لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

خاموشی کو شاید ہی پہلے اتنا زیادہ شور مچاتے دیکھا ہے۔

ایک ایسی حکومت جس نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے پورے زور و شور سے یہ وعدے کیے تھے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گی، اس کی ایک ایسے وقت میں خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، جب لندن میں اتنی بڑی مچھلی پکڑی جاچکی ہو، اور ضبط شدہ رقم کو ’ریاستِ پاکستان‘ کے حوالے کرنے سے متعلق برطانوی حکام نے وعدہ بھی کرلیا ہو۔

اس پورے معاملے سے متعلق زیادہ حقائق ابھی منظرِ عام پر نہیں آسکے ہیں لیکن ہم یہ سب ضرور جانتے ہیں کہ رواں سال اگست میں نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ اسے ’ایسے 8 بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں جن میں 10 کروڑ پاؤنڈز سے زائد رقم جمع ہے، شک ہے کہ یہ رقم سمندر پار ملکوں میں رشوت اور کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی ہے‘۔

اگرچہ پریس ریلیز میں کسی کا بھی نام درج نہیں ہے مگر اس میں اتنا ضرور لکھا تھا کہ ’احکامات کے مطابق این سی اے ان رقوم کے حوالے سے مزید تحقیقات کرنے کی مجاز ہوگی۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں بدعنوانیوں سے حاصل شدہ رقم یہاں جمع کروائی گئی ہے یا پھر بدعنوانیوں میں استعمال کے ارادے سے محفوظ کی گئی ہے تو این سی اے ان پیسوں کو ری کور کرنے کی کوشش کرے گی‘۔

اس پریس ریلیز میں کسی بشر کا ذکر ایک سطر میں پڑھنے کو ملتا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’دسمبر 2018ء میں ہونے والی ایک سماعت کے بعد ایک متعلقہ شخص کی تقریباً 2 کروڑ پاؤنڈز کی رقم منجمد کی گئی ہے‘۔

اس کے محض چند دن پہلے ہی ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ’وہ متعلقہ شخص‘ درحقیقت ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ ہے۔ این سی اے کی پریس ریلیز میں یہ بتایا گیا ہے کہ این سی اے کی جانب سے ’ملک ریاض حسین کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں‘ تصفیہ ہوا اور پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ پہلے سے منجمد 9 اکاؤنٹس کے علاوہ لندن کے علاقے ہائیڈ پارک ون میں واقع فلیٹ کو بھی ضبط کرلیا گیا ہے۔ حکام نے اس فلیٹ کی قیمت 5 کروڑ پاؤنڈ بتائی۔

جیسے ہی یہ خبر منظرِ عام پر آئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں کی جانب سے داد و تعریف کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ ہمارے رہنما کے وعدے کی تکمیل کا آغاز ہوا چاہتا ہے تاہم حکومتی حلقے میں ایک عجیب سی بے اطمینانی محسوس کی گئی۔

حکومت کے وہ نمائندگان جو بے باکی کے ساتھ ٹی وی پر آکر اپنی کامیابیوں کے راگ الاپنے کا حد سے زیادہ شوق رکھتے ہیں، نہ جانے کیوں اتنے شرمیلے ہوگئے ہیں۔ کئی اینکروں نے بھی اپنے شوز میں اس موضوع کو زیادہ چھیڑنا پسند نہیں کیا۔ لیکن ہاں، میں نے ایسی شخصیات بھی ضرور دیکھیں جو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھیں۔

انہی شخصیات میں سے ایک کے شو میں حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان بطورِ مہمان شریک تھیں۔ اینکر نے جب ان سے پوچھا کہ حکومت اس معاملے پر اتنی خاموش کیوں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ وزیرِاعظم کے اپنے ایسیٹ ری کوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر، کل (یعنی بدھ کے روز) پریس کانفرنس کریں گے اور اس معاملے کے حوالے سے تمام تفصیلات سے بھی آگاہ کریں گے۔ اس کے ساتھ وہ بتائیں گے کہ اس میں حکومت کا کردار کیا تھا اور یہ کہ ’ہماری وہ کون سی مجبوریاں ہیں جو اس معاملے سے جڑی ہوئی ہیں‘۔

شیخ رشید ویسے تو وفاقی وزیرِ ریلوے ہیں لیکن انہیں کل وقتی ٹی وی پرسن کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں اینکر کو بتایا کہ ’کابینہ کے اجلاس میں ہمیں اس معاملے پر خاموش رہنے کے لیے کہا گیا ہے‘۔

