قلندروں کے لیے کوئی مشورہ نہیں، ان کے لیے اب صرف دعائیں ہیں!

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
عماد وسیم کی وکٹ لینے کے بعد کوئٹہ کے کھلاڑی خوشی منارہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
عماد وسیم کی وکٹ لینے کے بعد کوئٹہ کے کھلاڑی خوشی منارہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
لیوک رونکی کی اہم وکٹ لینے کے بعد شاہین شاہ آفریدی خوشی سے سرشار— تصویر: اے ایف پی
لیوک رونکی کی اہم وکٹ لینے کے بعد شاہین شاہ آفریدی خوشی سے سرشار— تصویر: اے ایف پی

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے بہترین مقابلے جاری ہیں۔ کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان ہونے والے شاندار میچ نے لیگ کو وہ سنسنی اور جوش فراہم کردیا تھا جو کسی بھی لیگ میں شائقین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔

اتوار کو شائقین کی تفریح کا سامان لیے 2 میچ ہوئے۔ کراچی میں ہونے والا پہلا میچ اس لیے اہم تھا کہ دونوں ہی ٹیمیں اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی تھیں۔ کوئٹہ میں بھی اکثریت کراچی والوں کی ہے، یہی وجہ ہے کہ شائقین نے خوب جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔

لیکن لاہور قلندرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مابین کھیلا جانے والا دوسرا میچ سنسنی میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ تو چلیے آئیے دونوں میچوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

کراچی بمقابلہ کوئٹہ

کراچی والے اس بار سخت جان ثابت ہو رہے ہیں۔ ماضی میں ان کا سفر خوشگوار نہیں رہا تاہم اس بار ان کی ٹیم پر نظر دوڑاتے ہی لگ رہا تھا کہ یہ کچھ کرنے آئے ہیں۔

کوئٹہ کے ساتھ پہلے ہی میچ میں ایک حادثہ ہوگیا اور ان کے اہم کھلاڑی عمر اکمل کو معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بعض اوقات مصائب آپ کے اندر کا بہترین لڑاکا جگا دیتے ہیں۔ اب چونکہ کوئٹہ والے ویسے بھی خود کو گلیڈی ایٹرز کہلوانا پسند کرتے ہیں سو اس مشکل کو انہوں نے اپنے لیے ایک موقع سمجھا اور ڈٹ گئے۔

اب اس کو نعمت غیر مترقبہ والا معاملہ ہی سمجھیں کہ ممکنہ طور پر جو اعظم خان ماضی کی طرح اس بار بھی شاید ٹیم سے باہر ہی ہوتے، انہیں عمر اکمل کی عدم موجودگی کے سبب میدان میں اتارا گیا اور انہوں نے اپنی کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کردیے۔ خود پر اور اپنے والد پر ہونے والی ساری تنقید کا بدلہ اپنے بلے سے اتار دیا۔ اب تک کوئٹہ کو حاصل ہونے والی دونوں فتوحات میں ان کا حصہ سب سے زیادہ رہا ہے۔

کراچی اننگز

کراچی نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کی۔ اس بات پر سرفراز سے زیادہ خوشی کسی کو نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ وہ اسکور کا تعاقب کرنا پسند کرتے ہیں۔ بابر اعظم نے میدان میں اترتے ہی دکھا دیا کہ کراچی کا پہلے بلے بازی کا فیصلہ درست ہے۔ یوں لگا جیسے یہ دن بھی بابر کا ہے، لیکن یہ بابر کا نہیں بلکہ نسیم شاہ کا دن تھا۔

پی ایس ایل میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے نسیم شاہ نے شائقین کا دل خوش کردیا۔ طوفانی رفتار اور شاندار لینتھ سے انہوں نے بابر کا بلا خاموش کیا۔ نسیم کے دوسرے اوور میں بہت تگڑی اپیل بھی ہوئی اور بظاہر یہ آؤٹ لگا لیکن امپائر کے خیال میں گیند اور بلے کا ملاپ نہیں ہوا تھا۔ ریویو کے نتیجے میں بھی فیصلہ برقرار رکھا گیا کیونکہ الٹراایج کی سہولت دستیاب نہیں تھی جس پر کوئٹہ نے کافی بحث بھی کی۔

