دھمکیوں کے بعد سرمد کھوسٹ کا ’زندگی تماشا‘ ریلیز نہ کرنے پر غور

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2020
فلم کو 24 جنوری کو ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ
فلم کو 24 جنوری کو ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا—اسکرین شاٹ

فلم ساز سرمد کھوسٹ نے نامعلوم افراد کی جانب سے آن لائن دھمکیاں ملنے کے بعد اپنی آنے والی فلم ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کرنے پر غور شروع کردیا۔

سرمد کھوسٹ نے پہلے ہی بتایا تھا کہ ان پر فلم کو ریلیز نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں جہاں دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہیں ان کے خلاف تھانوں اور عدالتوں میں شکایتیں بھی درج کروائی جارہی ہیں۔

سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کا ٹریلر گزشتہ برس ریلیز کیا گیا تھا جب کہ مذکورہ فلم کو بیرون ملک میں ہونے والے فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا تھا جہاں اس فلم کو ایوارڈز بھی ملے۔

تاہم چند ہفتے قبل سرمد کھوسٹ نے اچانک یوٹیوب سے فلم کا ٹریلر ہٹاتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے ٹریلر کو ہٹایا جا رہا ہے تاہم فلم کو 24 جنوری 2020 کو ریلیز کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'زندگی تماشا' کی ریلیز روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، سرمد کھوسٹ

تاہم بعد ازاں سرمد کھوسٹ نے خود کو دھمکیاں ملنے کا انکشاف کرتے ہوئے 17 جنوری کو صدر و وزیر اعظم کے نام کھلا خط لکھ کر ان سے مدد طلب کی تھی۔

فلم کی کہانی سماجی مسائل کے ارد گرد گھومتی ہے—اسکرین شاٹ
فلم کی کہانی سماجی مسائل کے ارد گرد گھومتی ہے—اسکرین شاٹ

فلم ساز نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی مدد کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی فلم ’زندگی تماشا‘ میں کوئی قابل اعتراض مواد نہیں تاہم اس کے باوجود انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

دھمکیوں کے باوجود سرمد کھوسٹ نے ’زندگی تماشا‘ کو مقررہ وقت پر ریلیز کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا تھا تاہم اب فلم ساز نے فلم کو ریلیز نہ کرنے پر غور شروع کردیا۔

مزید پڑھیں: ریلیز سے قبل ’زندگی تماشا‘ کا ٹریلر یوٹیوب سے ہٹادیا گیا

سرمد کھوسٹ نے 19 جنوری کو ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر پاکستانی عوام کے نام کھلا خط لکھتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا کہ ممکن ہے کہ وہ دھمکیوں کی وجہ سے فلم کو ریلیز نہ کر پائیں۔

فلم میں ایمان سلیمان نے اہم کردار ادا کیا ہے—اسکرین شاٹ
فلم میں ایمان سلیمان نے اہم کردار ادا کیا ہے—اسکرین شاٹ

اپنے طویل خط میں سرمد کھوسٹ نے فلم کی کہانی پر بھی بات کی اور بتایا کہ فلم کی کہانی ایک اچھے مسلمان اور اسلام کی کہانی ہے، فلم میں ایک اچھے مولوی کو دکھایا گیا ہے۔

فلم ساز نے لکھا کہ فلم میں کسی بھی مذہبی فرقے کی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی فلم کسی مذہب اور فرقے کے خلاف ہے، فلم سماج کی عکاسی کرتی ہے۔

سرمد کھوسٹ نے خط میں لکھا کہ ’زندگی تماشا‘ پر فلم سینسر بورڈ کو کوئی اعتراض نہیں تھا، فلم بورڈ کو جن الفاظ پر اعتراض تھا وہ نکال دیے گئے ہیں باقی سینسر بورڈ کو فلم کی کہانی سے کوئی اعتراض نہیں تھا تاہم دوسرے سینسر بورڈ کو فلم پر اعتراض ہے۔

فلم ساز نے پاکستانی عوام کے نام کھلے خط میں بتایا کہ انہوں نے ’زندگی تماشا‘ کو بنانے پر 2 سال لگائے اور وہ اب کس طرح اتنے مہینوں کی محنت کو رائیگاں کردیں؟

سرمد کھوسٹ نے خط میں اپنے ایک دوست کا بھی ذکر کیا جنہوں نے انہیں فلم کو ریلیز نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے نئی فلم بنانے کا کہا۔

فلم ساز نے لکھا کہ وہ مذکورہ دوست کی بہت عزت کرتے ہیں تاہم انہیں معلوم ہے کہ ’زندگی تماشا‘ کو بنانے میں انہیں کتنی محنت کرنی پڑی اور اس فلم سے انہیں کتنا پیار ہے۔

سرمد کھوسٹ نے عوام اور دوستوں سے سوال کیا کہ دھمکیوں کے بعد کیا انہیں فلم روک دینی چاہیے؟ ساتھ ہی انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ان کا خیال ہے کہ انہیں فلم روک دینی چاہیے‘۔

خط میں سرمد کھوسٹ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے دوران تعلیم ہمیشہ اچھے نمبر حاصل کرنے سمیت تین گولڈ میڈل بھی جیتے۔

فلم ساز کی جانب سے خط میں واضح طور پر ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کرنے کا عندیہ دینے کے بعد کئی افراد نے انہیں ایسا نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا اور معروف شوبز شخصیات ان کی حمایت میں سامنے آگئیں۔

ماہرہ خان، ہمایوں سعید، آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے، گلوکار علی گل پیر اور اداکارہ و گلوکارہ میرا سیٹھی سمیت کئی دیگر اہم شخصیات نے سرمد کھوسٹ کو کسی بھی حال میں فلم کو نہ روکنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ انہیں ’زندگی تماشا‘ ضرور ریلیز کرنی چاہیے۔

علاوہ ازین سرمد کھوسٹ نے خود کو آن لائن ملنے والی دھمکیوں میں سے ایک دھمکی کا اسکرین شاٹ بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس میں اردو میں فلم ساز کے خلاف نامناسب زبان استعمال کی گئی تھی۔

اسکرین شاٹ میں پڑھا جا سکتا ہے کہ دھمکیاں دینے والے شخص نے انہیں ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کرنے کا کہتے ہوئے فلم کو اسلام مخالف قرار دیا ہے۔

سرمد کھوسٹ نے دھمکی کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے دھمکی دینے والے شخص کا فون نمبر چھپا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں