بھارت کے یوم جمہوریہ پر متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2020
کولکتہ میں بھی 11 کلومیٹر طویل انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی —فوٹو:رائٹرز
کولکتہ میں بھی 11 کلومیٹر طویل انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی —فوٹو:رائٹرز
کولکتہ میں بھی 11 کلومیٹر طویل انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی —فوٹو:رائٹرز
کولکتہ میں بھی 11 کلومیٹر طویل انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی —فوٹو:رائٹرز

بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا اور 26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی بھارت بھر میں ہزاروں شہریوں نے اس متنازع قانون کے خلاف مظاہرے کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارت میں آئین کے نفاذ کی یاد میں تقریبات جاری تھیں تو دوسری طرف مسلمان مخالف شہریت (ترمیمی)قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں متنازع شہریت بل کے خلاف احتجاج، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی

جنوبی ریاست کیرالہ میں منتظمین نے کہا کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس کے بعد ریاست بھر میں 250 سے زیادہ مقامات پر احتجاج کیے گئے۔

کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے ریاستی دارالحکومت ترواننت پورم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا 'یہ محض انسانی ہاتھوں زنجیر نہیں بلکہ دستور کے اصولوں کی خلاف ورزی کے خلاف انسانی دیوار تھی'۔

انہوں نے کہا کہ کولکتہ میں بھی 11 کلومیٹر طویل انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی شہری رجسٹر (این آر سی) ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی حکمران جماعت کے انتخابی منشور کا اہم حصہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: ایوان صدر کی طرف جانے والے یونیورسٹی طلبہ پر پولیس کا لاٹھی چارج

بھارتی حکومت کی جانب سے قانون کی منظوری کے ساتھ پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اب تک مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ممبئی اور اسی طرح اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں پرتشدد واقعات کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی۔

لکھنؤ میں احتجاج کرنے والی ایک خاتون عنبرین رضوی نے کہا کہ 'جب تک حکومت اس قانون کو واپس نہیں لیتی، اس وقت تک ہمارا اس امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا'۔

مزیدپڑھیں: بھارت میں متنازع بل پر ہنگامے: امریکا، برطانیہ کا اپنے شہریوں کیلئے سفری انتباہ

دوسری جانب شمال مشرقی ریاست آسام میں 5 دھماکے ہوئے اور اس کی ذمہ داری متحدہ لبریشن فرنٹ آف آسام نے قبول کی تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

علاوہ ازیں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سراپا احتجاج مظاہرین شاہین باغ کے علاقے میں جمع ہوئے مرکزی شاہراہ بند کردی۔

متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ممبئی کے مضافاتی علاقے میں خواتین کی زیر قیادت 20 ہزار مظاہرین پر مشتمل ریلی نکالی گئی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

علاوہ ازیں 9 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔

اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ممبئی میں ایک اجلاس منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔

4جنوری کو بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے منظور کردہ مسلمان مخالف شہریت قانون کے خلاف جنوبی شہر بنگلور میں تقریباً 30 ہزار، سلی گوری میں 20 ہزار سے زائد اور چنائی میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا جبکہ نئی دہلی، گوہاٹی اور دیگر شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں