سال 2019 میں ہونے والی اہم طبی ایجادات

سال 2019 میں ہونے والی اہم طبی ایجادات

تحریر: صادقہ خان

گزشتہ دو سے تین عشروں میں مصنوعی ذہانت نے ہماری زندگیوں اور طرز زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے، چند عشروں پہلے تک جن کاموں کو کرنے میں انسانوں کو دشواری کا سامنا تھا وہ کام اب مشینوں اور روبوٹس کے ذریعے سر انجام دیئے جا رہے ہیں جس سے ناصرف وقت اور توانائی کی بچت ہوتی ہے بلکہ پیداوار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً مصنوعی ذہانت نے صحت کے شعبے میں بھی ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اور چند برس پہلے تک جو امراض لاعلاج سمجھے جاتے تھے ان کا علاج اب باآسانی ممکن ہے۔

2019 میں بھی ایسی کئی ادویات، طبی آلات اور علاج کے نئے طریقے سامنے آئے جن میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں کروڑوں لاعلاج مریض جو زیادہ مالی وسائل نہیں رکھتے، انہیں بہتر طبی سہولیات کے ساتھ امید کی نئی کرن فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آئیے سال 2019 میں سامنے آنے والی دس بہترین طبی ایجادات کا ایک جائزہ لیتے ہیں:

10- اسمارٹ ان ہیلرز:

فوٹو: فنڈیئر
فوٹو: فنڈیئر

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ہیلرز اور سانس لینے میں معاونت کرنے والے دیگر چھوٹے سائز کے آلات بنانے والی کمپنیوں کی مانگ اب دنیا بھر میں بہت بڑھ چکی ہے اور ہر کمپنی مسابقت میں آگے نکلنے کے لیے جدید ترین اور چھوٹے آلات تیار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔

ایسی ہی ایک کمپنی نے 2019 میں اسمارٹ ان ہیلرز تیار کئے جنہیں اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے ساتھ با آسانی جوڑ کر استھما یا دمہ کے مرض کی شدت اور مریض کی حالت کے بارے میں روزانہ معلومات با آسانی حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اس ان ہیلر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں خاص سینسرز لگے ہوئے ہیں جو مریض کو دوا لینے کے بارے میں از خود یاد دلاتے ہیں اور سنگلز میں دوا کی مقدار بھی بتائی جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی ان ہیلر کو اسمارٹ فون کے ساتھ جوڑنے سے مریض کی موجودہ لوکیشن کے مطابق ہدایات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں مثلا اگر آپ کسی زیادہ دھویں، اسموگ، پولن یا فضائی آلودگی والے علاقے میں جا رہے ہیں تو اسمارٹ فون آپ کو احتیاطی تدابیر کے علاوہ دوا اور اس کی متعلقہ مقدار کے بارے میں مکمل معلومات دے گا جس سے دمہ اور پھیپڑوں کے امراض میں مبتلا افراد کو بے حد مدد ملے گی۔

9- روبوٹک سرجری:

فوٹو: ایویلیئٹ
فوٹو: ایویلیئٹ

روبوٹک سرجری کا لفظ سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹرز کے ساتھ روبوٹ معاونت کر رہا ہو یا شاید ساری سرجری وہی سرانجام دیتا ہو، روبوٹ سرجن دراصل ایک چھوٹے سائز کا روبوٹ ہے جن سے دوران آپریشن مدد لی جا رہی ہے۔

'دا ونسی سی' نامی یہ دنیا کا جدید ترین سرجیکل روبوٹ ہے جس کے کچھ حصوں کو ایک علیحدہ روبوٹ کے ہاتھوں میں نصب کیا جاتا ہے جس کے ذریعے آپریشن کرتے ہوئے زیادہ چیر پھاڑ کی ضرورت نہیں پڑتی اور سرجن مکمل درستگی کے ساتھ عین مرض کی جگہ پر آپریشن کرتے ہیں۔

روبوٹ کے چوتھے ہاتھ میں ایک تھری ڈائی مینشنل (تین سمتی) کیمرہ نصب ہے جو آپریشن کے دوران سرجن کو اندرون جسم کی مکمل تصویر دکھاتا رہتا ہے اور وہ اس روبوٹ کو ایک آریٹنگ روم سے ہدایات دیکر کنٹرول کر سکتے ہیں، اس روبوٹ کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹرز یورولوجی، گائناکولوجی اور دل کے ایسے پیچیدہ آپریشنز با آسانی کر رہے ہیں جن کو سر انجام دینا پہلے بہت چیلنجنگ ہوتا تھا اور طویل آپریشن کے بعد مریض کے بچ جانے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے۔

8- ناکارہ عضو کی دوبارہ نمو یا گروتھ:

فوٹو: جینیٹک لٹریسی
فوٹو: جینیٹک لٹریسی

اگر جسم کے کسی حصے میں کوئی زخم لگ جائے تو کچھ ہی عرصے میں مناسب دیکھ بھال کے بعد وہ بھر جاتا ہے لیکن اگر کوئی عضو فعال نہ رہے یا ناکارہ ہو جائے تو وہ از خود اپنا نقص دور نہیں کر سکتا اور نہ ہی پودوں کی طرح کوئی نیا عضو انسانی جسم میں نشو و نما کرسکتا ہے۔

مگر مصنوعی ذہانت کی جدید تکنیک استعمال کرتے ہوئے جینیاتی انجینئرز نے جسم میں ناکارہ ہو جانے والے عضو کی دوبارہ نمو یا گروتھ کے لیے ایک تکنیک ایجاد کی ہے جسے 'ری جنریشن' کا نام دیا گیا ہے، اس تکنیک میں ناکارہ ہوجانے والے عضو کے چند فعال یا زندہ ٹشوز کی دوبارہ نمو کی جاتی ہے۔

مثلاََ اگر کسی کا جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو جدید تکنیک کے ذر یعے ایک مکمل فعال جگر کو دوبارہ بڑھایا جا سکتا ہے اگرچہ یہ مریض کے اصل جگر کے سائز اور شکل کا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی طرح مکمل فعال ہوگا کیونکہ ری جنریشن صرف مرمت کر نے کا ایک طریقہ ہے، جیسے آپ کا جوتا اگر ٹوٹ جائے تو آپ موچی سے مرمت کروا لیتے ہیں۔

مگر اس تکنیک میں ابھی بہت سے مسائل حائل ہیں کیونکہ انسانی جسم کے بہت سے ایسے ٹشوز ہیں جن کی ری گروتھ ممکن ہی نہیں ہے، اس کے لیے جینیاتی انجینئرز ایسے ادویات پر کام کر رہے ہیں جن کے ذریعے ان ٹشوز میں ری گروتھ کی خصوصیت پیدا کی جا سکے۔

7- خون کا انتقال:

فوٹو: این آئی ایچ
فوٹو: این آئی ایچ

موجودہ دور میں غیر ذمہ دارانہ اور پر تعیش لائف اسٹائل نے خون کے امراض کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔

مصروف زندگی میں لوگ جنک فوڈ یا بار بی کیو کو ترجیح دیتے ہیں جس سے جسم میں صاف خون پیدا کرنے والے خلیات براہ راست متاثر ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف امریکا میں ہر سال 5 ملین افراد کو خون کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے۔

مگر زیادہ تر کیسز میں خون کا یہ انتقال محفوظ نہیں ہوتا جو بعد میں دیگر سنگین مسائل کا سبب بنتا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خون کے انتقال کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا گیا ہے جس میں جسم کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے پورے تجزیئے کے ساتھ خون کی تبدیلی کا عمل شروع کیا جاتا ہے جس میں ایک سے 4 گھنٹے کا وقت لگتا ہے اور اس دوران مریض کی حالت کو مانیٹر پر مسلسل نوٹ کیا جاتا ہے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض کو صرف مخصوص سرخ خلیات یا پلازمہ کی کمی کا سامنا ہوتا ہے جس کے لیے مکمل خون کے انتقال کی ضرورت نہیں ہے۔

6- طبی آلات کی تیاری میں تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال:

فوٹو: تھری ڈرز
فوٹو: تھری ڈرز

طبی آلات کی تیاری میں تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال سال 2019 کی پرکشش ترین ٹیکنالوجیز میں سے ایک ہے اور امید کی جارہی ہے کہ یہ تکنیک مستقبل میں ایک نئی صنعت کی شکل اختیار کر لے گی، جس کے ذریعے نا صرف کم وقت اور کم لاگت میں بہترین آلات حاصل کیے جا سکتے ہیں بلکہ یہ مرض کی شدت اور مریض کی حالت مد نظر رکھ کر خاص طور پر تیار کئے جاتے ہیں۔

اس کی ایک مثال ثقل سماعت کے لیے استعمال ہونے والے ہیئرنگ ایڈز ہیں، بڑھتی ہوئی شور کی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں سماعت کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں لہذا ٰ تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے ڈاکٹرز پہلے سماعت میں کمی کا پوری طرح جائزہ لے کر سپیسی فیکشن کا مکمل چارٹ بنا کر انجینئرز کو دیتے ہیں جس کے مطابق مریض کو چند ہی دن میں مکمل گارنٹڈ آلہ فراہم کیا جاتا ہے جس میں تھری ڈی پرنٹنگ استعمال کی جاتی ہے۔

اسی طرح پیچیدہ آپریشن کے لیے اگر سرجن کو کوئی مخصوص نوعیت کا آلہ چاہیے ہو تو مارکیٹ کھنگالنے یا کسی اور ملک سے برآمد کرنے کے بجائے اسے تھری ڈی پرنٹنگ سے مقامی طور پر با آسانی تیار کیا جاسکتا ہے۔

5- پری زیشن میڈیسن:

فوٹو: کینسر ڈاٹ جی او وی
فوٹو: کینسر ڈاٹ جی او وی

صحت اور علاج معالجے کی سہولیات میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال نے اب ایسے امراض کے علاج کو آسان بنا دیا ہے جنہیں چند برس پہلے تک لاعلاج سمجھا جاتا تھا، جن میں کینسر کی کچھ مخصوص اقسام قابل ذکر ہیں۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ناقص طبی سہولیات اور غیر محفوظ لائف اسٹائل کی وجہ سے فی الوقت کینسر دنیا میں تیزی سے پھیلنے والے امراض میں سر فہرست ہے، اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے علاوہ ایسے جدید تکنیک پر کام کیا جارہا ہے جن کے ذریعے سرجن یا ڈاکٹر مرض کی شدت کے مطابق بہتر ادویات کا تھراپی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

پریزیشن میڈیسن بھی ان میں سے ایک جدید تکنیک ہے جس میں ڈاکٹرز مریض کو ایسی ادویات تشخیص کرتے ہیں جو براہ راست کینسر ٹیومر پر حملہ کرتی ہیں مگر ان کی تشخیص میں مریض کی مخصوص جین اور پروٹین کے علاوہ جسمانی ساخت کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے، اس میں بنیادی طور پر جین میوٹیشن تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے آپریشن کے بغیر کینسر کے خلیات اور ٹیومر کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

4- آر این اے تھراپی:

فوٹو: وکی پیڈیا
فوٹو: وکی پیڈیا

ہم میں سے زیادہ تر افراد جین تھراپی کے بارے میں جانتے ہیں جس میں خلیات کو نیا ڈی این اے فراہم کیا جا تا ہے، مگر جینیاتی سائنس یا جینیٹکس اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ جدید تکنیک کے ذریعے اب پروٹین کے خلیات کے ایک اور اہم نامیاتی جزو رائبو نیوکلیک ایسڈ بھی خلیات کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ اس تکنیک کو ابھی تک جین تھراپی کی طرح مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی مگر اس پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق آر این اے تھرا پی کے ذریعے کینسر سے لے کر دل کے امراض تک بہت سی پیچیدہ بیماریوں کا علاج باآسانی ممکن ہے۔

اس تھراپی کی بنیاد 1953 میں پیش کی جانے والی فریڈرک کرک کی تحقیق پر رکھی گئی ہیں جس کے مطابق جینیاتی مواد جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے اس میں پروٹین بنیادی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ ڈی این اے اور آر این اے کا اہم جزو ہیں، مگر حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ آر این اے انسانی جسم کے کئی اہم کام جیسے پروٹین کی تیاری اور جینیاتی کو ڈنگ میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

لہذا آر این اے تھراپی دیگر روایتی علاج کے طریقوں جیسے امیون تھراپی یا ایسپرین اور انسولین کی نسبت زیادہ کارگر اور مؤثر ہے، اس پر کام کرنے والے سائنسدان پر امید ہیں کہ جلد ہی یہ جین تھراپی کی جگہ لے لے گی۔

3- کینسر کے علاج میں پیش رفت:

فوٹو: انکرپٹڈ
فوٹو: انکرپٹڈ

2019 امیونو تھراپی میں پیش رفت کی وجہ سے خاصی اہمیت کا حامل ہے، پورے سال ایسی تحقیقات سامنے آتی رہیں جن کے ذریعے اب کینسر کی مختلف پیچیدہ اقسام کا علاج با آسانی ممکن ہے، دراصل انسانی جسم میں قدرتی طور پر ایسے خلیات پائے جاتے ہیں جو بیماریوں خصوصا کینسر کے ٹیومر کے جسم میں پھیلاؤ کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں مگر ہمارے بدلتے طرز زندگی اور نامناسب خوراک، آب و ہوا کی وجہ سے ہمارے جسم کا امیون سسٹم مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔

امیون تھراپی کے ذریعے جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط کیا جاتا ہے جس کے لیے مخصوص مرض اور علامات کے مطابق ادویات اور دیگر تکنیک استعمال کی جاتی ہیں جنہوں نے کینسر کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی پرانی تکنیک جیسے کیمو تھراپی کی جگہ لے لی ہے جو دراصل انتہائی تکلیف دہ طریقہ کار تھا اور کیمو تھراپی کے طویل سیشنز سے جسم پر پڑنے والے دیگر مضر اثرات کے علاوہ مریض ذہنی دباؤ کا شکار رہتا تھا۔

سائنس دان پر امید ہیں کہ آئندہ ایک دو برس میں ایسے آلات بھی تیار کر لیے جائیں گے جو اس طرح کی خلیات والی تھراپی میں کافی مدد گار ثابت ہوں گے۔

2- ذہنی امراض کے بذریعہ اسمارٹ فون تشخیص یا ٹیلی ہیلتھ:

فوٹو: میڈیا وائرڈ
فوٹو: میڈیا وائرڈ

بدلتے زمانوں کے ساتھ اب انسانوں کو لاحق امراض کی نوعیت بھی بدلتی جا رہی ہے، ٹیکنالوجی کے انقلاب نے جہاں ہماری زندگیوں کو زیادہ آرام دہ، سہل اور پر تعیش بنایا ہے وہیں آج کا انسان فطرت سے دور ہو کر ذہنی دباؤ، ہیجان اور ڈپریشن جیسے امراض کا تیزی سے شکار ہو رہا ہے جسے مختصراََ 'مینٹل ہیلتھ' یا ذہنی امراض کہا جاتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض کی شرح نوجوان نسل میں تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہر دس میں سے ایک نوجوان اس طرح کے مسائل کا شکار ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے سمارٹ فون میں ایسی ایپلی کیشن متعارف کروائی جا رہی ہیں جن سے مریض اپنا ڈپریشن یا انزائٹی لیول از خود چیک کر سکتے ہیں۔

عام طور پر نوجوان اس مقصد کے لیے آن لائن تھراپسٹ، ماہر نفسیات یا گوگل کا سہارا لیتے ہیں جس سے حاصل ہونے والی معلومات قابل بھروسہ نہیں ہوتیں کیونکہ ذہنی امراض دیگر بیماریوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں اور عموما ماہرین نفسیات بھی کئی ماہ تک سیشنز میں ان کی درست تشخیص نہیں کر پاتے۔

ایسے میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آیا سمارٹ فونز سے حاصل ہونے والی معلومات معیاری اور درست ہوں گی؟ اس کے باوجود ایسی ایپلی کیشنز نوجوان نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں کیونکہ وقت کی قلت، وسائل کی کمی اور ماہر نفسیات پر عدم اعتماد جیسی وجوہات کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ ذہنی امراض کا علاج کروانے سے کتراتے ہیں کیونکہ بعض اوقات علاج سے فائدے کے بجائے مرض بگڑنے لگتا ہے، اس لیے لوگ ٹیلی ہیلتھ پر بھروسہ کر رہے ہیں۔

1- کرسپر (CRISPR)

فوٹو: سی ڈی این
فوٹو: سی ڈی این

جدید ترین جینیاتی تحقیق 'کرسپر' سال 2019 کی اہم ترین دریافتوں و ایجادات میں اول نمبر پر ہے، یہ انسانی ڈی این اے کی ایڈیٹنگ یا قطع و برید (کانٹ چھانٹ) پر مشتمل ایسی تکنیک ہے جس سے تقریبا تمام امراض کا علاج ممکن ہے۔

اس تکنیک میں ایک متاثرہ یا مکمل طور پر تباہ شدہ جین کو صحت مند جینیاتی خلیات سے تبدیل کر دیا جاتا ہے جس میں کسی مخصوص مقام سے ڈی این اے کے لمبے زنجیر نما خلیات کو کاٹ کر ایک نئے ڈی این اے کی 'کافی' جوڑ دی جاتی ہے جسے وہاں موجود سیل از خود نمو کر لیتے ہیں۔

یہ تکنیک اب دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جارہی ہے اور شوگر سے لے کر کینسر جیسے مہلک امراض کا علاج کرسپر کے ذریعے ممکن ہے، 2019 میں کرسپر کی کئی نئی تکنیک سامنے آئیں جن میں 'کرسپر- کیز نائن' قابل ذکر ہے جو ایک قینچی سے مشابہہ ہے اور ڈی این اے کی دوہری زنجیر کو کسی مخصوص مقام سے کاٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@