سینیٹ کمیٹی کا بچوں سے زیادتی کے کیسز پر 'دوہرے معیار' پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2020
اسلامی نظریاتی کونسل سے معاملے پر موثر قانون سازی کے لیے مدد طلب کرلی گئی — اے ایف پی/فائل فوٹو
اسلامی نظریاتی کونسل سے معاملے پر موثر قانون سازی کے لیے مدد طلب کرلی گئی — اے ایف پی/فائل فوٹو

اسلام آباد: ملک میں بچوں سے زیادتی کے کیسز کو بڑھنے سے روکنے کے لیے تجاویز دینے کے لیے قائم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اس سماجی برائی پر مختلف مذاہب کے الگ رویوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر روبینہ خالد کی سربراہی میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے بچوں کے تحفظ کا اجلاس منعقد ہوا۔

اس سے قبل کمیٹی نے کہا تھا کہ ملک کے مستقبل کے لیے بچوں سے زیادتی کے کیسز کو روکنے کی ضرورت ناگزیر ہے۔

سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اراکین زینب الرٹ بل کا بغور جائزہ لیں گے ' یہ نہایت اہم ہے کہ بچوں سے زیادتی کے کیسز کے بڑھنے کی وجوہات کو ہم جانیں'۔

خصوصی کمیٹی کا قیام گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں استاد کے بچے سے زیادتی کے واقعے کے بعد سامنے آیا تھا۔

مزید پڑھیں: مانسہرہ: ڈی این اے رپورٹ میں بچے سے 'زیادتی' کی تصدیق

کمیٹی کو بتایا گیا کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تھا جبکہ ملزم اس مدرسے کے منتظم کا بھائی تھا۔

کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے خصوصی عدالتیں خیبر پختونخوا میں قائم کردی گئی ہیں۔

سینیٹر سمینہ سعید کا کہنا تھا کہ ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزائیں سنائی جائیں گی۔

سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

کمیٹی کے چیئرپرسن نے ان کیسز کو نمایاں کرنے میں میڈیا اور سول سوسائٹی کے کردار کو سراہا اور کہا کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے معاملے پر عوام میں آگاہی پھیلی ہے۔

انہوں نے اجلاس کو اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین سے ان کی اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا۔

اب کا کہنا تھا کہ انہوں نے سی آئی آئی سے معاملے پر موثر قانون سازی اور مدرسوں میں بچوں سے زیادتی کے کیسز میں اضافے پر کنٹرول کے لیے تعاون طلب کی ہے جس پر سی آئی آئی میں بحث کی جانی ہے۔

ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی مظہر کاکڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ 2019 میں ہزارہ میں 64 بچوں سے زیادتی کے کیسز درج ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مفتی کفایت اللہ کا کردار نہایت افسوس ناک ہے کیونکہ وہ ملزم کی حمایت کر رہے ہیں اور اس طرح کے کیسز میں علما حقائق کو چھپاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے سول سوسائٹی کے افراد اور وکلا نے متاثرین کی حمایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: مدرسے کے طالبعلم سے بدفعلی کے الزام میں استاد گرفتار

انہوں نے کہا کہ دونوں شہروں کے بار کے اراکین نے عدالت میں ملزم کی نمائندگی سے انکار کردیا ہے۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ مدرسے کے منتظم کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں جو ملزم کا بڑا بھائی بھی ہے۔

کمیٹی اراکین کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ زیادہ تر اسکول نہ جانے والے بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی نے تجویز دی کہ تمام غیر رجسٹرڈ مدرسوں کے ہاسٹلز کو بند کردینا چاہیے اور تمام مدرسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردینے چاہیے۔

انہوں نے اس سماجی برائی پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ملزمان غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متاثرین کو پیسے دے کر کیسز کو ختم کرنے میں اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ایوب میڈیکل کپلیکس کے سینیئر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سماجی دباؤ کے باعث عوام ڈاکٹروں کو ایسے واقعات کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق خیبر پختونخوا میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ریپ کے 184 واقعات درج ہوئے جبکہ کیسز میں اضافے کی وجہ عوام میں اس برائی کے حوالے سے آگاہی کا بڑھنا بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں