دنیا بھر میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والی خواتین کو فی الوقت جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں صنفی تعصب، جنسی ہراسانی اور لوگوں کے غیر حوصلہ افزا رویے سرفہرست ہیں۔

خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے کی خواہش مند خواتین کو سب سے پہلے صنفی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ امریکا جیسے ملک میں بھی 4، 5 دہائیوں قبل یہی سمجھا جاتا تھا کہ سائنسی تحقیق خاص طور پر خلا، فلکیات، بایو ٹیکنالوجی، طبیعات اور میڈیسن ایسی فیلڈز ہیں جن میں خواتین کام نہیں کر سکتیں۔

مگر بہت سی با ہمت خواتین جیسے میری کیوری، روزا لینڈ فرینکلین، باربرا میک کلینٹوک، جین گوڈال، کیتھرین جانسن اور ویلنٹینا ٹیرشکووا نے مشکلات کا ہمت سے مقابلہ کر کے ثابت کیا کہ خواتین بھی صلاحیتوں میں مردوں سے کسی صورت کم نہیں ہیں اور اگر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ کئی سائنسی فیلڈز میں مردوں سے بہتر کام سر انجام دے سکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے سائنس میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے اقدامات اپنے 2030 تک ایجنڈے میں شامل کیے ہیں۔

فی الوقت دنیا بھر میں سائنس کی مختلف فیلڈز میں تحقیق سے وابستہ خواتین کی تعداد 30 فیصد ہے۔ جبکہ ایشیائی ممالک میں نیچرل سائنسز، ریاضی، طبیعات، میڈیسن اور خلائی سائنس میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے کیونکہ ان ممالک میں پیشہ ورانہ سطح پر صنفی امتیاز کے علاوہ لڑکیوں کے والدین یا خاندان والوں کی سوچ اب تک یہی ہے کہ سائنس کی فیلڈز خواتین کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ اس سوچ کو ختم کرنے اور موجودہ ڈیجیٹل دور میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو ملکی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اقوام متحدہ ہر برس 11 فروری کو سائنس میں کارنامے سر انجام دینے والی خواتین اور لڑکیوں کا عالمی دن مناتا ہے تاکہ دنیا بھر میں یہ آگاہی پیدا کی جاسکے کہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ سائنسی فیلڈز میں کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتی ہیں۔

اگرچہ دنیا کے مختلف خطوں میں خواتین کی آزادی اور تعلیم کے حوالے سے سوچ بتدریج تبدیل ہو رہی ہے اور ایشیائی ممالک میں بھی خواتین سائنس کی ہر فیلڈ میں ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں جن میں بھارت سر فہرست ہے کیونکہ اس کے خلائی پروگرام بھی خواتین سائنسدانوں اور محققین کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے، مگر اس کے بر عکس پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی تعداد اب بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اگرچہ گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان میں خواتین کا شرح خواندگی کافی بڑھا ہے اور پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی ایک نمایاں تعداد سائنسی مضامین میں تعلیم حاصل کر رہی ہے اس کے باوجود ملکی یا بین الاقوامی سطح پر عملی سائنس اور تحقیق میں بہت کم خواتین آگے آرہی ہیں جس کی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر فوراً شادی کر دی جاتی ہے اور گھر بار، بچوں کی تربیت میں انہیں اتنا وقت ہی نہیں مل پاتا کہ وہ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سر انجام دے سکیں۔

مگر میرے خیال میں سارا الزام سماجی یا معاشرتی نظام پر نہیں دیا جاسکتا، گزشتہ 3 برس سے سائنسی سوسائٹیوں میں سر گرم ہونے اور صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے مجھے یہ ادراک ہوا ہے کہ ہماری نوجوان نسل بہت سہل پسند ہو چکی ہے اور ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں ایسی ہیں جو مواقع میسر ہونے کے باوجود عملی یا تحقیقی میدان میں کچھ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ کام محنت، احساس ذمہ داری اور بہت سا خون و توانائی مانگتا ہے۔

آئیے آج آپ کو پاکستان کی چند ایسی خواتین سے ملواتے ہیں جو سائنس کی مختلف فیلڈز میں کارہائے نمایاں سر انجام دے کر نا صرف بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے کا باعث بنیں بلکہ وہ آج کی فیشن ذدہ ، سہل پسند نوجوان لڑکیوں کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔

1۔ ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو

پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آہستہ آہستہ ترقی کر رہے ہیں مگر یہاں اس حوالے سے تحقیق اور نئی دریافتوں یا ایجادات کی شرح بہت ہی کم ہے۔ اور عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میدان میں پاکستانیوں کا کوئی کردار نہیں ہے، حالانکہ یہ تصور انتہائی غلط ہے اور اس کی تصدیق سندھ کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو کرتی نظر آتی ہیں جو پاکستان کی پہلی سائبر سیکیورٹی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔

ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو
ڈاکٹر فوزیہ ادریس ابڑو

ڈاکٹر فوزیہ نے گریجویشن میں انجینئرنگ اینڈ الیکٹرانکس کے مضامین کا انتخاب کیا اور مہران یونی ورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ اگرچہ ابتدا میں انہیں بھی بےشمار رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ نے نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے کرپٹولوجی میں ماسٹرز کیا اور بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلی گئیں جہاں انہوں نے سٹی یونی ورسٹی آف لندن سے سائبر سیکیورٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تحقیق کے دوران مالویئر کا تجزیہ کرنا، اس کی شناخت اور روک تھام کے اقدامات، موبائل سیکیورٹی، نیٹ ورک سیکیورٹی، مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس ان کی دلچسپی کے موضوعات رہے ہیں۔

ڈاکٹر فوزیہ اس وقت پاکستان آرمڈ فورسز کے سائبر سیکیورٹی ونگ سے وابستہ ہیں اور افواجِ پاکستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہیں حال ہی میں چھٹا عالمی گلوبل سائبر جتسو ایوارڈ بھی دیا گیا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ اتنی ڈھیر ساری کامیابیوں کے ساتھ ڈاکٹر فوزیہ ایک بے انتہا نفیس خاتون ہیں جو دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ گھر اور بچوں میں توازن بر قرار رکھنے کے حوالے سے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ انہیں بھی دیگر خواتین کی طرح لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے کام کے بوجھ کے باعث کئی دفعہ ان کا حمل بھی ضائع ہوا مگر وہ جانتی تھیں کہ کچھ غیر معمولی کرنے کے لیے انہیں یہ سب قربانیاں دینی پڑیں گی۔ سائنس میں کیریئر بنانے کی خواہش مند خواتین کو ڈاکٹر فوزیہ یہ نصیحت کرتی ہیں کہ خود کو محض کام تک محدود نہ کریں بلکہ اپنے لیے بھی وقت نکالیں۔ شوہر، گھر والوں اور ساتھیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر کے خواتین اپنے بہت سے مسائل از خود حل کر سکتی ہیں۔

2۔ زرتاج وسیم

زرتاج وسیم کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد ایک میکنیکل اور الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ انہوں نے کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ زرتاج کئی برس سے پاکستان میں سائنسی علوم خاص طور پر خلائی سائنس کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان اسپیس سائنس ایجوکیشن سینٹر قائم کیا ہے۔ جو ملک میں نوجوانوں کو خلائی سائنس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ انہیں اس فیلڈ میں کیریئر بنانے کے لیے بھرپور مواقع اور کیریئر کاؤنسلنگ بھی فراہم کرتا ہے۔ زرتاج وسیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ادارہ اس لیے قائم کیا تاکہ پاکستان میں بچوں کو اسکول کی سطح سے ہی کوالٹی ایجوکیشن کے ساتھ سائنسی مضامین جیسے ریاضی، طبیعات، میڈیسن اور دیگر ایسی فیلڈز کی طرف راغب کیا جائے جس میں تحقیق کا مارجن زیادہ ہو۔ ساتھ وہ اپنی ذاتی کوششوں سے پاکستانی خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں خلائی سائنس کے لیے رغبت پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں اور ورک شاپس کے علاوہ بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں لیکچرز بھی دیتی ہیں۔

زرتاج وسیم
زرتاج وسیم

اس کے ساتھ ہی انہوں نے کراچی میں روبوٹکس کے لیے ایک اسٹوڈیو بھی قائم کیا جو ملک میں روبوٹ کی تیاری کے مقابلے منعقد کروانے کے علاوہ یونیورسٹیوں کے طلبہ کو بین الاقوامی روبوٹکس مقابلوں میں شرکت کے لیے مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ پہلی لیگو لیگ اور ڈیسٹی نیشن امیج نیشن مقابلے میں شرکت بھی کر چکی ہیں۔

زرتاج کا کہنا ہے کہ 2010 سے پاکستان میں سائنسی علوم کے فروغ کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے انہیں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا مگر اتنے برس گزرنے کے بعد وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے لیے اس سے بہترین فیلڈ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جس میں انہیں ناصرف بہترین ساتھی ملے بلکہ مختلف شہروں اور ملک سے باہر اپنی سائنسی سرگرمیوں کے باعث وہ مسلسل سفر میں رہتی ہیں جس سے انہیں بھرپور تفریح کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ وہ اس عمومی سوچ کی قطعاً نفی کرتی ہیں کہ یہ ایک بورنگ اور بے انتہا محنت طلب فیلڈ ہے۔

3۔ تسنیم زہرہ حسین

ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون اسٹرنگ تھیورسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کنیرڈ کالج لاہور سے فزکس میں گریجویشن کرنے والی ڈاکٹر تسنیم نے اسٹوخوم یونیورسٹی اٹلی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹورل ہارورڈ یونیورسٹی سے محض 26 برس کی عمر میں کیا۔

ان کی تحقیقات کا مرکز گیارہ ابعاد (جہتوں) کا قانون اور سپرگریویٹی تھا۔ جس پر ان کے ریسرچ پیپرز معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں، وہ ’ورلڈ ایئر آف فزکس‘ کانفرنس جرمنی میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں، جس کا لوگو بنانے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا۔

تسنیم زہرہ حسین
تسنیم زہرہ حسین

2013 میں کیمبرج سائنس فیسٹیول میں انہیں دنیا کے نامور سائنسدانوں کی جانب سے مدعو کیا گیا، اس فیسٹیول کا مقصد دنیا بھر سے ابھرتے ہوئے سائنسدانوں کو متعارف کروانا اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا،

ڈاکٹر تسنیم زہرہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں درس و تدریس سے وابستہ رہی ہیں اور پاکستان میں تھیوریٹیکل فزکس کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے نظریاتی طبیعات پر ایک اینی میٹڈ سیریز بنا کر ہائی اسکول اور کالج اسٹوڈنٹس کو فراہم کی تاکہ وہ اس مشکل مضمون کا باآسانی سمجھ سکیں۔

ڈاکٹر تسنیم زہرہ بچپن سے ہی ایک بہترین رائٹر بھی ہیں، 2014 میں ان کا پہلا ناول اونلی دی لانگ تھریڈز منظر عام پر آیا۔ جسے سائنسی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر تسنیم کو انٹرنیشنل فزکس اولمپیڈ میں شرکت کے لئے پاکستانی ٹیم کی تربیت کرنے کا بھی موقع ملا۔

ملکی سطح پر طبیعات کی ترویج کے لیے مسلسل سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تسنیم ہارورڈ میڈیکل ااسکول اور نیشنل اکیڈمی آف ساینسز کی رکن بھی ہیں، فزکس میں ان کی نمایاں خدمات کو سراہاتے ہوئے انہیں پولٹزر ایوارڈ اور وائس چانسلر گولڈ میڈل سے نوازا جاچکا ہے۔

4- منیبہ ظفر

منیبہ ظفر کا تعلق لاہور سے ہے وہ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ملٹی دسپلنری گروپ سربانا جیورنگ سے باحیثیت سینئر پروگرامر وابستہ ہیں۔

انہوں نے 2018 میں اسی گروپ کی جانب سے ینگ فی میل پروفیشنل آف دی ایئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا، جس سے وہ 2012 سے وابستہ ہیں۔

منیبہ ظفر
منیبہ ظفر

واضح رہے کہ یہ ایوارڈ دنیا بھر کے 40 سے زیادہ ممالک سے انتہائی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نوجوان پروفیشنل کو دیا جاتا ہے۔ منیبہ کو یہ ایوارڈ پاکستان میں پانی کے ذرائع کے لیے منیجمنٹ اینڈ مانیٹرنگ انفارمیشن سسٹم بنانے پر دیا گیا۔

منیبہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین کو سائنس خاص طور پر آئی ٹی کی فیلڈ میں آگے آنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک صنفی امتیاز بھی ہے۔

مگر اس کے ساتھ ہی آئی ٹی اور خصوصاً مصنوعی ذہانت کی آمد نے ان رکاوٹوں کو توڑ دیا ہے جو عشروں سے خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔

آج سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی خواستین کسی بھی طرح کی زیادتی یا حق تلفی کے خلاف مؤثر انداز میں آواز اٹھا سکتی ہیں۔

5- ہما ضیا فاران

ہما ضیا فاران کا شمار پاکستان کی ان چنیدہ خواتین میں ہوتا ہے جو اندرون ملک خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کے لیے برسوں سے کوشاں ہیں۔ ہما فاران نے لاہور اسکول آف اکنامکس سے 2010 میں گریجویشن کیا اور تب سے وہ مختلف قومی و بین الاقوامی تعلیمی پراجیکٹس کا حصہ رہی ہیں۔

گزشتہ حکومت کے دور میں اقوام متحدہ کے تحت شروع کیے جانے والے پروگرام "الف اعلان" نے ہما کی سرکردگی میں چلنے والی تنظیم پاکستان الائنس فار میتھ اینڈ سائنس کے ساتھ کئی تعلیمی منصوبے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے۔

ہما ضیا فاران
ہما ضیا فاران

یہ الائنس دراصل کئی تنظیموں کا ایک مشترکہ گروپ ہے جو پاکستان بھر خصوصاً دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ساتھ ہی الائنس میتھ میٹکس سے متعلق بچوں میں بے رغبتی ختم کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرتی رہی ہے اور اب تک کئی میتھ میٹکس اولمپیڈز منعقد کی جاچکی ہیں۔

ہما کا کہنا ہے کہ بچے اور خاص طو پر لڑکیاں ریاضی اور دیگر سائنس مضامین میں دلچسپی اس لیے نہیں لیتیں کہ انہیں یہ صحیح طرح نہیں پڑھائے جاتے جس کے لیے سائنس کے اساتذہ کی مناسب تربیت انتہائی ضروری ہے۔ ہما کئی سالانہ ایجوکیشنل رپورٹس لکھنے کے علاوہ ایک بہترین کالم نگار بھی ہیں اور ایک عرصے تک دی نیوز میں تعلیم اور خواتین کے مسائل پر کالمز لکھتی رہی ہیں۔


صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں