یہ ایرانی ہوٹل ہمیشہ کونے (نکڑ) پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟

سندھ میں ایرانی ہوٹلوں کے زوال کی دلچسپ کہانی

اختر بلوچ

ہمارے کچھ دوستوں کا ہم سے ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ ایرانی ہوٹلوں پر کچھ لکھا جائے۔ یہ کوئی ایک برس قبل کی بات ہے کہ ہم نے اس کی ہامی بھی بھرلی لیکن دن گزرتے گئے اور یہ عرصہ ایک برس سے زیادہ کا ہوگیا، مگر اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آخر کار ہم نے اس موضوع پر لکھنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور اس بات کا ذکر اپنے دوست سعید جان بلوچ سے بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ضرور لکھیے کہ کچھ سوال تو ان کے ذہن میں بھی ہیں جن کے جواب آج تک نہیں ملے۔ انہی سوال میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ آخر یہ تمام ایرانی ہوٹل شاہراہوں اور بازاروں کے (کارنر) نُکڑ پلاٹ پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ یہ محض اتفاق ہے یا بہت سوچ بچار کے بعد ایسا کیا گیا ہے؟

اب ہم نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا تو ان کی بات درست نظر آنے لگی۔ کراچی کے علاقے صدر میں لکی اسٹار کے قریب واقع چُلّو کباب سیستانی ہو، آئی بی اے اور پی ایم اے ہاؤس کے کونے پر واقع کیفے مبارک یا پھر آئی آئی چندریگر روڈ پر صحافیوں کی بیٹھک کے حوالے سے مشہور خیرآباد ریسٹورنٹ، حتیٰ کہ حیدرآباد کا کیفے جارج اور لطیف آباد، ٹنڈو آدم، میرپورخاص اور نوابشاہ کے کیفے شیراز بھی نُکڑ پر ہی واقع ہیں۔ یہ واقعی ایک اہم بات تھی۔

خیرآباد ریسٹورنٹ—اعجاز کورائی
خیرآباد ریسٹورنٹ—اعجاز کورائی

اس حوالے سے کراچی صدر میں واقع کیفے یوروز کے مالک فرشید روحانی سے تفصیلی بات ہوئی۔ روحانی صاحب کے والد نے 1947ء میں کیفے یوروز قائم کیا تھا جو دسمبر 2015ء میں بند ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ 1910ء یا 1912ء کی بات ہے جس وقت ایران میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے، نہ وہاں کی معیشت بہت بہتر تھی، نہ ہی زراعت زیادہ زرخیز تھی۔ یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ایران سے لوگ ہجرت کرکے ہندوستان کے شہر بمبئی (موجودہ ممبئی) میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعدازاں ان ہجرت کرنے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ کراچی آئے جو اب پاکستان کا اہم کاروباری شہر ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ، ’انہی لوگوں میں سے ایک ’بومن آبادان‘ نامی ایک پارسی شخص بھی تھا جس نے کراچی کے مشہور علاقے صدر میں ’آبادان ٹی شاپ‘ کے نام سے ایک دُکان کھولی۔ یہ لگ بھگ 1912ء یا 1913ء کے بعد یعنی پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی بات ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ دور بہت اچھا اور صاف ستھرا تھا۔ اس دور میں کاروبار بھی بہت اچھا چلتا تھا۔ آبادان ٹی شاپ کو دیکھ کر ایران سے مزید لوگ قافلوں کی صورت میں کراچی آنا شروع ہوگئے‘۔

خیرآباد کے مالک حاجی عباس علی—تصویر اعجاز کورائی
خیرآباد کے مالک حاجی عباس علی—تصویر اعجاز کورائی

ہمارے دوست احسن کے مطابق بہائیوں نے ایران کے زوال پذیر معاشی حالات کے سبب وہاں سے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ اس کی 2 وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ 1850ء میں ایران کے حکمران قاچاری بادشاہوں محمد علی شاہ اور ناصر الدین شاہ کے احکامات پر 20 ہزار سے زیادہ بہائی قتل کردیے گئے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ بہائیوں کے روحانی پیشوا سید علی محمد باب نے بھی بہائی مذہب کے پیروکاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور ترویج کے لیے پوری دنیا میں پھیل جائیں۔

لیکن ہمارے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ ایرانیوں نے کراچی میں کاروبار کا آغاز کب کیا؟ جہانگیر فریمروز پنتھکی کی مرتبہ کتاب کراچی کا زرتشتی کیلنڈر مطبوعہ 1919ء میں ’کراچی کی پہلی ایرانی دکان‘ کے عنوان سے تحریر شامل ہے جس کے مطابق ’دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی ایرانی دکانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ کراچی کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایرانی دکانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ پہلی ایرانی دکان سیٹھ جہانگیر رستم ایرانی نے قائم کی۔ انہوں نے 1893ء کے قریب قریب یہاں رہائش اختیار کی۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کراچی میں موجودہ ایرانی دکانیں سیٹھ جہانگیر جی کی مرہون منت ہیں کیونکہ انہوں نے اس ضمن میں اپنے ایرانی بھائیوں کی بہت مدد کی۔‘

کراچی صدر میں واقع چُلّو کباب سیستانی

چلیے آئیے اس حوالے سے ایک بار پھر فرشید روحانی سے بات کرتے ہیں۔ فرشید روحانی اس بات سے بالکل انکاری ہیں کہ بہائیوں نے کسی بہت بڑی نسل کشی کی وجہ سے ایران سے ہجرت کی ہے۔ ان کے مطابق ’ان کے والد 1940ء کے لگ بھگ برِصغیر آئے اور پہلے پہل ’آبادان ٹی شاپ‘ پر کام کیا۔ بعدازاں ریگل چوک پر ’کیفے انڈیا‘ کے نام سے چائے کا کاروبار شروع کیا۔ پھر تقسیمِ ہند کے بعد کیفے یوروز کے نام سے کراچی میں کاروبار کیا۔ 2015ء تک موجودہ جے ایس بینک کی جگہ پر کیفے یوروز موجود تھا۔ بہائی ایران سے ترکِ سکونت کرنے پر صرف اس لیے مجبور ہوئے کہ وہاں کے نہ تو معاشی حالات بہتر تھے اور نہ ہی وہاں تعلیم کے مواقع موجود تھے۔ وہاں سے ترکِ سکونت کرنے والوں نے کراچی میں چائے کا کاروبار اس لیے بھی شروع کیا کیونکہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ انتہائی نفیس طبع کے حامل تھے اور یہ نفاست ان کے کاروباری لین دین سے بھی ظاہر ہوتی تھی‘۔

آبادان کے بعد دوسری بڑی بہائی شخصیت کا نام تھا ’اسفندیار بختیاری‘۔ انہوں نے 1924ء میں ’پرشین ریسٹورنٹ‘ اور بعدازاں ’پرشین بیکری‘ کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا۔ ’پرشین ریسٹورنٹ‘ 1970ء میں ختم ہوگیا لیکن ’پرشین بیکری‘ آج بھی موجود ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ایم اے جناح روڈ (بندر روڈ) سے صدر اور ریگل تک کا علاقہ بشمول ایمپریس مارکیٹ کراچی کا ایک انتہائی اہم تجارتی اور معاشی مرکز تھا۔

آئی آئی چندریگر روڈ پر صحافیوں کی بیٹھک کے حوالے سے مشہور خیرآباد ریسٹورنٹ

اسفندیار بختیاری کے مطابق ’ایک وقت ایسا بھی آیا جب کراچی کا کوئی ایک بھی ایسا علاقہ نہیں تھا جہاں کسی نہ کسی ایرانی کا ہوٹل موجود نہ ہو۔ ان میں سے چند ایک نام میں بتا دیتا ہوں۔ اگر آپ ایمپریس مارکیٹ سے آغاز کریں تو وہاں ’کیفے شاہ پور‘ ایک بڑا نام تھا، اس کے بالمقابل ’کیفے رائل‘ تھا۔ اس سے تھوڑا آگے ’ابدان ٹی شاپ‘ تھی۔ اس سے آگے ’پرشین ریسٹورنٹ‘ موجود تھا۔ اس سے آگے ’پرشین بیکری‘ اور اس کے سامنے ’کیفے جارج‘ ایک انتہائی مشہور جگہ تھی اور اس سے آگے ’کیفے یوروز‘ واقع تھا۔ اس سے تھوڑا اور آگے بڑھیں تو ’کیفے ریگل‘ موجود تھا۔ اس سے تھوڑا آگے ’کیفے عادل‘، ’کیفے نشاط‘، ’کیفے پف‘، ’براڈ وے‘، ’کیفے شہناز‘، ’کیفے آئیڈیل‘، ’کیفے شمس‘ اور ’کیفے رائزنگ سن‘، غرض ایک طویل فہرست اس ضمن میں یاددہانی کے لیے موجود ہے‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ان تمام دکانوں میں ’کیفے پرشین ریسٹورنٹ‘ اور ’کیفے جارج‘ 2 بڑے مشہور ریسٹورنٹ تھے ۔ کیفے جارج 1940ء میں قائم ہوا تھا لیکن یہ 1979ء میں ختم ہوگیا۔ 1961ء تک یہ جگہ کراچی میں بہت مشہور رہی کیونکہ اس وقت کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ کیفے جارج کا حوالہ آپ نے مختلف اخبارات میں پڑھا ہوگا۔ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ’جنگ‘ اخبار کے لیے لکھی گئی اپنی تحریر میں بتایا کہ ’جس وقت وہ ڈی جے کالج کراچی میں طالب علم تھے، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کیفے جارج میں بیٹھ کر چائے پیا کرتے تھے۔ کیفے جارج اپنے زمانے کا فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل کی سب سے مشہور سوغات یہاں کے پیٹیس اور فش فرائی تھیں اور یہ تازہ بیچے جاتے تھے بلکہ اگر آج بھی آپ پرشین بیکری پر جائیں تو آپ کو ایک دن کی باسی کوئی کھانے کی چیز نہیں ملے گی کیونکہ اس بیکری کی انتظامیہ آج بھی نہایت ایمانداری سے کاروبار کرتی ہے۔ ایک بات میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ ’کیفے جارج‘ اور ’کیفے پرشین‘ کے درمیان ’فریڈرک کیفے ٹیریا‘ ہوا کرتا تھا جس کا بورڈ آج بھی موجود ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا روف گارڈن ریسٹورنٹ تھا جس کا افتتاح سابق مرحوم صدر اور فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان صاحب کے ہاتھوں سے ہوا تھا، کیونکہ اس وقت کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ جنرل ایوب خان کی یہاں آمد کی تصاویر آج بھی موجود ہیں‘۔

گلبہار بیکری

ایرانی ہوٹلوں کی ایک خاص شناخت ان کے ہوٹلوں کا فرنیچر بھی ہوتا ہے۔ آپ کراچی سے میرپورخاص اور ٹنڈو آدم تک کسی بھی شہر کے ایرانی ہوٹل میں جائیں تو آپ کو فرنیچر اور ہوٹل کے ماحول میں ایک یکسانیت سی محسوس ہوگی۔ اس سلسلے میں روحانی صاحب نے بتایا کہ ’بات دراصل یہ ہے کہ مثال کے طور پر میرا باپ ایران سے آکر یہاں دکان کھولتا ہے۔ اس کے 6 مہینے بعد ایک اور ایرانی شخص کراچی آتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے تو اردو زبان نہیں آتی تھی۔ لہٰذا وہ میرے والد سے پوچھتا کہ آپ نے برتن کہاں سے خریدے؟ یہ فرنیچر کہاں سے بنوایا؟ تو میرے والد ان کی مدد کرتے اور وہ سب بھی وہیں سے سامان خریدلیتے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس زمانے میں ایک شخص ہوا کرتے تھے جن کا نام رزاق تھا۔ وہ انتہائی نفیس آدمی تھے اور ایران سے آئے ہوئے لوگوں کے مزاج سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور شخص عزیز نامی بھی تھا جس کی دکان آرام باغ میں تھی۔ ان صاحب کو بس فرنیچر سے متعلق ہدایات نہیں دینا پڑتی تھیں یا مطلوبہ تعداد بتانا پڑتی تھی کہ 10 چاہئیں یا 20۔ صوفوں کی صورتحال بھی ایسی ہی تھی اور رفیع نامی کاریگر یہ صوفے بنایا کرتا تھا۔ جس کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے۔ میرا صوفہ برماٹیک کا بنا ہوا تھا۔ برماٹیک کا بنا ہوا صوفہ آج بھی آپ اورینٹل ریسٹورنٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔ جس کا فرما اس زمانے کے لحاظ سے زبردست برماٹیک کا بنا ہوا ہے۔ اورینٹل ریسٹورنٹ کا مالک ایک پارسی ہے اور میں نے اس کے ہاتھ وہ صوفہ بیچا تھا۔ وہاں آپ کو کرسی، صوفہ اور برتن ایک ہی سائز کے ملیں گے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھ کر کام کرتے تھے‘۔

اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے روحانی صاحب نے کہا کہ ’پرانے وقتوں کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور یہ مدد نہ صرف انفرادی سطح پر کی جاتی تھی بلکہ کاروباری سطح پر بھی دیکھی جاسکتی تھی کیونکہ اس دور میں جب کوئی شخص ہوٹل کھولتا تو دوسرا ہوٹل والا اس کی مدد اور رہنمائی کیا کرتا تھا۔ آج اگر کوئی دوسرا بندہ ہوٹل کھولے تو شاید میں اس کو سلام تک کرنا پسند نہ کروں۔ 1940ء اور 1950ء کی دہائیوں میں لوگ ایماندار تھے جیسے کیفے جارج سے 2 قدم کے فاصلے پر میرے والد کی دکان تھی۔ دوسری طرف کیفے ریگل تھا اور اس کے قریب کیفے میزبان۔ یہ سب ریسٹورنٹ والے ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور کینہ نہیں ہوا کرتا تھا کہ فلاں شخص کی وجہ سے میری روزی کم ہوگئی ہے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کا ہر لحاظ سے خیال کیا کرتے تھے اور مشورے بھی دیا کرتے تھے کہ فرنیچر آپ یہاں سے تیار کروائیں یا کراکری وہاں سے خریدیں۔ یہی وہ وجوہات تھیں جن کی بدولت کیفے اور ریسٹورنٹس کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی گئی۔‘

ہائی اسکول ریسٹورنٹ

ایران سے کراچی ہجرت کرنے والے افراد مختلف کاروبار سے وابستہ تھے، جن میں ہوٹل اور چائے کی پتی کی فروخت سب سے نمایاں تھی۔ تاہم ایک ایرانی ایسے بھی تھے جو کتابوں کی دکان کے مالک تھے۔ یہ دکان زینب مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر الماس بک شاپ کے نام سے قائم تھی۔ جہاں کراچی کے امرا، سیاستدان، اداکار اور صحافی کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ان سیاستدانوں میں نصرت بھٹو ، نامور قانون دان اے کے بروہی، مشہور اداکار طلعت حسین اور صحافی وسعت اللہ خان شامل تھے، لیکن بڑھتے ہوئے ٹریفک کے دباؤ اور پارکنگ کی عدم دستیابی نے اس دکان کو اجاڑ کر رکھ دیا اور چند سال قبل یہ دکان بند ہوگئی۔

میں بھی اس دکان پر کتابیں خریدنے والوں میں شامل تھا۔ ایک روز میں نے دکان کے مالک سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگ کتابوں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ انہوں نے غمزدہ آواز میں اپنے مخصوص ایرانی لہجے میں کہا ’آغا، میں کیا کتاب بیچے گا، ابھی روز لوگ دکان پر آتا ہے اور کہتا ہے، کتاب چھوڑو گارمنٹس کی دکان کھولو۔ آغا، میں سارا عمر کتاب بیچا ہوں، اب چڈھی بنیان بیچے گا؟ نہیں، نہیں’۔

لیکن ایسا ہی ہوا وہ دکان بِک گئی اور اب وہاں گارمنٹس کی ایک مشہور دکان موجود ہے۔

ایرانی کرسیاں

ایرانی ہوٹل اب بھی ناصرف کراچی بلکہ سندھ کے دیگر 2 شہروں میرپورخاص اور ٹنڈو آدم میں موجود ہیں۔ ایک ہوٹل نواب شاہ میں ’کیفے شیراز‘ کے نام سے تھا، جو ختم ہوگیا ہے۔ حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈو آدم اور نواب شاہ کے ہوٹل مالکان بہائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کراچی میں قائم ہوٹل آہستہ آہستہ بند ہوتے جا رہے ہیں یا ان کے مالک مقامی لوگ بنتے جارہے ہیں جبکہ کچھ نے اپنے ہوٹل کرائے پر دے رکھے ہیں۔ لیکن ایسے کچھ ہوٹل اب بھی ہیں جو ایرانی لوگ چلاتے ہیں یا پھر وہاں ان کے دستِ راست کام کرتے ہیں۔ اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے، جبکہ ان میں بہائی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ایرانی ہوٹلوں کے مالکان اور ان کے مذہبی عقائد کی پہچان ہوٹل میں لگی کسی نہ کسی علامت سے ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی ہوٹل کسی اہلِ تشیع کا ہے تو اس میں آپ کو کسی نمایاں مخصوص جگہ پر ایک مقفل لکڑی کی پیٹی نظر آئی گی جس پر لکھا ہوا ہوگا ’نذرِ حسین علیہ السلام‘۔ اس پیٹی کے پس منظر میں بھی ایک کہانی ہے۔ اس پیٹی کی چابی کراچی کی قدیم امام بارگاہ حسینیہ ایرانیان کی انتظامیہ کے پاس ہوتی ہے اور ان کا کوئی بھی نمائندہ مہینے میں ایک بار ہوٹل کا رخ کرتا ہے اور پیٹی میں موجود رقم لے کر دوبارہ پیٹی کو تالا لگا کر چلا جاتا ہے۔

اس پیٹی کے پس منظر میں بھی ایک کہانی ہے—تصویر اعجاز کورائی
اس پیٹی کے پس منظر میں بھی ایک کہانی ہے—تصویر اعجاز کورائی

اگر یہ پیٹی موجود نہ ہو تو آپ کو ہوٹل کے مین کاؤنٹر کی عقبی دیوار پر یاعلی، یافاطمہ کی تختی نظر آئی گی۔ نذرِ حسین کی پیٹی یا اہلِ بیت کے ناموں سے منسوب تختیاں اب ایرانی ہوٹلوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے صحافی دوست نور محمد کلہوڑو نے یوں بیان کی کہ ’جب کراچی شہر میں شیعہ سنی منافرت بہت زیادہ بڑھ گئی تو شیعہ مالکان نے اپنی دکانوں سے یہ علامتیں ہٹادی تھیں۔

اب آتے ہے بہائی ہوٹلوں کی شناخت کے حوالے سے۔ اگر آپ ایسی کسی دکان، ہوٹل یا بیکری میں کھانے پینے یا خریداری کے لیے جائیں اور کاؤنٹر کی ٹیبل کے اوپر ایک مخصوص تختی لگی ہو جس پر بھاء الا بھے لکھا ہو تو سمجھ جائیے کہ وہ کسی بہائی کی ہوٹل ہے۔

کاؤنٹر کے اوپر تختی پر بھاء الا بھے لکھا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ کسی بہائی کی ہوٹل ہے
کاؤنٹر کے اوپر تختی پر بھاء الا بھے لکھا ہو تو سمجھ جائیں کہ یہ کسی بہائی کی ہوٹل ہے

اس حوالے سے فرشید روحانی نے بتایا کہ ’دیکھیں جب بھی کوئی بہائی کوئی نئی دکان کھولتا تھا تو وہ یہ اپنا مخصوص نشان ضرور لگاتے تھے۔ یہ نشان لگانے کا مقصد ہی یہ ہوتا تھا کہ لوگ اس نشان سے متعلق ہم سے پوچھیں اور ہم لوگوں کو بتائیں کہ ہم لوگ کون ہیں۔ میں نے اپنے ہوٹل میں جو نشان لگا رکھا تھا وہ اس وقت میرے گھر پر ہے۔ میری پیدائش کراچی ہی کی ہے لیکن لوگ ہمیں ایرانی سمجھا کرتے تھے اور اسی سوچ کے تحت جب کبھی ہم کاؤنٹر پر بیٹھا کرتے تو وہ ہم سے پوچھا کرتے تھے کہ ’اے ایرانی! یہ کیا لکھا ہوا ہے؟‘ میں ان سے کہتا تھا کہ اسے پڑھو! پڑھ تو کوئی بھی نہیں پاتا تھا اور پھر میں آخر میں ان کو پڑھ کر سنا تھا کہ ’یا بھاء الا بھے ا‘، ’بہا‘ کا مطلب ہے ’نُور‘ اور ’ابہا‘ کا مطلب ہے ’اعلیٰ نُور‘ یعنی اس کا مطلب ہے کہ ’خدا اعلیٰ نُور ہے‘ اس خطاطی کا مقصد خیر و برکت کا حصول تھا اور اسی مقصد کے تحت یہ تختی لٹکائی جاتی ہے‘۔

نسیم ریسٹورنٹ

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ہم سے کوئی شخص اس تختی سے متعلق پوچھتا ہے تو ہم اس کا مطلب بتادیتے ہیں اور جب وہ شخص ہم سے بہائیت سے متعلق پوچھتا ہے تو ہم اس کو بہائیت سے متعلق معلومات فراہم کردیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے جب اپنی دکانیں ختم کیں تو ان کے فریم اپنے پاس محفوظ کرلیے۔ میری اپنی 70 سالہ دکان جب ختم ہوئی تو میں نے اپنی دکان کا فریم اپنے کمرے میں لگادیا، جو آج بھی میرے کمرے کی زینت بنا ہوا ہے‘۔

جب کراچی روشنیوں کا شہر تھا اور یہاں مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ بڑی محبت سے نہ صرف کاروبار کرتے بلکہ خوشگوار زندگی بھی گزارتے تھے۔ اس وقت کراچی میں بہائیوں کے ہوٹلوں کی تعداد لگ بھگ 100 کے قریب تھی۔

یہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ نارتھ کراچی، حیدری، طارق روڈ، بہادر آباد میں موجود تھے۔ بہادر آباد ان دنوں نیا نیا آباد ہوا تھا۔ ٹاور سے پورے کراچی تک ان کی تعداد تقریباً 100 کے قریب ہی ہوگی، اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوگی۔ اور یہ یاد رہے کہ یہ تعداد صرف بہائی مالکان کے ہوٹلوں کی تھی۔

نسیم ریسٹورنٹ، کراچی—تصویر اعجاز کورائی
نسیم ریسٹورنٹ، کراچی—تصویر اعجاز کورائی

ایرانی ہوٹلوں کی اکثریت کراچی کے صدر، بندر روڈ کے گنجان آبادی والے علاقوں میں واقع تھی۔ ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ، دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور شہر کے قدیم علاقوں سے ہوٹلوں سے خوشحال خاندانوں کی ڈیفنس اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں منتقلی نے ایرانی ہوٹلوں کے کاروبار پر بہت بُرا اثر ڈالا اور ان میں سے کئی آہستہ آہستہ بند ہوگئے۔ کراچی سول اسپتال کے بالمقابل موجود کیفے ’لالہ زار‘ کے مالک نور حسین اعوان کے مطابق ایرانی ہوٹل بند ہونے کا ایک اور بڑا سبب ان کے کھانوں کا معیار ہے۔

کیفے لالہ زار کے مالک نور حسین اعوان—تصویر اعجاز کورائی
کیفے لالہ زار کے مالک نور حسین اعوان—تصویر اعجاز کورائی

ہوٹل مالکان کھانوں کے معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس پر کسی قسم کی سودے بازی کے لیے بالکل بھی تیار نہیں، جس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب کھانوں کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام شہری کے لیے ایرانی ہوٹلوں میں کھانا کھانا جیب پر بھاری پڑجاتا ہے۔ گوکہ اب موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض ہوٹل مالکان نے کھانے پینے کی سستی اشیا بھی فروخت کرنا شروع کردی ہیں، مثلاً گھی کے پراٹھے، آلو کے سموسے اور رول کباب وغیرہ، جنہیں کھا کر ایک عام آدمی کم قیمت میں اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ایرانی ہوٹلوں سے اس قسم کی کم قیمت والی اشیا کی فروخت کا تصور بھی ممکن نہیں تھا، ایرانی ہوٹل کراچی کی ثقافتی ورثے کا آئینہ دار تھے اور اب بھی ہیں لیکن اب آہستہ آہستہ یہ یادِ ماضی بنتے جارہے ہیں اور وہ دن دُور نہیں جب کراچی میں ایرانی ہوٹلوں کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔

لالہ زار پر اب سموسے بھی فروخت ہوتے ہیں—اعجاز کورائی
لالہ زار پر اب سموسے بھی فروخت ہوتے ہیں—اعجاز کورائی

ہمارے صحافی دوست رزاق ابڑو کے مطابق ’ایرانی ہوٹلوں کے خاتمے کا ایک بڑا سبب کوئٹہ وال ہوٹل ہیں۔ ان ہوٹلوں میں نہ تو باوردی بیروں کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی صفائی ستھرائی درکار، بس کسی بھی سڑک کے فُٹ پاتھ پر تھوڑی سی جگہ مل جائے اتنا ہی کافی ہے، جہاں ہوٹل مالک ایک چھوٹا توا رکھ کر اس پر انڈا پراٹھا بناسکے اور ساتھ ہی کڑک چائے بھی دستیاب ہو۔

خیرآباد پر کھانے پینے کی مختلف اشیا شوکیس میں سجی ہوئی ہیں—اعجاز کورائی
خیرآباد پر کھانے پینے کی مختلف اشیا شوکیس میں سجی ہوئی ہیں—اعجاز کورائی

روحانی صاحب کہتے ہیں کہ ’پرانے وقتوں میں کاروبار میں کبھی بھی بہائی، شیعہ یا سنّی کا امتیاز نہیں رکھا جاتا تھا۔ میرے والد ’کیفے ریگل‘ والے اثناء عشری شیعہ تھے جبکہ ’کیفے جان‘ والے دوسرے مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ہم لوگ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھتے تھے۔ یہ میل ملاپ کاروبار میں زیادہ پایا جاتا تھا کہ فلاں جگہ چینی سستی مل رہی ہے، سب اٹھالو، کیونکہ اس زمانے میں موسمِ سرما میں چینی سستی ہوجایا کرتی تھی اور یہ بات میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔

’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تعداد کم ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ حکومت سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی، ٹیکس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، مہنگائی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ فرق صرف اس لیے پڑا کہ جیسے مثال کے طور پر میرے والد پڑھے لکھے نہیں تھے۔ یہ بات صرف میرے والد تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ 99 فیصد ایرانی چونکہ برٹش راج کے دور میں ہندوستان آئے تھے اور یہاں انگریزی زبان پڑھائی جاتی تھی، سو یہی سوچ ان ایرانی ریسٹورنٹس کے مالکان کی بھی تھی جو یہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے۔ ہم 4 بھائی ہیں اور ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔ ہم چاروں نے سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی سے تعلیم حاصل کی ہے، جہاں ہمیں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔

’میں نے میٹرک یہیں سے کیا ہے، جبکہ لڑکیاں سینٹ جوزف اسکول یا ماما پارسی اسکول میں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ تمام لوگ بشمول میرے والد نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولادیں ہوٹل اور کیفے ریسٹورنٹس کا کاروبار کریں۔ وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد اس فیلڈ (شعبے) میں آئے۔ میرا بڑا بھائی انجینئر ہے، میرا چھوٹا بھائی ڈاکٹر اور میں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی ہے جبکہ میرا ایک چھوٹا بھائی ملک سے باہر کام کرتا ہے۔ ایران سے آنے والے لوگوں میں سے تقریباً 99 فیصد لوگوں کی اولادیں ڈاکٹر بنیں یا انجینئر۔ وکیل بہت کم بنے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں یہی 2 پیشے مقبول تھے۔

کیفے لالہ زار

’میرے والد سمیت دیگر ہوٹل مالکان نے کبھی بھی اپنی اولاد کو اس پیشے میں دھکیلنا نہیں چاہا۔ کبھی کبھار جب کوئی نوکر چھٹی کرلیتا تو میرے والد محض چند گھنٹوں کے لیے مجھے کاؤنٹر پر بیٹھنے دیتے تھے۔ ان کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ مجھے اس پیشے کا شوق نہ ہو کیونکہ میرے والد چاہتے کہ میں صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دوں یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ تو حکومت سے کسی بھی قسم کی کوئی شکایت تھی نہ ہی کاروبار تنزل کا شکار ہورہا تھا۔ ایران سے آنے والے بہائی جنہوں نے یہاں تعلیم حاصل کی ان کی اکثریت بلکہ تقریباً 99 فیصد لوگ پڑھ لکھ کر ملک سے باہر برطانیہ، آسٹریلیا یا امریکہ و دیگر ممالک میں بس گئے۔

’کراچی میں اس وقت پگڑی سسٹم رائج تھا، ایران سے آنے پر ان لوگوں نے یہاں دکانیں پگڑی سسٹم پر ہی حاصل کی تھیں اور جب وہ باہر جانے لگے تو انہیں اپنی دکانوں کا اچھا خاصا معاوضہ ملا۔ یہ لوگ سب بیچ باچ کر یورپی ممالک میں چلے گئے۔ جن افراد کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا ان میں سے جن لوگوں نے اپنی دکانیں بیچیں، وہ ایران چلے گئے ان میں ’کیفے جار‘ج اور ’کیفے ریگل‘ کے مالکان بھی شامل تھے۔ یہ وہ وجوہات تھیں جن کی بدولت ریسٹورنٹس اور کیفے ٹیریا کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی چلی گئی۔ مالکان کی اولادیں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر اور انجینئر بن گئیں، ظاہر ہے کہ وہ اب دکانیں تو نہیں چلاسکتے تھے، ان میں سے چند نے اپنی اپنی دکانیں ٹھیکے پر بھی چڑھا دیں لیکن ٹھیکہ لینے والے چونکہ کاروباری لوگ نہیں تھے اس لیے وہ ان کیفے اور ریسٹورنٹس کو چلانے میں ناکام رہے اور انہوں نے ان کیفے اور ریسٹورنٹس کا ستیا ناس کردیا۔ فرنیچر اور دکانیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں، ان حالات میں ٹھیکے داروں نے جیسے تیسے اپنی رقم واگزار کرانے کی کوششیں شروع کردیں اور فرنیچر اور دکانوں پر کوئی توجہ نہ دی، جس کا نتیجہ معیار کی گراوٹ کی صورت میں نکلا۔‘

اے ون کیفے

آخر میں ایک بار پھر وہی سوال کہ وہ کیا وجہ تھی کہ سندھ میں تقریباً جتنے بھی ایرانی ہوٹل ہیں وہ سارے کے سارے نُکڑ کے پلاٹ پر ہوتے ہیں؟ روحانی صاحب نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ ’دیکھیں یہ کوئی پُراسرار بات نہیں۔ دراصل اس زمانے کے لوگ ڈھونڈ کر ایسی جگہوں پر ہوٹل بنایا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ کیفے کے لیے عام طور پر 2 جانب کھلی جگہ درکار ہوتی ہے جیسے کہ میرا ہوٹل جو 2 جانب سے کھلا تھا تاکہ دونوں جانب سے ہوا کا گزر ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر گاہک کو ہوٹل دُور سے نظر آئے۔ اس زمانے میں لوگ کارنر (نُکڑ) کی جگہ ڈھونڈ کر ہی اس پر کیفے یا ہوٹل تعمیر کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایران سے آئے ہوئے لوگوں کو اس لیے جگہ آسانی سے مل جاتی تھی کیونکہ یہ لوگ اخلاق و کردار میں بہت اچھے تھے، لین دین کے کھرے اور صاف ستھرے تھے، اپنے مالکان کو ہمیشہ کرایہ وقت پر ادا کرتے تھے، بڑی جگہوں کے لیے ایران سے آئے لوگوں کو مقامی افراد پر ترجیح دی جاتی تھی اور شاید ان لوگوں کی قسمت میں بھی ایسی ہی جگہیں ہوتی تھیں‘۔

روحانی صاحب کی بات اپنی جگہ لیکن سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ تقسیم کے بعد یہاں پر ایرانیوں کے علاوہ ہندوستان سے بھی بہت ساری برادریوں نے ہجرت کی جن میں ملباری، مدراسی، میمن، خصوصاً میمنوں کے بانکڑا ہوٹل بہت مشہور ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کو اپنا کاروبار یا ہوٹل قائم کرنے کے لیے نُکڑ کا پلاٹ نہیں ملا اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے کوئی جستجو کی؟

پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ معاملہ اگر روحانی صاحب کی بات تک کا ہے تو ٹھیک، لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی معلومات ہو تو ہمیں ضرور آگاہ کیجیے گا۔


اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