کراچی میں گیس لیکیج کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات جاری

اپ ڈیٹ 18 فروری 2020
وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔—تصویر: اے ایف پی
وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔—تصویر: اے ایف پی

کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ طور پر گیس لیکیج کے باعث 7 افراد جاں بحق اور متعدد متاثر ہوگئے ہیں، جنہیں ہسپتالوں میں داخل کروادیا گیا جبکہ واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے حکام نے مختلف طریقوں سے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعے پر صوبائی حکومت بھی حرکت میں آئی اور متاثرہ علاقوں سے رہائشیوں کے انخلا کا حکم دے دیا۔

اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کی اور رہائشیوں کے انخلا کے احکامات دیے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بدقسمتی سے زہریلی گیس کی بو کم نہیں ہورہی اور لوگ اب بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: 'زہریلی گیس' سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہوگئی،وزیراعلیٰ کا علاقہ خالی کرانے کا حکم

اجلاس کے حوالے سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہوا کی سمت میں تبدیلی کے ساتھ بو پھیل رہی ہے‘، ان کا کہنا تھا کہ محفوظ مقامات پر موجود شادی ہالز کو متاثرہ افراد کی رہائش کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔

دوسری جانب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ سندھ کابینہ نے تمام تر توجہ اس مسئلے کی جانب دینے کے لیے سندھ کابینہ کا آج (منگل کو) ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا، اب یہ اجلاس بدھ کو ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ہسپتالوں کا دورہ کر کے مریضوں کی عیادت کی—تصویر: امتیاز علی
وزیراعلیٰ سندھ نے ہسپتالوں کا دورہ کر کے مریضوں کی عیادت کی—تصویر: امتیاز علی

ادھر پولیس نے متاثرہ علاقوں اور وہاں کی آب و ہوا صاف کرنے کے لیے جامعہ کراچی کے اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی مدد مانگ لی جبکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان بحریہ بھی اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کی ایک ٹیم نے متاثرہ علاقوں سے نمونے بھی اکٹھے کیے ہیں۔

قبل ازیں گزشتہ روز شام میں جیکسن پولیس نے ریاست کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 284 (زہریلے مواد سے متعلق غفلت برتنے)، دفعہ 321 (انسان کا قتل) اور دفعہ 337 جے (زہریلے مواد سے تکلیف پہنچانا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: پراسرار گیس کے باعث 4 افراد جاں بحق

ریسکیو اور پولیس ذرائع کے مطابق اس واقعے کے نتیجے میں 3 خواتین سمیت 7 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

تاہم متعلقہ حکام اب تک معاملے کی درست وجوہات کے حوالے سے لاعلم ہیں، اس سلسلے میں کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم اب تک واقعے کی ممکنہ وجہ کا سراغ نہیں لگا پائے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سینئر پولیس افسران واقعے کی حقیقی نوعیت کے تعین کے لیے ڈاکٹرز کے تعاون سے کررہے ہیں، ان کے ساتھ مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے ضلعی پولیس، پورٹ سیکیورٹی فورس، محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل ٹیمز تشکیل دے دی گئی ہیں۔

اس سلسلے میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شرجیل کھرل نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ گیس کا اخراج کہاں سے ہوا یہ جانننے کے لیے ویسٹ وہارف کو چیک کیا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیپسول کی شکل کے کنٹینرز کو خاص طور پر چیک کیا جارہا ہے کیوں کہ علاقے کے عوام نے تحقیقات کرنے والوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے اس قسم کے کنٹینرز کو وہاں کھڑے دیکھا تھا۔

کے پی ٹی نے گیس لیکیج کی تردید کردی

دریں اثنا کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے چیئرمین جمیل اختر نے صحافیوں کو بتایا کہ بندرگاہ پر کام معمول کے مطابق جاری ہے، ’تمام ٹرمینلز چیک کیے گئے اور یہاں کہیں سے بھی گیس لیکیج نہیں ہورہی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بندرگاہ سے گیس لیکیج کی خبریں غلط ہیں، ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بندرگاہ سے گیس کا اخراج نہیں ہوا‘۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا کراچی میں 'زہریلے' کھانے سے 2 بچوں کی ہلاکت کا نوٹس

انہوں نے بتایا کہ کے پی ٹی کی تمام برتھس کا جائزہ لیا گیا، ان کا ماننا تھا کہ عوام کو بندرگاہ کے حوالے سے اکثر چیزوں کا علم نہیں۔

چیئرمین کے پی ٹی نے بتایا کہ پاک بحریہ نے کچھ نمونے اکٹھے کیے ہیں اور امید ظاہر کی کہ جلد ہی اس کی رپورٹ آجائے گی۔

تاہم کیماڑی کی مرکزی سڑک کے ساتھ قائم ریلوے کالونی کے رہائشیوں کو علاقے کے نزدیک خام تیل ذخیرہ کرنے کی سہولت پر شبہ ہے۔

اس سلسلے میں ایک رہائشی کا کہنا تھاکہ ’ہمیں ان ٹینکوں کے حوالے سے شدید شکوک و شبہات ہیں اور حکام کو یہاں کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے‘۔

ایک اور نوجوان نے بتایا کہ ہم نے یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ اور ماہرین سے رابطہ کیا اور اپنے طور پر انٹرنیٹ پر معلومات تلاش کیں، ہمیں پورے دن کی محنت کے بعد شدید شک و شبہ ہے کہ خام تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ پر کسی قسم کی لیکیج یا غلفت ہوسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہائیڈروجن سلفائیڈ ہوسکتی ہے جس نے ہوا کو خراب اور صورتحال کو بگاڑا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری ایمانداری کے ساتھ اس کی تحقیقات کی جائیں۔

ائیر وژوول کا سندھ ای پی اے میں اندراج نہیں، سیپا

علاوہ ازیں حکومت سندھ کی ہدایات پر ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل کی سربراہی میں سندھ تحفظ ماحولیات(ایس ای پی اے) کی ٹیم بھی واقعے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کررہی ہے۔

ادارے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گیس کے اخراج کے ذریعے اور وجہ کا پتہ چلتے ہی سندھ کے ماحولیاتی قانون کے تحت مزید کارروائی کی جائے گی۔

دریں اثناء سوشل میڈیا پر کراچی کے فضائی معیار (ائیر کوالٹی) کے حوالے سے پھیلنے والی نجی پوسٹ پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فضائی معیار کے اعداد و شمار جاری کرنے والی ویب سائٹ ائیر وژوول کا سندھ ای پی اے میں کوئی اندراج نہیں ہے۔

ادارے کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ اکا دکا مقامات کا فضائی معیار جانچ کر پورے شہر کے فضائی معیار پر حتمی اعداد شمار کا اجراء درست عمل نہیں ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ ای پی اے سندھ کچھ نجی لیبارٹریوں کے اشتراک سے کراچی کے60 مقامات کے فضائی اعداد و شمار اکٹھے کررہا ہے جسے مکمل ہونے کے بعد عوامی آگاہی کے لیے جاری کردیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ کا ہسپتالوں کا دورہ

دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کی رات ضیا الدین اور جناح پوسٹ گریجویٹ ہسپتال کا دورہ کیا اور مریضوں کی عیادت کی۔

وزیراعلی سندھ نے زیر علاج مریضوں سے بات کر کے ان کو اطمینان دلایا کہ میری پوری سرکاری مشنیری آپ کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہے۔

وزیراعلیٰ ہسپتال انتظامیہ کو مریضوں کا بہترین علاج کرنے کی ہدایت دی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واقعے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے سندھ حکومت اپنے تمام تر وسائل کے ذریعے بھرپور کوششیں کررہی ہے اور اس سلسلے میں میری پاک فوج اور پاک بحریہ سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Khan Feb 18, 2020 11:21am
گیس کی وجہ سے ہلاکتوں کی حقیقت سامنے آجائے گی مگر کیماڑی کے رہائشیوں کو اس سے بھی بڑی مسلسل مصیبت کا سامنا ہے۔ طویل جدوجہد کے بعد کیماڑی سے کوئلے کو ختم کیا گیا مگر اب دن رات کلنکر، کھاد۔ مٹی۔ سویابین وغیرہ کی انتہائی غیر محفوظ طریقے سے سے ہنڈلنگ کی جارہی ہے ان تمام اشیا سے مسلسل دھول مٹی اڑتی رہتی ہے۔ صحافی حضرات جو کیماڑی آئے ہوئے ہیں وہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں کی فضا انتہائی آلودہ ہو چکی ہے اور لوگ لوگ سخت قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔ SEPA نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہے اور وہ عوام کے مشکلات کا خاتمہ کرنے کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہی۔