تاوقتِ تحریر شہزاد اکبر نے نہ پریس کانفرنس کی ہے اور نہ ہی کسی ٹی وی شو پر آکر کسی کو بھی کچھ بتایا ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک مرتبہ منظرِ عام آئے ضرور تھے لیکن انہوں نے این سی اے کے معاملے پر بہت ہی سطحی بات کی اور آگے بڑھ گئے۔ ہمارے پاس صرف اور صرف ایک عجیب و غریب انداز میں لکھی جانے والی ایک پریس ریلیز ہے جسے اسی دن ٹوئیٹر پر جاری کیا گیا جس دن این سی اے نے انکشافات کیے تھے۔

شہزاد اکبر کی پریس ریلیز پھیکی اس لیے ہے کہ حقائق کو اگر مدِنظر رکھا جائے تو اس میں 2 باتیں بہت ہی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ جائیداد کو یہ کہہ کر شریف خاندان سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’اس سے پہلے یہ سابق وزیرِاعظم پاکستان نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی ملکیت تھی‘۔ جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ اس پریس ریلیز کے ذریعے ملک ریاض کو یہ کہہ کر معاملے سے بَری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ’تصفیہ ایک سول معاملہ ہے اور اس میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا‘۔

ان دونوں بیانات کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی تھی۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کو کہتے پایا گیا کہ پاناما کہانی کی خبر منظرِ عام پر آنے سے چند ہفتے پہلے مارچ 2016ء میں پرانے مالکان نے پکڑے جانے کے ڈر سے بلاتاخیر اس جائیداد کو فروخت کردیا تھا۔ حالانکہ پاناما کیس کا اس جائیداد سے نہیں بلکہ ایون فیلڈ فلیٹ سے تعلق ہے جو ہائیڈ پارک ون سے کافی زیادہ دُور واقع ہے۔

یہ سچ ہے کہ جے آئی ٹی ٹیم کی پوچھ گچھ اور عدالتی کارروائیوں کے دوران اس پر بھی بات ہوئی تھی لیکن یہ جائیداد کبھی بھی اس کیس کا متنازع پہلو نہیں بنی، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کی منی ٹریل اور خرید و فروخت کی تمام تر تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔ عدالتی حکم نامے میں بھی اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔

وہ سطر جس میں ملک ریاض کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اسے ملک ریاض نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر پریس ریلیز جاری ہونے سے 2 گھنٹے پہلے ہی شیئر کردی تھی، جو کافی عجیب بات ہے۔

ملک ریاض نے عجیب و غریب تحریر والی اس دستاویز کی تصویر شیئر کی تھی جس پر ’نوٹ ٹو ایڈیٹرز‘ کی سرخی پڑھی جاسکتی ہے۔ اس میں شامل چند جملوں کو 2 گھنٹے بعد شہزاد اکبر کی پریس ریلیز میں بھی پایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ شہزاد اکبر کی پریس ریلیز میں ملک ریاض کو بے گناہ ثابت کرنے سے متعلق جملہ 2 بار شامل کیا گیا ہے۔ اب یا تو یہ جلد بازی کا کیا دھرا ہے یا پھر اس نکتے پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے

دونوں ہی حالات میں اس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ شہزاد اکبر کی پریس ریلیز کی تیاری میں ملک ریاض کا عمل دخل شامل رہا ہے اور تیزی سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کے پیش نظر انہوں نے جلد بازی میں پریس ریلیز کا ابتدائی ڈرافٹ ہی ٹوئیٹ کردیا۔

شہزاد اکبر کے لیے پریس کانفرنس کرنے کا یہی اچھا وقت رہے گا۔ حالیہ مہینوں میں لندن میں ان کی ملک ریاض کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا آخر معاملہ کیا ہے؟ حکومت کیوں اس پیش رفت کا سہرا اپنے سر سجانے میں اتنی سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے، حالانکہ جج صاحبان کی جائیدادوں پر نظر رکھنے کے عمل کو فوراً اپنا کارنامہ بتا دیتی ہے، جس کا اندازہ یکم جون 2019ء کو جاری ہونے والی اے آر یو کی پریس ریلیز سے لگایا جاسکتا ہے؟

شہزاد اکبر کو ملک ریاض کے اس بیان کی وضاحت کرنی ہوگی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ضبط شدہ رقم سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں واجبات کی مد میں دیے جائیں گے۔

خاموشی ہی جُرم کو پنپنے دیتی ہے۔ اکبر صاحب کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ حکومتی وعدے کے مطابق جلد ہی پریس کانفرنس بُلائیں۔


یہ مضمون 5 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں