مسئلہ کشمیر پر ملائیشیا، ترکی کا موقف: بھارت کا دونوں ممالک سے درآمدات کم کرنے کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 16 جنوری 2020
بھارت وزارت تجارت نے رائے کے لیے کیے گئے ای میل کا جواب نہیں دیا — فائل فوٹو/
بھارت وزارت تجارت نے رائے کے لیے کیے گئے ای میل کا جواب نہیں دیا — فائل فوٹو/

بھارت کے سرکاری عہدیدار کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے بدلے میں ترکی سے درآمدات کو کم کرنے اور ملائیشیا سے پام آئل، تیل، گیس سمیت دیگر مصنوعات پر پابندیاں عائد کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

دنیا میں خوردنی تیل کے سب سے بڑے خریدار بھارت نے پہلے ہی ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اپنے درآمد کنندگان کو دیگر مارکیٹوں سے خریداری کرنے کا کہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 2 سرکاری حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئی دہلی نے ملائیشیا سے پیٹرولیم، المونیم، لیکوئیفائڈ نیچرل گیس، کمپیوٹر پارٹس اور مائیکروپروسیسرز کی خریداری پر پابندی کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت کشمیر بن رہا ہے!

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکومت ترکی سے تیل اور اسٹیل کی مصنوعات کی درآمد کو بھی روکنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری حکومت نے ملائیشیا اور ترکی کی رائے کو قبول نہیں کیا اور ہم دونوں ممالک کی تجارت روکیں گے'۔

بھارتی وزارت تجارت نے اس حوالے سے رائے کے لیے کیے گئے ای میل کا جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارت جموں و کشمیر پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر رہا ہے۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو پابندیوں کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری ختم کرتے ہوئے خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی جس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ کی سہولت کو بند کیا تھا اور سماجی رہنماؤں و سیاست دانوں کو گرفتار بھی کیا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ وادی میں غیر معینہ مدت تک کے لیے انٹرنیٹ سروس کی بندش کو غیر قانونی عمل قرار دیا تھا۔

انڈونیشیا کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے پام آئل برآمدی ملک ملائیشیا اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا تھا جب ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بھارت کے نئے شہریت قانون پر تنقید کی اور اسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی قرار دیا تھا۔

دریں اثنا ترکی نے معاملے پر پاکستان کی حمایت کی تھی جو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا حصہ ہے جو جوہری ہتھیار کی پیداوار میں استعمال ہونے والے اشیا کی نگرانی کرتا ہے۔

ترکی نے عالمی مالیاتی نگراں ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ کیے جانے کی بھی مخالفت کی تھی جس کے لیے بھارت برسوں سے لابنگ کر رہا ہے۔

بھارت کا تجارتی ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملائیشیا اور ترکی سے مجموعی درآمد گزشتہ سال میں کم ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ ملائیشیا کو پام آئل کی درآمد پر بھارت کی نئی پابندیوں سے متعلق تشویش ہے۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ چاہے ان کے ملک کو مالی معاملات کا سامنا کرنا پڑے لیکن وہ 'غلط چیزوں' کے خلاف بولنا جاری رکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں