حکومت سندھ کا بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2019
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم کے حصول کے لیے اگست میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم کے حصول کے لیے اگست میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن

کراچی: سندھ کابینہ کی ہدایت پر صوبے کے اعلیٰ قانونی افسر سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کریں گے جس میں استدعا کی جائے گی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے جمع کروائے گئے فنڈز کے حصول کے لیے زیر التوا پٹیشن کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم کے حصول کے لیے اگست میں درخواستیں دائر کی تھیں۔

سندھ حکومت نے عدالت عظمٰی کے حکم پر بحریہ ٹاؤن کی جمع کروائی گئی رقم اور مستقبل میں اس مد میں کی جانے والی ادائیگیاں سندھ حکومت کو منتقل کروانے کے لیے ایڈووکیٹ جنرل (اے جی) سلمان طالب الدین کے ذریعے اگست میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق کے بعد سندھ حکومت بھی بحریہ ٹاؤن کے 'تصفیہ فنڈ' کے حصول کیلئے کوشاں

پیر کو ہونے والے کابینہ اجلاس کے بعد صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے بتایا کہ سندھ کابینہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی اور کابینہ نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مذکورہ رقم صوبے میں پانی کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔

اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ میں پہلے سے دائر درخواست اب تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوسکی جس پر کابینہ نے انہیں ہدایت کی اس کارروائی کو تیز کرنے کی کوشش کریں اور اب وہ عدالت عظمیٰ میں ایک اور درخواست دائر کریں گے۔

سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز کے حصول کی کوششیں اس وقت تیز ہوئیں جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خاندان سے 19 کروڑ پاؤنڈز کی خطیر رقم برآمد کر کے اسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا۔

مزید پڑھیں: برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا

اس سے قبل اگست میں جمع کروائی گئی درخواست میں ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے 21 مارچ کو بحریہ ٹاؤن کو ہدایت کی تھی کہ وہ کراچی میں 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کے لیے حکومت سندھ کو (بیعانہ) ڈاؤن پیمنٹ ادا کرے۔

درخواست کے متن کے مطابق مالی سال 19-2018 میں فیڈرل ٹیکس کلیکشن میں کمی کے باعث وفاقی حکومت کو سنگین مالی بحران کا سامنا تھا جس کی وجہ سے حکومت سندھ کو بجٹ میں مختص 6 کھرب 5 ارب 60 کروڑ روپے کے بجائے 30 جون تک صرف 4 کھرب 39 ارب روپے دیے گئے یعنی 1 کھرب 12 ارب روپے کم اور قابلِ تقسیم وفاقی محصولات کے 5 کھرب 8 ارب روپے روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مقابلہ میں 74 ارب 99 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔

درخواست میں کہا گیا کہ حکومت سندھ کو مالی سال 19-2018 میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ کے لیے مختص شدہ 14 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ روپے کی رقم کے مقابلے صرف 9 ارب 90 کروڑ روپے ملے جس سے نہ صرف وہ منصوبے خطرے میں پڑ گئے جن کا کام تکمیل کے مراحل میں تھا بلکہ ان کا کام بھی متاثر ہوا جو ابھی شروع ہی کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تصفیے سے حاصل 19کروڑ پاؤنڈ سماجی بہبود کیلئے استعمال ہوں گے، شہزاد اکبر کی وضاحت

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ عدالت عظمیٰ متعلقہ اداروں کو ہدایت کرے کہ نہ صرف بحریہ ٹاؤن کی جانب سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی ڈاؤن پیمنٹ سندھ حکومت کو منتقل کی جائے بلکہ مستقبل کی بھی تمام ادائیگیاں سندھ حکومت کو دی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی تمام رقم شفاف طریقے سے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ کرنے کا عزم کیا ہے جس کی نگرانی وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں بنائی گئی ایک کمیٹی کرے گی۔

یاد رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 4 مئی 2018 کو دیے گئے فیصلے کے اطلاق کے لیے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 4 کھرب 60 ارب روپے کی پیشکش قبول کی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا مذکورہ زمین سندھ حکومت نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو اضافی ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر کے لیے دی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اپنی طرف سے زمین بحریہ ٹاؤن کے حوالے کردی تھی۔


یہ خبر 10 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khan Dec 11, 2019 10:30pm
پہلی بات تو یہ ہے کہ برطانیہ سے ملنے والی رقم کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ کیا یہ رقم غیر قانونی طور پر کمائی گئی تھی جو حکومت پاکستان کو واپس کی گئی یا پھر یہ ملک ریاض کی قانونی رقم ہے جو وہ بحریہ ٹاؤن کی ادائیگی کے سلسلے میں ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ رقم ملک ریاض کی جانب سے غیر قانونی طور پر ملک سے منتقل کی گئی تھی اور اب پاکستان کو واپس کی گئی تو اس رقم کو بحریہ ٹاؤن ادائیگی کے لیے استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو حکومت پاکستان کو واپس دے دیا جانا چاہیے کیونکہ اس معاملے کے بعد سے ہرطرف چپ سی لگی ہوئی ہے نہ تو حکومت اصل حقائق بتانے کے لیے تیار ہے ہے نہ کوئی صحافی اس رقم کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب نے ہونٹ سی لیے ہیں۔ اگر سندھ حکومت کی اس بات کو مان لیا جائے کہ اس رقم پر سندھ کا حق ہے تو پھر اس رقم پر کراچی کا زیادہ حق ہے۔
Khan Dec 11, 2019 10:30pm
دوسری بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کو یہ رقم کس لیے دی جائے۔ سندھ حکومت دس بارہ سال سے صوبے میں حکمرانی کر رہی ہے کیا وہ اپنا کوئی ایک ایسا منصوبہ بتا سکتی ہے جو اس نے اچھے طریقے سے مکمل کیا ہو اور وہ اب تک لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہو۔ گزشتہ دنوں کتنے ہی انڈرپاسز اور پلوں کا افتتاح کیا گیا۔ اگر اس کو دیکھا جائے تو سب میرین چورنگی پر بنایا جانے والا انڈرپاس لیک ہے۔ پلوں پر حفاظتی ریلنگ تک نہیں لگائی گئی اور پانی کے منصوبوں کا تو سب سے برا حال ہے۔ کراچی میں کیماڑی اور لیاری میں اربوں روپے کے تمام آر او پلانٹ بند ہوچکے ہیں۔سندھ کے باقی علاقوں خصوصا تھر میں میں آرو پلانٹ ناکام ثابت ہوئے۔پبلسٹی تو بہت کی گئی مگر اب وہ عوام کو فائدہ نہیں پہنچا رہے۔ کے 4 منصوبے کا بھی برا حال ہے۔ 8 ارب کا منصوبہ بڑھ کر 80 ارب تک پہنچ گیا ہے اور شاید ایک کھرب سے تجاوز کر جائے اور افسوس منصوبہ مکمل ہونے کے بعد کہا جائے گا کہ ہم نے تو پانی کی لائینیں ہی نہیں بچھائیں۔