سر ویو رچرڈز نسیم شاہ کو ڈیبیو کیپ پہنا رہے ہیں—تصویر ٹوئٹر
سر ویو رچرڈز نسیم شاہ کو ڈیبیو کیپ پہنا رہے ہیں—تصویر ٹوئٹر

اس مشکل سے نکلنے کے بعد بابر نے اگرچہ چند گیندیں ضرور کھیلیں لیکن وہ پھر بجھے بجھے ہی نظر آئے۔ اپنا فوکس وہ کھو بیٹھے تھے۔ پھر ٹائمل ملز نے بھی انہیں بڑی کاریگری سے پھنسا لیا۔ ایک اوور کی 3 گیندیں ضائع کروانے کے بعد انہیں چوتھی گیند پر بولڈ کردیا اور یوں کراچی کو پہلا نقصان اٹھانا پڑگیا۔

شرجیل خان نے اس میچ میں حیران کن اننگز کھیلی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی جگہ کے لیے کھیل رہے ہوں کیونکہ وہ اپنے فطری انداز سے کوسوں دُور نظر آئے۔ اب چونکہ کوئٹہ کی باؤلنگ بھی اچھی ہو رہی تھی اور بابر اعظم بھی پویلین واپس لوٹ چکے تھے ایسے میں شرجیل کا دفاعی انداز ٹیم کو لے ڈوبا۔ جتنے بُرے انداز میں انہوں نے وکٹ گنوائی وہ ان کی ذہنی حالت کا آئینہ دار تھا۔ ایک معمولی گیند جسے عام حالات میں وہ کہیں بھی پھینک سکتے تھے سیدھا باؤلر کے ہاتھوں میں اچھال دیا۔

نسیم شاہ کے ساتھ حسنین نے بھی خوب باؤلنگ کی۔ 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو چھونے والوں کو جب ٹائمل ملز اور سہیل خان جیسے تجربہ کار مل جائیں تو کمال ہوجاتا ہے، اور کراچی کے خلاف یہی ہوا۔ اس شاندار باؤلنگ کے سامنے الیکس ہیلز اور کیمرون ڈیلپورٹ کا بلا بھی خاموش تھا۔ اتنی اچھی باؤلنگ کے ساتھ بہترین حاضر دماغی سے ہوتی کپتانی نے تو جیسے کراچی کو بے بس ہی کردیا۔

حقیقت یہ ہے کہ پوری اننگ میں کراچی کسی بھی موقع پر کھل کر نہ کھیل سکی۔ ایسا لگا جیسے بابر کے جلدی آؤٹ ہونے کا دباؤ پوری ٹیم نے لے لیا۔ بابر اعظم جب وکٹ پر کھڑے ہوں تو دوسری طرف موجود بیٹسمین پر دباؤ نہیں ہوتا اور وہ کھل کر کھیلتے ہیں، لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہوسکا، بلکہ دباؤ اس قدر محسوس ہوا کہ وہ سنگل اور ڈبل رنز بھی نہیں لے سکے۔

ویسے بھی جب آغاز اچھا نہیں ملے تو کچھ نیا کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے، جیسے پہلے میچ میں عماد وسیم نے اوپر آکر زلمی کے خلاف کیا تھا۔ 20 اوورز میں آپ کے پاس غلطیاں سدھارنے کا ٹائم انتہائی کم ہوتا ہے۔ پچھلے میچ کی طرح اس میچ میں بھی کراچی نے وہی غلطی کی کہ افتخار احمد سے اوپر چیڈوک والٹن کو بھیج دیا جو اچھی فارم میں بھی نہیں ہیں۔

آخری اوورز میں ملی جلی مار دھاڑ سے کچھ گزارے لائق اسکور بن تو گیا لیکن کراچی کی وکٹ بلے بازوں کے لیے جنت ہے یہاں یہ اسکور ناکافی ہی رہنے والا تھا۔ کراچی کی اس کسمپرسی میں ان کی بیٹنگ کوتاہی سے کہیں زیادہ کوئٹہ کے باؤلرز کی شاندار باؤلنگ کا کمال تھا۔ دوسری بات یہ کہ کراچی کے پاس بابر کے آؤٹ ہونے کے بعد کیسے کھیلنا ہے اس کا کوئی پلان بھی نہیں تھا۔ پہلے 12 اوورز تو جیسے شاک میں ہی گزر گئے۔ اگر پہلے ہلّہ بولا جاتا تو شاید بازی پلٹی جاسکتی تھی۔

کوئٹہ بیٹنگ

کوئٹہ کی ٹیم میں تو جیسے سر ویوین رچرڈز کی روح گھس آئی تھی۔ پہلے اوور سے ہی اس ٹیم میں کرنٹ اور جادو نظر آیا۔ مہم جویانہ رویے کے ساتھ جب قسمت شامل ہوجائے تو وہی ہوتا ہے جو کوئٹہ نے کیا۔ ایک آسان بیٹنگ پچ پر 157 کا ہدف کسی بھی طور پر پریشان کن نہیں تھا۔ اس لیے ماضی میں بڑے بڑے ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو اب کچھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بس غلطیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اپنا نارمل کھیل کھیلنا تھا۔

اگرچہ جیسن رائے اور شین واٹسن کی صورت میں 2 بہترین بلے باز کوئٹہ کو دستیاب تھے لیکن ان دونوں کے ساتھ ایک مسئلہ بھی ہے۔ واٹسن جہاں ابھی تک اپنی پرانی فارم حاصل نہیں کرسکے ہیں وہیں رائے بھی کھل کر کھیلنے سے قاصر ہیں، پھر کراچی کی باؤلنگ بھی عمدہ ہے۔ محمد عامر کے ساتھ کرس جارڈن اور عمید آصف موجود تھے جبکہ عماد وسیم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

اننگ شروع ہوئی تو واٹسن نے ہاتھ کھولے لیکن ایک غیر ضروری ڈبل بناتے ہوئے وہ رن آؤٹ ہوگئے۔ حیران کن طور پر 3 میچوں میں یہ ان کا دوسرا رن آؤٹ تھا، مگر آج وہ کچھ اچھی فارم میں دکھائی دے رہے تھے۔ دوسری طرف روئے آج پھر اپنا رنگ نہیں دکھا سکے۔ ایک سست رو اننگز کھیل کر وہ بھی عماد کی شاندار فیلڈنگ کا نشانہ بنے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان سپر لیگ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ٹیم کے دونوں اوپنرز رن آؤٹ ہوئے ہیں۔

احمد شہزاد آج پھر بجھے بجھے نظر آئے۔ وہ ایک ناکام شو کے بعد پویلین واپس لوٹ گئے اور پہلے 9 اوورز میں کوئٹہ ٹیم صرف 58 رنز جوڑ سکی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب لگ رہا تھا کہ شاید کراچی والے حاوی ہوچکے ہیں لیکن پکچر ابھی باقی تھی۔

پھر سرفراز نے وہ کام کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سرفراز احمد نے پاکستانی ٹیم سے بے دخلی اور کپتانی جانے کا غم بھلا دیا ہے اور اب ان کی بلے بازی میں عزم جھلکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ جان لڑا رہے ہوں۔ ذمہ داری کا وہی احساس نظر آرہا ہے جو کبھی ان کا خاصا تھا۔ سرفراز جب موڈ میں ہوں تو مخالف کپتان اور فیلڈرز کو اپنی چالوں سے گھما دیتے ہیں۔ کراچی کے خلاف بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی کیا۔

شروع میں انہوں نے بڑے شاٹ کے لیے جانے کی بالکل کوشش نہیں کی بلکہ گیند کو اِدھر اُدھر پھینک کر ایک 2 رنز بناتے رہے۔ یہ وہی حکمتِ عملی تھی جو کراچی والے اپنانے میں ناکام رہے تھے۔ سرفراز نے ایک اینڈ سنبھالنے کا عندیہ دیا اور نوجوان اعظم خان کو کھلی چھوٹ دیدی۔

اعظم خان بھی کیا شاندار پیکج ہیں۔ پہلے میچ میں ملنے والے موقع سے انہوں نے ناقدین کے منہ خوب بند کیے۔ تب بھی کچھ ناقدین نے انہیں محدود صلاحیتوں کا مالک ہارڈ ہٹر کہا جو صرف لیگ سائیڈ پر ہی لمبے شاٹ مار سکتا ہے لیکن اس میچ میں انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے وہ ہر قسم کی صورت حال میں ہر قسم کے شاٹس کھیل سکتے ہیں اور سیدھے بلے سے لانگ آف پر ان کا چھکا قابلِ دید تھا، اسے شاید میچ کا بہترین شاٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی اس کارکردگی کے سبب سرفراز سے دباؤ بہت حد تک ختم ہوچکا تھا۔

اچھا یہاں کراچی والوں کی خراب فیلڈنگ کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔ ایک سے زیادہ بار سیدھے رن آؤٹ انہوں نے مس کردیے۔ ایک کم اسکور والے میچ میں آپ ایسی فیلڈنگ سے کبھی بھی دفاع نہیں کرسکتے۔ سرفراز کی چالاکیاں قابو کرنے کا واحد حل اچھی فیلڈنگ تھا لیکن کراچی والوں سے یہ نہیں ہوسکا۔ جب 42 گیندوں ہر 62 اسکور چاہیے تھے تو کراچی والوں نے بڑے شاٹ سے بچنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ اس موقع پر کراچی کو جارحانہ حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تھی اور کپتان عماد وسیم کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ صرف گیندیں مس کروانے سے آپ کبھی بھی میچ نہیں جیت سکتے۔

عماد کی کپتانی بھی ایک سوالیہ نشان بنی رہی ہے کیونکہ اپنے اوور شروع میں پھینک کر وہ ایک سائیڈ ہر ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی دوسرے اسپنر کو مناسب موقع نہیں دیتے۔ آج بھی جب نوجوان ارشد اقبال کو مار پڑ رہی تھی تو عماد نے حیران کن طور پر افتخار احمد کو باؤلنگ نہیں دی حالانکہ کوئی بھی دوسرا کپتان ہوتا تو ایک یا 2 اوور چھٹے باؤلر سے ضرور نکلوا لیتا۔ یہاں کیمرون ڈیلپورٹ کا تجربہ بھی کام آسکتا تھا۔ آخر میں یہ نقصان فیصلہ کن ثابت ہوا کیونکہ ارشد اقبال ہی وہ کمزور اینٹ ثابت ہوئے جنہوں نے ساری عمارت تہس نہس کروا دی۔

ایک اور بات جو سمجھ میں نہیں آسکی وہ عمر خان کی غیر موجودگی ہے۔ عمر خان ارشد اقبال کی طرح ایمرجنگ کیٹگری میں موجود ہیں۔ گزرے سیزن میں انہوں نے بہت زبردست باؤلنگ کی تھی اور بڑے بڑے نام ان کا شکار بنے۔ اپنی اس شاندار کارکردگی کی بدولت کھیل کے سب بڑوں سے خوب داد بھی سمیٹی لیکن کمال دیکھیے کہ وہ اب تک ٹیم سے باہر ہیں۔

اس میچ میں دونوں ٹیموں کے درمیان کپتانی ایک بڑا فرق نظر آئی۔ سرفراز کی جانب سے فیلڈ سیٹنگ سے لیکر باؤلنگ کی تبدیلیوں تک سب ہی خوب رہے جبکہ عماد وسیم اپنی موجودگی نہ دکھا سکے۔ جہاں تک منیجمنٹ کا تعلق تھا کوئٹہ والوں نے کیس کی خوب تیاری کی اور اتنی ہی تیاری سے لڑا بھی اور اسی لیے جیت ان کے حصے میں آئی۔

لاہور بمقابلہ اسلام آباد

اتوار کے دن کا دوسرا اور ٹورنامنٹ کا اب تک سب سے بہترین مقابلہ لاہور قلندرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ صرف ایک گیند اور ایک ہی وکٹ باقی تھی جب اسلام آباد یونائیٹڈ نے ناقابلِ یقین فتح حاصل کی۔

لاہور کی اننگز

اسلام آباد نے ٹاس جیت کر لاہور کو بلے بازی کی دعوت دی۔ بقول شاداب خان وکٹ میں نمی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بظاہر تو پچ میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا تاہم اسلام آباد کو بعد میں کھیلنے کا ایڈوانٹیج ضرور حاصل ہوگیا۔

لاہور کو حسبِ معمول عمدہ آغاز مل گیا۔ فخر زمان کو بلّے کے باہری کناروں کی بدولت کچھ سستے رنز ملے جن میں ان کی اپنی صلاحیت سے زیادہ قسمت کا عمل دخل تھا۔ کرس لین کچھ خاص نہیں کر پائے اور کوَر پوائنٹ پر کیچ تھما کر چلتے بنے۔ اس میں کمال محمد موسی کا تھا جنہوں نے لینتھ تھوڑی سی کھینچی اور کرس لین کو پورا بلّا چلانے کا موقع نہیں دیا۔

وکٹ پر باؤنس بھی اچھا تھا۔ محمد حفیظ کریز پر آئے اور آتے ہی ایک شاندار چوکا جڑ کر اپنے ارادے ظاہر کردیے۔ حفیظ نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دوسرے اینڈ سے فخر زمان پر قسمت کی دیوی کافی مہربان رہی لیکن شاداب آج بدلے ہوئے موڈ میں تھے۔ ان کی بال اسپن بھی ہورہی تھی اور بال کو ٹھیک جگہ پر بھی پھینک رہے تھے، یعنی آج کنٹرول بھی بہتر تھا۔ فخر زمان انہیں وکٹ چھوڑ کر کھیلنے گئے اور بولڈ ہوگئے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس شاٹ کی وضاحت ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ کھیلنا کیا چاہتے تھے۔ فخر زمان کا یہ مسئلہ پرانا ہے۔ انہیں کئی بار انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی ایسے بولڈ ہوتے دیکھا گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنی اس خامی پر قابو نہیں پاسکے۔

فخر جب آؤٹ ہوئے تو حفیظ تب تک مکمل طور پر حاوی ہوچکے تھے۔ چوکے اور چھکے لگ رہے تھے اسی لیے لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر اوپر آئے تاکہ بڑا اسکور بنایا جاسکے، مگر یہ ارادہ اس وقت ناکام ہوگیا جب وہ پہلا میچ کھیلنے والے احمد صفی عبداللہ کا نشانہ بن گئے۔

ڈین ولاس بیٹنگ کے لیے آئے تو زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور شاداب کی ایک جادوگر لیگ اسپن بال نے انہیں وکٹ کیپر کے ہاتھوں پویلین بھجوادیا۔ شاداب نے حفیظ کی عمدہ بلے بازی کے باوجود بھی بہترین اسپیل کروایا، اور سچ پوچھیے تو لمبے عرصے بعد ان کی باؤلنگ میں دم خم نظر آیا۔ انہوں نے صرف 14 رنز کے عوض 2 وکٹیں حاصل کیں۔

اس موقع پر ایک بار لگا کہ لاہور والوں کی قلندرانہ حس بیدار ہوچکی ہے لیکن پروفیسر حفیظ نے اس خیال کو فوری جھٹلا دیا۔ تاہم یہ وہی مرحلہ تھا جس نے لاہور کا اسکور 200 کی بجائے 182 تک محدود کردیا۔ سمیت پٹیل اور ڈیوڈ ویزے نے چند اچھے شاٹس لگائے اور حفیظ کا ساتھ نبھایا۔ حفیظ نے 7 چھکے رسید کیے اور وہ صرف 2 رنز کی کمی کے باعث سنچری مکمل نہ کرسکے تاہم انہوں نے میچ ضرور بنادیا۔

شاداب خان جنہیں اسلام آباد کی کپتانی سونپی گئی ہے خاصے دباؤ میں نظر آئے۔ حالیہ عرصے میں ان کی اپنی باؤلنگ بہت خراب رہی ہے لیکن اس ہائی اسکورنگ میچ میں انہوں نے اپنی افادیت خوب ثابت کی۔ ان کے علاوہ اسلام آباد کے نئے اسپنر صفی بھی اچھا پیکج لگے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ حفیظ نے ان کی تھوری پٹائی کردی لیکن اس نوجوان کھلاڑی میں دم ہے اور وہ مستقبل کے اچھے باؤلر ثابت ہوسکتے ہیں۔

ابھی تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں کرس لین نے کرس گیل اور برینڈن میکولم کی یادیں ہی تازہ کی ہیں۔ اگر لاہور کو جیتنا ہے تو کرس لین اور سہیل اختر کو بڑا اسکور کرنا ہوگا۔ انفرادی خدمات کی وجہ سے ایک آدھ میچ تو جیتا جاسکتا ہے، مگر مستقل یہ کام نہیں ہوسکتا۔

اسلام آباد اننگز

اسلام آباد کا آغاز بالکل اچھا نہیں رہا۔ ان کے سپر ہیرو لیوک رونکی کو شاہین شاہ آفریدی کا چیلنج درپیش تھا۔ شاہین نے اپنی زبردست گیند بازی اور تیز رفتاری سے رونکی کو بے بس کردیا اور پہلے ہی اوور میں رونکی مڈ آف کو پار کرنے کے چکر میں پکڑے گئے۔

ڈیوڈ ملان تیسرے نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے تو کریز پر وکٹ پر بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والوں کی موجودگی کے سبب سہیل اختر نے باؤلنگ کے لیے حفیظ کو بلالیا۔ الٹے ہاتھ کے بلے بازوں کو سیدھا کرنا حفیظ سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتا ہے اور وہی ہوا۔ حفیظ کے سوالات کا کولن منرو کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ایک سیدھی گیند کو سوئپ مارنے کی کوشش کرتے ہوئے منرو بولڈ ہوگئے۔

اتنی جلدی 2 بڑے نقصان ہونے کے بعد لگا کہ اب اسلام آباد کے ہاتھ پیر پھول جائیں گے اور یہ میچ جلد ختم ہوجائے گا، لیکن آج شاداب کا دن تھا۔ انہوں نے خود بلّا اٹھایا اور میدان میں اتر آئے۔ بظاہر یہ ایک جوا ہی لگا، اور شاہین آفریدی نے اپنے دوسرے اوور میں شاداب کو مکمل طورپر آؤٹ کلاس کرکے اس خیال کو کسی حد تک درست بھی ثابت کیا، لیکن شاہین کی یہ بدقسمتی تھی کہ وہ وکٹ سے محروم رہے۔

یہاں سہیل اختر سے ایک غلطی ہوئی اور انہوں نے حارث رؤف کی موجودگی کے باوجود گیند عثمان شنواری کو تھما دی۔ ویسے تو حفیظ کو ایک اوور مزید بھی دیا جاسکتا تھا لیکن شنواری کا انتخاب ہوا اور شاداب نے انہیں کور پر ایک شاندار چوکا مار کر اپنے عزائم کا اعلان کردیا۔ اس اوور میں 12 رنز آئے اور اسلام آباد والوں کے حوصلے کچھ بڑھتے محسوس ہوئے۔ شاداب چونکہ شنواری پر ہاتھ صاف کرچکے تھے اسی لیے انہوں نے حارث رؤف کا عمدہ استقبال کیا اور 2 چوکوں اور ایک چھکے سمیت ان کے اوور میں 17 رنز بٹور لیے۔

یہی اوور میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ شاہین کے بعد لاہور والوں کی سب سے زیادہ امیدیں حارث رؤف سے وابستہ تھیں لیکن شاداب نے ان پر ہی حملہ آور ہوکر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

دوسری باؤلنگ کا ایک نقصان یہ ہوا کہ وکٹ پر باؤلر کے لیے کچھ نہیں تھا اور گیند گیلا ہونے کی وجہ سے اسپنر بھی غیر موثر ہوچکے تھے۔ ملان اور شاداب کی زبردست پارٹنرشپ کے بعد محمد حفیظ کو واپس لایا گیا لیکن اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ گوکہ ڈیوڈ ملان ایک بڑا اسکور بنائے بغیر ڈیوڈ ویزے کا شکار بن گئے تاہم شاداب اب بھی وکٹ پر موجود تھے اور مسلسل بڑے شاٹس انہیں مل رہے تھے۔

11ویں اوور کے اختتام پر جب شاداب اپنی نصف سنچری مکمل کرکے آؤٹ ہوئے تب میچ دونوں ٹیموں کی پہنچ میں تھا۔ اسلام آباد کو 54 گیندوں پر 91 اسکور چاہیے تھے اور اس کے پاس ابھی 6 وکٹیں باقی تھیں۔ اسلام آباد نے دلیری دکھانے کا فیصلہ کیا جو انہیں راس بھی آگیا۔ کولن انگرام آئے اور آتے ہی سمیت پٹیل کے ایک اوور میں 22 رنز بنالیے۔ اگرچہ وہ اس اوور کی آخری گیند پر آؤٹ ہوگئے مگر شاید انہوں نے اپنا کام کرلیا تھا۔ انہوں نے صرف 14 گیندوں پر 30 رنز بنا کر اپنا حصہ ڈالا اور چلتے بنے ایسا ہی کچھ آصف علی نے بھی کیا۔

یہ دن سمیت پٹیل کے لیے بہت ہی خراب ثابت ہوا۔ پہلے انہوں نے میچ کا سب سے مہنگا اوور پھینکا اور اس کے بعد آصف علی کا کیچ چھوڑ دیا۔ اس مشکل صورتحال میں سہیل اختر کو اپنا ترپ کا پتا کھیلنا پڑا اور وہ شاہین آفریدی کو واپس لائے جنہوں نے آصف علی اور حسین طلعت کو ایک ہی اوور میں پویلین واپس بھیج کر لاہور کا پلڑا بھاری کردیا۔ لیکن اس پورے میچ میں یوں لگ رہا تھا کہ لاہور کے لیے شاہین اکیلے ہی لڑ رہے ہیں۔

کیونکہ اس اوور کے بعد جہاں دباؤ کو برقرار رکھنے کی ضرورت تھی اس وقت حارث رؤف ایک بار پھر پٹ گئے اور فہیم اشرف اور عماد بٹ نے حارث کے ایک اوور میں 14 رنز حاصل کرلیے۔ حارث اب تک پی ایس ایل کے کھیلے گئے دونوں ہی میچوں میں آف کلر نظر آئے، شاید وہ تھکاوٹ کا شکار ہیں۔

بہرحال میچ 18 گیندوں پر 20 رنز تک آگیا اور اسلام آباد کے پاس اب صرف 2 وکٹیں موجود تھیں۔ کپتان پھر شاہین کو لائے جنہوں نے پہلی ہی گیند پر عماد بٹ کو آؤٹ کردیا اور ایک بار تو یوں لگا جیسے آج قلندر جیت ہی گئے لیکن قسمت کو قلندروں کا امتحان مقصود تھا سو آخری وکٹ پر جب 20 رنز درکار تھے تب آخری نمبر پر بیٹنگ کے لیے آنے والے محمد موسی کے اندر کا بلے باز جاگ گیا۔ انہوں نے شاہین کو 2 چوکے جڑدیے۔ اس موقع پر اپنا پہلا ہی میچ کھیلنے والے احمد صفی عبداللہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا یوں شاہین آفریدی نا صرف اپنی پانچویں وکٹ سے محروم رہے بلکہ میچ بھی قلندرز کے ہاتھ سے پھسلتا ہوا محسوس ہوا۔

حارث نے اگلے اوور میں صرف 3 رنز دیے اور اپنی خراب باؤلنگ کا کچھ کفارہ ادا کیا۔ لیکن وہ بھی فیصلہ کن وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں اگر موسیٰ اور صفی عبداللہ کے اعتماد کو داد نہ دی جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔ وہ ایک بار بھی گھبرائے ہوئے نہیں لگے۔ دونوں ایسے کھیل رہے تھے جیسے نمبر 3 اور نمبر 4 کے بلے باز کھیلتے ہیں۔

آخری اوور میں جب 9 رنز درکار تھے اور اسلام آباد کے پاس صرف آخری وکٹ تھی۔ شاہین شنواری کا سامنا کر رہے تھے موسیٰ۔ لیکن جیسے ہی شنواری نے ایک شارٹ بال پھینکی تو موسیٰ نے اس کو تحفہ خاص سمجھا اور اہم ترین موقع پر شاندار چھکا لگادیا۔

اب چونکہ پورا ہاتھی نکل چکا تھ اور صرف دم رہ گئی تھی کہ اس لیے دونوں نے کسی بھی طور جلدی نہیں دکھائی اور بقیہ 3 رنز کو بھی سکون سے حاصل کرلیا اور یوں ایک غیر یقینی جیت اسلام آباد کے حصے میں آگئی۔

اس پورے اوور میں شنواری مکمل طور پر بد دل، بجھے بجھے اور ڈرے سہمے سے نظر آئے۔ حالانکہ ان کے سامنے 2 آخری نمبر کے بیٹسمین بلے بازی کرہے تھے۔ قلندروں کے لیے یہ شکست واقعی دل توڑ دینے والی ہے کیونکہ وہ ایک جیتا ہوا میچ ہار گئے ہیں۔ وہ بھی ہوم کراؤڈ کے سامنے۔

قلندروں کو اسلام آباد سے سیکھنا ہوگا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان سب سے بڑا فرق اپروچ کا تھا۔ اسلام آباد والے انفرادی کی بجائے اجتماعی کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں، حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہیں اور معاملے کے نتائج و عواقب پر غور کرتے ہیں، جبکہ لاہور والے انفرادی کارکردگی پر خوش ہوتے ہیں، حکمتِ عملی نامی شے ان کے ہاں فضولیات میں شمار ہوتی ہے۔

غیر یقینی جیت کے بعد محمد موسی اور صفی عبداللہ خوشی سے سرشار —فوٹو اے ایف پی
غیر یقینی جیت کے بعد محمد موسی اور صفی عبداللہ خوشی سے سرشار —فوٹو اے ایف پی

اتوار کو دونوں ہونے والے میچ کی خاص بات تماشائی تھی، جنہوں نے بھرپور انداز میں اسٹیڈیم کا رخ کیا اور بتایا کہ لیگ کے پاکستان میں آنے کے کیا فوائد ہیں۔

آخری بات یہ کہ سہیل اختر آخر میں ضرورت سے زیادہ پریشان نظر آئے، انہیں یہاں شاداب خان سے سیکھنا ہوگا۔ ہار جیت یا مشکل حالات چلتے رہتے ہیں اگر بطور کپتان آپ کا چہرہ ہ بجھ جائے اور آپ کے ہی اوسان خطا نظر آئیں تو کسی دوسرے سے کیا شکوہ کیا جائے؟ ویسے اب لاہور کو اب کسی مشورے سے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rana HASNAIN Feb 25, 2020 09:52am
بہت بہترین لکھا لکھاری نے۔ جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا محسن حدید بھائی ♥