سری لنکن ٹیم نے پاکستان کی سرزمین پر بھلے ہی 2 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں شکست کھائی ہو لیکن اس نے پاکستانیوں کے دل ضرور جیت لیے ہیں۔

سری لنکن ٹیم کے ساتھ آنے والے میڈیا نمائندگان میں روشن ابے سنگھے بھی شامل تھے، جنہیں بین الاقوامی کرکٹ میڈیا برادری میں ایک سب سے معتبر آواز تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایؤس کو ان سے ملاقات اور حال ہی میں 10 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی بحالی کو ممکن بنانے والی ٹیسٹ سیریز کے مختلف پہلوؤں پر رائے لینے کا موقع ملا۔

پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی بحالی پر کیسا محسوس کرتے ہیں؟

’میرے خیال میں پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی بحالی ایک بہت ہی غیر معمولی پیش رفت ہے، کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں زبردست اور شاندار کرکٹنگ کلچر پایا جاتا ہے۔‘

دورہ پاکستان کیسا رہا؟

روشن ابے سنگھے اپنے دوستوں رمیز راجہ اور روشن اڈامل گوڈا کے ہمراہ لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہورہے ہیں—تصویر بشکریہ روشن ابے سنگھے
روشن ابے سنگھے اپنے دوستوں رمیز راجہ اور روشن اڈامل گوڈا کے ہمراہ لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہورہے ہیں—تصویر بشکریہ روشن ابے سنگھے

’اگر آپ بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے مختلف حصوں میں جائیں تو آپ کو ہر حصے میں مختلف نظارے اور لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن سری لنکا کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں کرکٹ بنیادی طور پر کولمبو، اس کے ملحقہ علاقوں اور مغربی صوبے تک محدود نظر آتی ہے، لہٰذا (متنوع رنگ لیے) یہ نظارے ہمارے لیے نئے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ پاکستان کے پیدا کردہ دنیائے کرکٹ کے چند عظیم کھلاڑیوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے نوجوان والے نوجوان کھلاڑیوں کا جائزہ لیا جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ ان 10 برسوں میں پاکستان کرکٹ کو زیادہ نقصان پہنچا ہوگا۔ ان نوجوان کھلاڑیوں میں سے چند نے اپنے ہیروز کو دور سے دیکھ رکھا ہے مگر انہیں چھونے اور محسوس کرنے کے اس خاص پہلو سے محروم رہے ہیں۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں سری لنکن ٹیم کے دورے سے بڑھ کر پاکستانی کرکٹ کے لیے بہترین تجربہ اور کیا ہوسکتا ہے۔‘

کیا پاکستان آنے کا فیصلہ مشکل ثابت ہوا؟

’میں کہوں گا، ہاں مشکل تھا۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ سری لنکن ٹیم ہی وہ ٹیم تھی جس پر (2009ء میں) حملہ ہوا تھا۔ فیصلہ لینا بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ بہت سے مسائل گزرنا پڑا، فائدے نقصان کا جائزہ لیا گیا، مختلف پہلوؤں پر غورو فکر کیا گیا اور سیکیورٹی مشیر کی جانب سے کلیئرنس ملنے کے باوجود بہت سی انٹیلیجنس رپورٹس بھی سامنے آنے لگیں۔ چنانچہ یہ بہت ہی مشکل فیصلہ ثابت ہوا۔

’ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 21 اپریل 2019ء کو سری لنکا میں دہشتگرد حملوں کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی لیے سری لنکن حکومت اور کرکٹ بورڈ نے احتیاط برتنے میں ذرا سی بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تاکہ اس قسم کے واقعات دوبارہ نہ ہوں، اس کی بڑی وجہ یہ تھی ہم ایک انجان سرزمین پر اترنے والے تھے۔ اس تناظر میں یہ ایک مشکل فیصلہ ثابت ہوا۔ مگر میں سمجھتا ہوں یہاں آنے کے فیصلے سے بورڈ کو ضرور خوشی ہوئی ہوگی۔‘

کیا دیگر بین الاقوامی ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے؟

’میری ذاتی رائے کے مطابق دیگر بین الاقوامی ٹیموں کو یہاں کا دورہ کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے گزشتہ دورے کے مقابلے میں اس بار خود کو زیادہ پرسکون محسوس کیا۔ سچ کہوں تو جب ہم پہلی بار لاہور اور کراچی آئے تھے تب حسبِ توقع کوئی بھی کسی قسم کا کوئی چانس لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وی وی آئی پی سیکیورٹی کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس بار ٹیسٹ میچوں کے دوران جس انداز میں سیکیورٹی کا انتظام نظر آیا وہ اس وقت کے انتظامات سے کہیں زیادہ بہتر تھا جب ہم نے ایک روزہ میچ کھیلنے کے لیے یہاں کا پہلا دورہ کیا تھا۔

’(پہلی بار) دونوں ٹیموں نے باریک بینی سے تمام تر اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ دوسری بار جب ہم یہاں آئے تو پہلے مرحلے کے تجربے نے پاکستان کے حکام کو یہ بات یقینی بنانے میں مدد فراہم کی کہ کسی قسم کا کوئی سیکیورٹی لیپس نہ ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں آنے والے لوگ بھی خود کو پرسکون محسوس کریں۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں بین الاقوامی ٹیموں کو یہاں کا دورہ کرنے کے فیصلے پر زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

کیا آپ یہاں دوبارہ آنا چاہیں گے؟

روشن ابے سنگھے کرکٹ کمنٹری میں ایک ممتاز حیثیت رکھنے والی پاکستانی شخصیت چشتی مجاہد کے ہمراہ—تصویر بشکریہ روشن ابے سنگھے
روشن ابے سنگھے کرکٹ کمنٹری میں ایک ممتاز حیثیت رکھنے والی پاکستانی شخصیت چشتی مجاہد کے ہمراہ—تصویر بشکریہ روشن ابے سنگھے

’میں شوق سے یہاں آنا چاہوں گا، یہ بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ مجھے پاکستان کے لوگوں سے بہت زیادہ محبت ملی ہے۔ وہ ملنسار رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ جس انداز میں آپ کو جانتے ہیں، آپ کا نام جان لیتے ہیں، آپ کے پاس آجاتے ہیں، بات کرتے ہیں، ٹوئیٹ کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر رابطہ کرتے ہیں، اسے دیکھ کر بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ ہر بار جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو مجھے ان سے ہمدردی بھی ہوتی ہے کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران کیا کچھ کھویا ہے۔

’جب سری لنکا 30 سالہ جنگ سے نبردآزما تھا ان دنوں، بالخصوص 1990 کی دہائی کے دوران ٹیمیں وہاں آنے سے کتراتی تھیں اور سری لنکن کرکٹ شائقین عالمی کرکٹ کے لیے ترس گئے تھے، جو کہ قابل فہم بات بھی تھی۔ اس لیے میں بخوبی سمجھتا ہوں کہ وہ کن جذبات کے ساتھ میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔ چنانچہ میں سری لنکن دورے پر بہت خوش ہوں۔ یہاں مہمانوازی کے ساتھ ہوٹل بھی شاندار نظر آئے۔ یہاں کے کھانوں اور ہمارے کھانوں میں کافی مماثلت نظر آئی، اس لیے میں کہوں گا کہ ہمیں یہاں کہیں بھی کسی قسم کی بھی کمی یا کوتاہی نظر نہیں آئی۔‘

پاکستانی کھانوں کے مصالحے تیز ہیں یا ہلکے؟

’سری لنکن کھانا زیادہ مصالحہ دار ہے۔ ہمارے ہاں مصالحہ دار کھانے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ لیکن پاکسانی کھانے بھی ذائقہ دار ہیں۔ یہاں کے کھانوں میں لذت ہے اور ہم ان سے خوب لطف اندوز بھی ہوئے۔ میں اپنی بات کروں تو جب بھی کسی دورے پر جاتا ہوں اور اس موقعے پر اگر مجھے اپنے مطلب کا کھانا نہ ملے تو مجھے گھر کی یاد ستانے لگ جاتی ہے لیکن مجھے یہاں ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں ہوا۔‘

کوئی خاص پاکستانی پکوان جو بہت زیادہ پسند آیا ہو؟

’جی ہاں چند پکوان کھا کر بہت مزہ آیا۔ مجھے یہاں پیش کیا جانے والا اچار بہت پسند آیا۔ اس میں گاجر اور آم کے ساتھ چند دیگر چیزیں بھی شامل تھیں۔ میں اسے سادہ چاول کے ساتھ بھی شوق سے کھا لوں گا۔ یہ بہت ہی مزیدار چیز ہے اور اس کا اظہار میں نے کچھ دن پہلے اپنی تقریر میں بھی کیا تھا۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا جب اچار کے لیے میری پسندیدگی دیکھ کر پاکستانی میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے مجھے اچار کی بوتل تھمادی، جسے میں اپنے ساتھ اپنے وطن لے جاؤں گا۔‘

یہ مضمون 5 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں