یوں تو 1990ء سے ہی ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان اور دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے لیکن اس سال یومِ یکجہتی کشمیر کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے، کیونکہ پچھلے سال اگست میں بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مسئلہ کشمیر کی ہیئت و ساخت مکمل تبدیل کرنے کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال پھینکا، جو جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرتا تھا۔

مودی نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر جموں و کشمیر کے 3 حصے کیے اور انہیں بھارتی یونین کے زیرِ انتظام علاقے بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بھارت کے نزدیک جموں و کشمیر کوئی متنازع علاقہ نہیں رہا بلکہ وہ تو بھارت کا حصہ بن چکا ہے۔

آرٹیکل 370 کے کالعدم قرار دیے جانے پر کشمیری و پاکستانی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ کنٹرول لائن کے آر پار شدید احتجاج ہوا، مقبوضہ کشمیر میں احتجاج روکنے اور دبانے کے لیے کشمیری سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے کاٹ کر مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا سے الگ کرنے اور اسے ایک کھلی جیل میں بدلنے کی بھرپور کوشش ہوئی۔ ہزاروں کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ بھارتی جیلیں بھی کشمیریوں سے بھر دی گئیں۔

نریندر مودی نے آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے سوچا ہوگا کہ انہوں نے اس مسئلے کی جڑ کاٹ دی لیکن معاملہ الٹ ہوگیا کیونکہ نائن الیون کے بعد سرد خانے میں پڑا مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ابھر کر دنیا کے سامنے آگیا۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے ہر میڈیا نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا، اور یوں بھارتی جبر کی داستانیں ایک بار پھر دنیا کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے لگیں۔

وزیرِاعظم عمران خان کے پہلے دورہِ امریکا کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، سفارتی ذرائع سے آنے والی رپورٹس سے پتہ چلا کہ مودی کشمیر سے متعلق اپنے عزائم سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کرچکے تھے، اسی لیے صدر ٹرمپ نے نہ صرف ثالثی کی پیشکش کی بلکہ مودی کے عزائم سے بھی وزیرِاعظم عمران خان کو آگاہ کردیا تھا۔

مودی نے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اس کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا تھا، اسی لیے وزیرِاعظم عمران خان اور حکومتِ پاکستان مودی کے عزائم سے باخبر ہونے کے باوجود اس منصوبے پر عمل درآمد کے وقت سے بے خبر تھے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش نے مودی کو اس کے عزائم پر جلد عمل کے لیے اکسایا اور بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بھی مودی کے اس اقدام پر ششدر رہ گئیں۔

نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کی امید رکھنے والے عمران خان کے لیے بھی یہ صورتِ حال پریشان کن تھی، اور انہیں مودی سے توقعات وابستہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

مودی سے امن کی توقعات رکھنے والی تحریک انصاف کی حکومت اس قدر رجائیت پسندی کا شکار رہی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہ کرسکی، حالانکہ کنٹرول لائن پر صورتِ حال شدید کشیدہ تھی اور نوبت فضائی جھڑپوں تک پہنچ گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو بطور خصوصی مہمان مدعو کرلیا گیا، جس سے پاکستان کی سفارتی ناکامی کا تاثر ابھرا اور بھارت نے شادیانے بجائے۔

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی تیاری اس قدر کمزور رہی کہ اسے ثالثی کے لیے بار بار امریکا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اب ایک بار پھر صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی ہے لیکن کسی بھی طرح کی ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کے تمام فریق ثالثی کو قبول کریں۔ مودی اور بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ تنازع قرار دے کر ہر بار ثالثی کی کسی بھی کوشش کو رد کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے، اور اس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جانا چائیے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی۔ لیکن بھارت کی طرف سے حق خود ارادیت سے مسلسل انکار نے حالات کو آج یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ اب مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خودمختاری بھی چھین لی گئی ہے جس کے بعد ریفرنڈم کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔

اس پوری صورتحال میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر معاملات بند گلی میں داخل ہوچکے اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ آگے بڑھنے کا راستہ اب بھی موجود ہے، بس اس پر بہت ہی صبر اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کی محدود سفارتی کوششوں کے باوجود یورپی یونین اور دنیا کا ردِعمل حوصلہ افزا ہے۔ اب ہمیں مزید یہ سب کرنے کی فوری ضرورت ہے:

  • کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پہلے تو کشیدگی میں کمی اور کشمیری عوام پر جاری ظلم روکنا ضروری ہے۔
  • اس کے لیے عالمی برادری کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو بہتر کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھائے۔
  • ہزاروں بے گناہ کشمیریوں اور سیاسی قیادت کو رہا کرایا جائے۔
  • کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
  • کشمیری عوام کو کنٹرول لائن کے آر پار نقل و حرکت کا حق دیا جائے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے مندوب مقرر کیا جائے۔
  • صدر ٹرمپ یا عالمی برادری کی طرف سے ثالثی کی کسی بھی کوشش میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں ان کی رائے شامل ہو ورنہ کشمیر پر ثالثی کا حشر بھی اسرائیل فلسطین تنازع پر صدر ٹرمپ کے منصوبے جیسا ہوسکتا ہے۔
  • آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت کا بیانیہ سخت ہوگیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا خیال ہے کہ وہ جب چاہیں پاکستان کے خلاف فوجی مہم جوئی کرسکتے ہیں اور اس پر بھی دنیا خاموش رہے گی۔

بھارتی لیڈروں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی بدلنے سے متعلق بھی بیانات دیے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان عسکری کشیدگی کا خاتمہ لازمی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے جنگ سے گریز کا بھی کوئی فارمولہ تیار کیا جائے۔

یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات سے یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے آگرہ مذاکرات میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بھارتی قیادت سے کامیاب مذاکرات کیے تھے اور دونوں فریق ایک معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بھارتی قیادت عین وقت پر اس سے پیچھے ہٹ گئی تھی جس کی ایک وجہ کشمیری قیادت اور بھارت کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی بتائی جاتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف اور بھارتی قیادت کے درمیان مذاکرات میں جن اہم اقدامات پر اتفاق ہوا تھا ان میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف فوجوں میں کمی، کشمیریوں کی کنٹرول لائن کے آر پار آزادانہ نقل وحرکت، کشمیری عسکریت پسندوں کے لیے پاکستان کی طرف سے مدد کا خاتمہ اور کشمیریوں کا اپنے خطے پر حق حکمرانی شامل تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی طرح کے مذاکرات کے آغاز سے پہلے میدان ہموار کرنا ہوگا۔ بھارت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام کے ساتھ براہِ راست جنگ کا ماحول بنا رکھا ہے۔

  • مقبوضہ وادی ایک کھلی جیل بن چکی ہے۔
  • سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نمائندے جیلوں میں ہیں۔
  • کشمیریوں کا باہر کی دنیا سے رابطہ ممکن نہیں رہا۔
  • کشمیر میں زندگی مکمل مفلوج ہے۔
  • تعلیمی ادارے بند ہیں اور کاروبار تباہ ہوچکے ہیں۔
  • کشمیریوں کی سیب اور دیگر فصلیں کھیتوں اور باغات میں ہی سڑ گل گئی ہیں۔
  • بھارتی فورسز ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
  • آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھارتی فورسز سیدھی فائرنگ کرتی رہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر سے آنے والی رپورٹس اور بیانات میں ساری صورت حال واضح ہیں۔
  • اب تک کے حالات میں یوں لگتا ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بھی تبدیل کرنے کی کوششوں میں ہے۔

اس صورت حال میں سب سے پہلے تو بھارتی فورسز کے ظلم کو رکوانے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد ہی کشمیریوں کے سیاسی حقوق پر کوئی پیشرفت ممکن ہوسکے گی۔

مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں، جب تک انصاف اور شفافیت کے بنیادی اصول نظر انداز ہوتے رہیں گے مسئلے کے حل کے تمام راستے مسدود رہیں گے۔

مسئلہ کشمیر کے حل میں اب تک 2 بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے. پہلا امن کے عمل میں کشمیری عوام کی شرکت، اور دوسرا یہ کہ اس تنازع کے تینوں فریق، یعنی پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام، جب تک اپنے مؤقف میں لچک پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک پیشرفت ممکن نہیں ہوسکتی۔

پاکستان کی طرف سے کشمیر کو غیر فوجی خطہ بنانے کی تجویز کئی بار پیش کی جاچکی ہے۔ غیر فوجی خطہ بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ کشمیر سے نہ صرف فوج بلکہ پیرا ملٹری فورسز بھی نکالی جائیں۔

کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کی طرف پہلا قدم یہ ہونا چائیے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کو حاصل اختیارات کے قوانین ختم کیے جائیں۔ بھارتی فورسز کو حاصل ان خصوصی اختیارات نے کشمیری عوام کے قتل کا لائسنس دے رکھا ہے۔ ان قوانین کے خاتمے کے بعد فوج کی مرحلہ وار واپسی کا معاہدہ ممکن ہو۔ غیر فوجی علاقہ بنانے کے بعد کشمیریوں کو حق حکمرانی دیا جائے اور وہ کشمیر کا انتظام بشمول تجارت، کراس بارڈر ٹرانسپورٹ، سیاحت اور دیگر شعبوں کو خود چلائیں۔ جب کشمیری عوام اور تنازع کے باقی 2 فریقوں پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات مکمل ہوجائیں تو پھر اس مسئلے کے مستقل حل کی طرف بڑھا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں