مدعی پہلے خود پیش ہو، سزائے موت کے خلاف مشرف کی اپیل پر سپریم کورٹ کا اعتراض

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2020
پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپیل دائر کی تھی—فائل/فوٹو:اے ایف پی
پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپیل دائر کی تھی—فائل/فوٹو:اے ایف پی

سپریم کورٹ کے دفتر نے خصوصی عدالت کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کی اپیل کو سننے سے انکار کردیا۔

ڈان کو باخبر ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے دفتر نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی اپیل کو مدعی کے خود پیش نہ ہونے کی بنیاد پر واپس کردیا اور کہا کہ اس اپیل کو سنا نہیں جاسکتا۔

پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں:پرویز مشرف نے سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد 1980 کی شق 8 کے آرڈر 23 کے تحت عدالت عظمیٰ کسی بھی سزا یافتہ شخص کی اپیل اس وقت تک قبول نہیں کرے گی جب تک وہ خود عدالت کے سامنے پیش نہ ہو۔

پرویز مشرف کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا اور 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کے جرم میں سنائی گئی سزائے موت کو معطل کرنے کی درخواست کی تھی۔

خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف 65 صفحات پر مشتمل درخواست میں پرویز مشرف نے وفاق اور خصوصی عدالت کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی تھی کہ ٹرائل آئین اور ضابطہ فوجداری کی صریحاً خلاف ورزی ہے اس لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران خصوصی عدالت نے 6 مرتبہ آئین کی خلاف ورزی کی اور پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔

فیصلے کے خلاف اپیل میں موقف اپناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی

‏درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ خصوصی عدالت نے فیصلہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سنایا، انہیں کوئی وکیل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور غیر حاضری میں ہی ٹرائل کیا گیا۔

سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کرتے ہوئے سابق فوجی حکمران کا کہنا تھا کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں اور انہیں بیان ریکارڈ کروانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا، انصاف کا قتل نہ ہو اس لیے مقررہ قانونی مدت کے دوران اپیل دائر کی۔

سنگین غداری کے مقدمے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس وقت کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ دائر کرنے کے لیے کابینہ سے بھی منظوری نہیں لی تھی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیر آئینی تھی اس لیے اس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

مزید پڑھیں:پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

جس کے بعد 19 دسمبر کو اس کیس کا 167 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے 13 جنوری کو فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کو سنگین غداری کے جرم میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں