خیبرپختونخوا حکومت کا بی آر ٹی کی تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2019
پشاور ہائی کورٹ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا
پشاور ہائی کورٹ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا—فائل فوٹو: عبدالمجید گورایا

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کرنے کا حکم دینے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سول پٹیشن تیار کرلی ہے جسے آئندہ ہفتے دائر کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پٹیشن میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے قانونی نکات اٹھانے کے ساتھ عدالت کے از خود اختیار کے بارے میں بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل بینچ نے 14 نومبر کو بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کو متنازع پشاور بس منصوبے کی تحقیقات کا حکم

2 درخواست گزاروں افضل کریم آفریدی اور عدنان آفریدی نے حیات آباد ٹاؤن شپ میں واقع اپنے گھروں کے ساتھ تعمیر شدہ منصوبے کے مخلتف حصوں پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اس کے علاوہ ایڈووکیٹ عیسیٰ خان نے بھی عدالت سے استدعا کی تھی کہ منصوبے میں زیادہ سے زیادہ 100 میٹر کے فاصلے پر بالائی گزر گاہ یا زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا حکم دیا جائے۔

جس پر بینچ نے 35 نکات تشکیل دے کر ایف آئی اے کو ان پر تحقیقات اور اس میں پائی جانے والی خامیوں پر کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) نے بھی بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ برس نیب کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں:بی آر ٹی کی بروقت تکمیل کیلئے وفاقی افسران کی خدمات لینے کا فیصلہ

انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے تو ہائی کورٹ کس طرح ایک دوسرے ادارے کو اس کی تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے؟

دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ بینچ کی جانب سے اٹھائے گئے 35 نکات، تینوں درخواستوں میں سے کسی میں شامل نہیں تھے لہٰذا بینچ کو اپنا ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرنا پڑا۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس لینا کا اختیار موجود نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عالیہ کے ایک دوسرے بینچ نے دسمبر 2017 میں بی آر ٹی منصوبے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا لہٰذا ان نکات پر ایک اور بینچ کو ہدایات نہیں دینی چاہیے ۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور بس پروجیکٹ کی لاگت 71 ارب روپے تک پہنچ گئی

یاد رہے کہ پشاو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں بینچ نے نیب کو 17 جولائی 2018 کو بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن صوبائی حکومت اور پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی تھی۔

جس کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو عدالت عالیہ کا حکم معطل کردیا تھا جس کے باعث نیب کی ابتدائی تحقیقات منظر عام پر نہیں آسکی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں