہوئی تصویر) میں وکرم لینڈر کے گرنے اور ملبے کے میدان کو دیکھا جاسکتا ہے، سبز نشان خلائی گاڑی کے ملبے (مصدقہ یا ممکنہ)کا عندیہ دیتے ہیں، نیلے نشان سے زمین پر اثر کی نشاندہی ہوتی ہے، جبکہ اس ملبے کی نشاندہی کرنے والے شانموگا سبزمنیم کی جانب اشارہ کرتا ہے'۔

چندریان ٹو کا لینڈر جسے وکرم کا نام دیا گیا تھا، وہ 6 ستمبر کو چاند کے قطب جنوبی پر لینڈنگ سے قبل آخری لمحات میں خاموش ہوگیا تھا اور اس کے بعد سے اس کی تلاش کا سلسلہ جاری تھا۔

اس لینڈر کو چاند کے 2 گڑھوں کے درمیان اترنا تھا اور خاموش ہونے سے پہلے جو اس نے آخری ٹریکنگ ڈیٹا بھیجا تھا، اس سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ راستے سے ہٹ چکا ہے۔

ناسا کی جانب سے حادثے کے مقام کی اولین تصاویر 17 ستمبر کو لی گئی تھیں اور اس موقع پر سائنسدان وکرم لینڈر کو تلاش نہیں کرسکے تھے۔

ناسا کے مطابق تاہم 26 ستمبر کی تصاویر کو پبلک کیے جانے کے بعد ایک انجنیئر شانموگا سبزمنیم نے ان کو ڈاﺅن لوڈ کرکے تباہ ہونے والی خلائی لینڈر کو دریافت کیا۔

بعد ازاں انہوں نے ناسا کے ایل آر او پراجیکٹ سے رابطے کرکے ملبے کی شناخت کے بارے میں بتایا اور وہاں کی تحقیقی ٹیم نے بھی اس مقام کی پرانی اور حالیہ تصاویر کا موازنہ کرنے کے بعد اس کی تصدیق کردی۔

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

اس کی مزید تصدیق کے لیے ٹیم نے زیادہ بہتر روشنی کی تصاویر کو 14 اکتوبر اور 11 نومبر کے درمیان ناسا کی خلائی گاڑی ایل آر او نے لیا۔

مشن میں کب کیا ہوا

بھارت کی جانب سے 22 جولائی کو بھجوایا گیا مشن 20 اگست کو چاند کی مدار میں پہنچ گیا تھا تاہم یہ مشن اپنی آخری منزل سے محض سوا 2 کلو میٹر کی دوری پر ناکامی سے دوچار ہو گیا تھا۔

بھارت کا خلائی مشن 22 دن تک زمین کے مدار میں تھا اور 14 اگست کو اس مشن نے چاند کے مدار کی جانب سفر شروع کیا تھا اور 20 اگست تک ’چندریان ٹو‘ چاند کے مدار میں داخل ہوگیا تھا۔

ریسرچ ادارے کی جانب سے چاند کی سطح پر پہنچنے کی براہِ راست نشریات جاری تھیں، جس میں دیکھا گیا تھا کہ جب کنٹرول اسٹیشن کو وکرم کی جانب سے سگنلز موصول ہونا رک گئے تو سائنسدان یک دم پریشان نظر آئے اور پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

لینڈر وکرم کا مطلوبہ منزل تک پہنچنے سے محض 2 اعشایہ ایک کلو میٹر کے فاصلے اور مقررہ وقت سے 45 منٹ قبل بھارتی خلائی ادارے سے رابطہ منقطع ہوگیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔

لینڈر وکرم کے اپنی منزل تک نہ پہنچنے اور اس کا رابطہ بھارتی خلائی ادارے سے نہ ہوپانے پر خلائی ادارے کے سربراہ کے سیون جذباتی ہوکر رو پڑے تھے۔

تاہم 9 ستمبر کو اس خلائی مشن کی باقیات کی چاند کی سطح پر موجودگی کا انکشاف ہوا اور اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے انڈین اسپیس اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کے چیئرمین کے سیوان کے حوالے سے بتایا کہ کیمروں سے مشن کے آربیٹر کی چاند کی سطح پر موجودگی کا پتہ چلا ہے اور یہ ایک مشکل لینڈنگ رہی ہو گی۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس خلائی مشن کو چاند کے ایک دن کی مناسبت سے تیار کیا گیا تھا جو زمین کے 14دن کے برابر بنتا ہے اور صحیح طریقوں پر عملدرآمد کی بدولت یہ اب بھی توانائی پیدا کرنے اور سولر پینل کی مدد سے بیٹری چارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تاہم اس مشن سے منسلک ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

ایک اور آفیشل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مشن کے چاروں ٹانگوں پر نہ اترنے کے سبب بیٹری کو چارج کرنے کے عمل کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دیا جا سکتا اور دوبارہ رابطہ بھی ممکن نہیں۔

اگر بھارت کا خلائی مشن کا یہ تجربہ کامیاب رہتا تو وہ دنیا کا چوتھا ملک ہوتا جس کا خلائی مشن چاند پر اترا ہو جبکہ روبوٹک روور کی مدد سے آپریٹ کرنے والا دنیا کا تیسرا ملک ہوتا۔

جولائی میں مشن روانہ کرتے ہوئے بھارت کو امید تھی کہ وہ امریکا، روس اور چین کے بعد کامیابی سے چاند پر اترنے والا چوتھا ملک اور اس کے قطب جنوب تک پہنچنے والا پہلا ملک بن جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

چندریان 2 نامی خلائی مشن پر بھارت نے 140ملین ڈالر خرچ کیے تھے لیکن اس کے خلائی جہاز کا چاند پر اترنے سے پہلے ہی رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں