irfan.husain@gmail.com
[email protected]

اگر جمہوریت میں ہارنے والوں کی رائے یا ان کا خیال شامل ہونا لازمی ہوتا تو پھر پاکستان کسی بھی طور پر ایک جمہوری ملک نہیں کہلایا جاسکتا تھا۔

یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے، ایک ایسی شاندار عمارت بھی موجود ہے جسے اسمبلی کہا جاتا ہے، اور جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا سارا سامان بھی ہے، لیکن شاید ہی کبھی ہارنے والوں نے یہ تسلیم کیا ہو کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے ان کی یہ رائے عموماً ٹھیک ہی ہوتی ہے۔ ویسے تو میں یہاں دھاندلی کی مثالوں کے انبار لگا سکتا ہوں لیکن اپنا نکتہ رکھنے کے لیے گزشتہ انتخابات کی مثال ہی کافی ثابت ہوگی۔

کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے شروع کرتے ہیں، گزشتہ انتخابات کے موقعے پر اہم حلقوں میں گھنٹوں تک سسٹم ڈاؤن رہا، جس کے باعث یہ خدشات ظاہر کیے جانے لگے کہ نتائج سے چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔ میرے علم کے مطابق اس معاملے پر اب تک کسی قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکی ہے۔ پولنگ سے ایک دن پہلے اپوزیشن امیدواروں کو مبیّنہ طور پر دھمکایا گیا۔ مختلف خفیہ فریبی حرکتوں نے 2018ء کے انتخابات کی اچھی خاصی ساکھ کو مجروح کرکے رکھ دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا منظرنامہ خطے کے دیگر ممالک میں دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا؟ میں گزشتہ 20 برسوں سے سری لنکا میں ہونے والے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہوں اور میں وہاں لڑی جانے والی انتخابی جنگوں کی تلخیوں کی گواہی دے سکتا ہوں لیکن وہاں نتائج کو ہمیشہ خوش دلی سے قبول کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس ملک میں تھوڑی سی دھاندلی ہوتی رہی ہے جو پورے نتائج میں تھوڑی بہت چھیڑ خانی ہی کرسکتی ہے۔

اگر بھارت کا ذکر کریں تو وہاں بھی عام انتخابات کے اس قدر بڑے حجم اور پیچیدگی کے باوجود انتخابی فراڈ کی محض چند شکایات ہی موصول ہوا کرتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ حکمران جماعت پر ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے الزامات عائد ہوتے ہیں۔ لیکن الزامات اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ امیدواروں کو وسیع فاصلے طے کرنے ہوتے ہیں۔

پھر ہمارے اور ان 2 ملکوں کے انتخابی منظرنامے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ پہلی بات تو ان ملکوں میں الیکشن کمیشن آزاد ہے اور اسے ایگزیکیٹو اور عدلیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی۔ اسی لیے ان کے پاس انتخابی عمل میں مداخلت اور کسی جماعت کی حامی یا حریف بننے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی۔

افسوس کے ساتھ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ دہائیوں قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے اصغر خان کیس میں یہ کہا گیا تھا کہ مبیّنہ طور پر آئی ایس آئی ہی نے آرمی چیف کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کو انتخابی فتح میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے امیدواروں میں نقدی رقم تقسیم کی تھی۔ لیکن معاملے یہ ہے کہ آج تک اس تاریخی کیس کا فیصلہ نہیں سنایا گیا ہے۔

ان تمام باتوں سے میں یہی سبق اخذ کرسکتا ہوں کہ اسٹیبشلمنٹ کے چند عناصر کو انتخابات کے نتائج میں جتنی کم دلچسپی ہوگی اتنا ہی زیادہ انتخابات آزادانہ اور شفاف ثابت ہوں گے، جتنی زیادہ ان کی دلچسپی ہوگی اتنے زیادہ انتخابات مشکوک ہوں گے۔

پھر ایک بار جب خراب طریقوں کے ذریعے وزیرِاعظم چن لیا جاتا ہے تو اسے اپنے سرپرستوں کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ اور اگر وہ اپنے اختیارات آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جو نواز شریف کا ان کے کیریئر میں 2 مرتبہ ہوا ہے۔

اخلاقی جرأت رکھنے والے زیادہ تر افراد احکامات لینا نہیں چاہیں گے، خاص طور پر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب وہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے ہوں۔ لیکن اگر اس اکثریت کو باقاعدہ تیار کیا گیا ہو تو پھر ظاہر ہے حکمرانی کے حق پر سوال تو کھڑے ہوں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا مظاہرہ حال ہی پارلیمنٹ میں آرمی ایکٹ کی ریکارڈ اسپیڈ میں منظوری کے موقعے پر دیکھنے کو ملا۔ ملک کی 2 بڑی جماعتوں نے بڑے بول بولے، ساتھ ہی ساتھ مجوزہ قانون میں تبدیلیوں کی دھمکیاں بھی دیں لیکن آخر میں انہوں نے وہی کیا جس کا انہیں کہا گیا۔

ماضی میں جب جب ہمارے سیاستدانوں کو منتخب سویلین قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کے توازن کو ٹھیک کرنے کا موقع ملا ہے، تب تب انہوں نے خود کو جھکایا ہے۔ 2011ء میں جب امریکی کمانڈو ٹیم نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں واقع ان کے خفیہ ٹھکانے میں قتل کیا تو انٹیلیجنس کی ناکامی پر وضاحت سننے کے لیے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا۔

اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے اس ناکامی کی مکمل ذمہ داری قبول کی اور استعفے کی پیش کش کی۔ لیکن اسمبلی میں موجود زیادہ تر قانون سازوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اس کی ناکامیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کا سنہری موقع گنواتے ہوئے ان کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کردیا۔

گزشتہ کئی برسوں سے دنیا میں ہماری ساکھ مسلسل گر رہی ہے۔ وہ پاکستان جو کبھی اپنے سے زیادہ طاقت والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا تھا وہ اب ایسے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے جسے اپنی ڈوبتی معیشت بچانے کے لیے سعودی عرب، چین، امریکا اور آئی ایم ایف کی بخشیشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یقیناً ایک دن ایسا بھی آئے گا جب وہ پیسے دینے سے انکار کردیں گے۔

مگر صرف ایک اسٹیبلشمنٹ ہی ملکی خزانے پر بوجھ نہیں بنی ہوئی، بلکہ اس میں قرضہ اقساط کی ادائیگی اور کرپشن نے بھی اپنا منفی ترین کردار ادا کیا ہے۔

اب اگر ہماری حقیقی قوتیں بدلتے حالات کے مطابق اپنے طریقہ کار میں لچک نہ لائیں اور وہ اسی طرح ہماری خارجہ پالیسی میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرتی رہیں تو ہمارے سیاستدانوں کی جانب سے کسی نہ کسی حد تک مزاحمت دیکھنے کو ملے گی۔

ترک صدر اردوان بھی بغاوت کا شوق رکھنے والی فوج کو اس کے محدود اختیارات کا احساس صرف اسی وقت دلاسکے جب انہوں نے معیشت میں زبردست بہتری لانے اور پہلے سے کافی بہتر گورننس فراہم کرنے کی صلاحیت رکھنے والی حکومت قائم کرلی۔

لیکن یہ حالات پاکستان میں نہیں پائے جاتے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں وزیرِاعظم کے اختیار میں بجٹ کا نسبتاً چھوٹا حصہ آتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وزیرِاعظم صاحب یا صاحبہ کو روزانہ کٹھ پتلی بن کر ان کے اشاروں پر چلنا ہوتا ہے جس نے ان کی ڈوری تھامی ہوتی ہے۔


یہ مضمون 18 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں