لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ملک ریاض اور ان کے 19 کروڑ کا معاملہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے اور اس میں کوئی حیرانی کی بات بھی نہیں۔

پڑوس میں مودی سرکار اکثریت پسند استحصالی حاکمیت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے، وکلا نے ہسپتال میں دھاوا بول کر ہمیں یاد دلایا کہ ہم کس قدر انتقامی، ہجومی تشدد کی ذہنیت سے بھرپور سماج میں رہتے ہیں، اور آصف زرداری کی ضمانت بالآخر منظور کرلی گئی ہے۔

ان میں سے چند اہم معاملات گہری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن آخر میں ایسے سارے معاملات مسلسل گھومنے والی ’بریکنگ نیوز‘ کی چرخی گھمانے والے چھوٹی گراریاں ہی ثابت ہوتے ہیں۔

ملک ریاض کے معاملہ نے عام سماجی سطح پر زیادہ خودشناسی کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ یہ ایک منصفانہ سماج کے اصولوں اور تصورات کو آزماتا ہے۔ اب تو خیر یہ سب کو پتا ہے کہ پاکستان پر امیروں اور طاقتوروں کا غلبہ ہے، جو اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے سیاسی و اقتصادی فوڈ چین میں اوپر سے لے کر نیچے تک ذاتی مفادات کی خاطر بڑی ہوشیاری سے اتحاد قائم کرتے ہیں۔

یہ لوگ سول ملٹری اور لسانی اختلافی نکات پر کتے اور بلیوں کی طرح لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن نازک موڑ آجانے پر یہ لوگ اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ کی خاطر ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تو ملک ریاض اشرافیہ کی اس داخلی یکجہتی کا مظہر ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں اور ان سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ پر ان کی سرپرستی کرنے اور اس کام کو کرنے کے نتیجے میں انعامات وصولنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

لیکن اس اخبار کے کئی دیگر معزز قارئین اور ان جیسے افراد کا کیا؟ نہیں میرا یہاں مطلب دنیا کے کسی بھی طرح سے مصیبت زدہ افراد سے نہیں بلکہ ان سے ہے جو حکمران طبقے کا حصہ نہیں ہیں۔

اکثریت خود کو فرضی متوسط طبقے کا حصہ بتائے گی، جن میں سے چند کلونیل دور اور دیگر ماضی قریب میں اس دائرے میں داخل ہوئے۔ خیر تاریخ چاہے کتنی بھی پرانی رہی ہو، لیکن یہ تو صاف ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کا ان فریب کارانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں جو ملک ریاض اینڈ کمپنی کی بسائی ہوئی دنیا میں ہو رہی ہوتی ہیں۔

معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا، یہ بے تعلقی ظاہر کرنا ایسا ہی ہے جیسے شتر مرغ کا اپنا سر ریت میں دھنسانا۔

ملک ریاض نے نہ صرف ہمارے حکمران ٹولے کی ناجائز نفع خوری کا چہرہ دکھایا ہے بلکہ انہوں نے بہت سے ’عام‘ پاکستانیوں میں چاردیواری میں بند رہائشی علاقوں میں محفوظ، بنیادی سہولیات کی بلاتعطل فراہمی کے ساتھ ’باعزت‘ زندگی گزارنے کی شدید تمنا کو بھی آشکار کیا ہے۔

آبادی کے اس خاص طبقے کو کسی مخصوص نظریاتی شناخت یا سیاسی وابستگی تک محدود نہیں کیا جاسکتا، لیکن انہوں نے اس تصور کو گھول کر پی لیا ہے کہ ’سرکاری شعبہ‘ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ بحریہ، ڈی ایچ اے یا پاکستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اس طرح کی دیگر رہائشی اسکیموں کی فراہم کردہ رہائشی، تعلیمی، طبّی و دیگر سہولیات کو بہترین و معیاری قرار دیا جاتا ہے۔

مزے کی بات یہ کہ ان میں سے چند تو وہاں رہنا نہیں چاہتے، اور وہ ایک یا 2 پلاٹ صرف اس لیے خرید لیتے ہیں کہ یہ آگے چل کر بچوں کی تعلیم یا بڑھاپے میں اخراجات پورے کرنے میں مدد دے سکیں۔

آبادی کے اس خاص طبقے میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی مخالف احتساب سے متعلق عمران خان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں، اور عمران خان سے پہلے مشرف کے حامی تھے۔ تاہم آبادی کے اسی طبقے میں نواز شریف یا زرداری کے ہمدردوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ آپ کو اس میں عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی یا دیگر لسانی و قوم پرست جماعتوں کے حامیوں کی بھی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری شعبوں سے وابستہ حاضر اور ریٹائرڈ افراد کی ایک کثیر تعداد بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

جو لوگ ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ کے مالک ہیں یا خریدنا چاہتے ہیں وہ اس ہجومی تشدد سے خوفزدہ ہوسکتے ہیں جس کا مظاہرہ وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کیا تھا اور اس سلوک سے بھی ڈر سکتے ہیں جو ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں پاکستان کی تنگ نظر خارجہ اور اسٹریٹجک پالیسیوں کے حامی بھی شامل ہوسکتے ہیں اور اس کے سخت مخالف بھی۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیشہ مذہب کے نام پر جنگ یا تشدد کے مخالف رہے ہیں، اور پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو آج بھی ’بیرونی ہاتھ‘ کو بے ضرر بنانے کے لیے پراکسیز کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ بات سمجھ تو آگئی ہوگی۔

ملک ریاض صرف اس لیے اربوں نہیں کماتے کہ انہیں ریاست کے اہم اداروں یا امرا کی لابیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ اربوں اس لیے کماتے ہیں کہ وہ ایک ایسا مالی اثاثہ، ایک کموڈیٹی فراہم کرتے ہیں جسے معاشرے کے کئی لوگ خریدنا چاہتے ہیں، ایک ایسی خواہش فراہم کرتے ہیں جو نظریاتی اختلافات کی حدود کو بھی نہیں پہچانتی۔

خوشحال دروازہ بند رہائشی علاقوں کی تعمیر کے لیے ڈیولپرز گوٹھوں اور کچی آبادیوں، پہاڑ کی چوٹیوں اور دریائی ڈیلٹاؤں پر مقیم غریبوں کی زمینیں ہتھیا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دروزاہ بند ہاؤسنگ اسکیم اور اس کی وجہ سے وجود میں آنے والی طرزِ زندگی نہ صرف طبقاتی تفریق کی علامت ہے بلکہ یہ پہلے سے کمزور ماحولیاتی نظام کو مزید بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ایسے کئی افراد جنہیں محاوراتی پلاٹ کی طلب ہے وہ ماحولیات کے حوالے سے مڈل کلاس ذہنیت رکھتے ہیں اور مفاد عامہ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

مختصراً یہ کہ ہم میں سے وہ لوگ جو معاشرے میں موجود نظریاتی تقسیم میں ترقی پسند حلقے میں شمار ہوتے ہیں انہی کو اس 19 کروڑ پاؤنڈ کے سوال کا جواب دینا ہوگا۔ یہاں جس اسٹرکچرل مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا کوئی انفرادی حل موجود نہیں ہے، اسے صرف اجتماعی اور سیاسی فیصلوں سے حل کیا جاسکتا ہے۔ ’ترقی‘ کے حوالے سے ملک ریاض ماڈل کا مناسب متبادل تیار کرنے میں وقت لگے گا۔

اس کی تازہ مثال برطانیہ میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں جیریمی کوربن کی زیرَ قیادت لیبر پارٹی اسی کام میں مصروف ہے، بھلے ہی انتخابات کے جو بھی نتائج آئے ہوں۔ برطانیہ کے نوجوان بھی پاکستانی نوجوانوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل پر غور کرنے لگے ہیں۔ سیکولرازم، لسانی و صنفی برابری، قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی سے متعلق ہمارے تصورات اور اصول طبقاتی سوال سے ہٹ کر نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم کاغذی شیروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری


یہ مضمون 13 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rameay Dec 14, 2019 02:15pm
Sadly we have failed to regulate this sector, and consequently it is eating up the national land (including agriculture land) without any notice. All schemes under the patronage of big gunns and Bahria's etc work on the same pattern. All it takes is a plot that turns criticism into their favor.