طالبان رواں ماہ کے اختتام تک امریکا سے معاہدہ کیلئے پرامید

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2020
دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے 3 دور ہوچکے اور جمعے کے وقفے کے بعد ہفتے کو دوبارہ ملاقات کا امکان ہے—فائل فوٹو: اے پی
دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے 3 دور ہوچکے اور جمعے کے وقفے کے بعد ہفتے کو دوبارہ ملاقات کا امکان ہے—فائل فوٹو: اے پی

پشاور: افغان طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی غرض سے ’عسکری کارروائیاں‘ کم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں اور امریکا کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا محور معاہدے پر دستخط کی تاریخ مقرر کرنا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے سہیل شاہین نے بتایا کہ ’ہم نے امن معاہدے پر دستخط ہونے تک کے چند دنوں کے لیے عسکری کارروائیاں کم کرنے پر اتفاق کیا ہے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عسکری کارروائیوں میں کمی کا مقصد غیر ملکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، یہ صرف ’ہماری عسکری کارروائیوں میں کمی ہے، یہ ہمارا استحقاق ہے کہ ہمیں کب، کہاں اور کس طرح عسکری کارروائیوں میں کمی لانی ہے اور یہ صرف غیر ملکی افواج کے لیے نہیں، پرتشدد کارروائیوں میں کمی افغانستان اور دیگر تمام افواج کے لیے ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا ماضی کی طرح افغانستان کو نظر انداز نہ کرے، وزیر خارجہ

طالبان ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا حملوں میں کمی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بھی جاری رہے گی اور انہوں نے کہا کہ جب معاہدہ پر دستخط ہوں گے اس میں موجود شقیں نافذ ہوجائیں گی۔

انہوں نے یہ واضح نہیں کیا وہ کون سی شقیں ہیں تاہم یہ کہا کہ معاہدے سے اشرف غنی حکومت سمیت بین الافغان مذاکرات کا انعقاد ہوگا اور ملک بھر میں جنگ بندی پر بات کی جائے گی۔

رواں ہفتے کے آغاز میں قطر کے دارلحکومت دوحہ میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی اخوند المعروف ملا برادر کے درمیان بات چیت کا پہلا مرحلہ شروع ہوا تھا۔

دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے 3 دور ہوچکے ہیں اور جمعے کے وقفے کے بعد ہفتے کو دوبارہ ملاقات کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی امریکا کو عارضی سیز فائر کی پیشکش

سہیل شاہین نے بتایا کہ ’بات چیت جاری ہے اور معاہدہ ہونے کے قریب ہے کیوں کہ مسودہ تیار کیا جا چکا ہے اور معاہدہ کی شرائط کے حوالے سے مزید بات چیت کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ صرف ایک چیز کا تعین ہونا باقی ہے اور وہ ہے امن معاہدے پر دستخط کی تاریخ، یہ صرف چند دنوں کا معاملہ ہے، ہم پر امید ہے کہ شاید اس ماہ کے آخر تک ہم معاہدے پر دستخط کرسکیں گے‘۔

دوسری جانب افغان صدارتی محل سے کہا گیا کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان کسی ممکنہ معاہدے کے بارے میں نہی جانتے لیکن انہیں اس کے اثرات کے حوالے سے خبردار کیا گیا، انہوں نے کہا کہ سمجھوتا طے پانے اور معاہدے پر دستخط کے بارے میں انہیں اعتماد میں لینا پڑے گا۔

ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے ’موسم بہار کے حملوں‘ کے آغاز سے قبل امریکا کو اس جنگ کے خاتمے میں مدد کے لیے امن معاہدہ تیار کرنے کی کوششوں میں تیزی لائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا اچانک دورۂ افغانستان،طالبان سے جنگ بندی کی اُمید

واضح رہے کہ امریکی صدر نے افغانستان میں 18 سال سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں امریکا کے 15 کھرب ڈالر اور 2400 فوجیوں کی جانیں جا چکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں