پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2020ء اپنے چوتھے پڑاؤ یعنی راولپنڈی پہنچ گئی ہے۔ پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلا میچ اس میدان میں کھیلا گیا تھا، جس میں ’پنڈی بوائز‘ نے سماں باندھ دیا۔

تمام شہروں کے بیچ ایک خوشگوار مسابقت چل رہی ہے کہ کون سب سے زیادہ رونق لگاتا ہے، کون زندہ دلی کا پیغام واشگاف انداز میں دنیا کو پہنچاتا ہے۔ امن کی تڑپ میں کس کی بے تابی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ مگر راولپنڈی والوں کا شکریہ۔

اسلام آباد اپنے پہلے ہوم میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مدِ مقابل میدان میں اترا۔ کوئٹہ نے اسلام آباد کو سیزن اوپنر میں شکست دی تھی سو لگتا تھا کہ اسلام آباد والے سارا حساب کتاب چکتا کرلیں گے لیکن نصیب کی دیوی پر کس کا بس چلتا ہے؟

کل ایک حیران کن اتفاق یہ بھی ہوا کہ صرف 8 دنوں میں یہ دونوں ٹیمیں دوسری بار ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری تھیں۔ یہ کیسی شیڈولنگ ہے کہ جہاں کچھ ٹیموں کے بیچ ابھی پہلا میچ بھی نہیں کھیلا گیا مگر یہ دونوں ٹیمیں دوسری بار گیند اور بلے اٹھائے میدان میں آگئیں۔ خیر ہم میچ کا جائزہ لیتے ہیں۔

اسلام آباد اننگز

کوئٹہ نے ٹاس جیتا اور حسبِ روایت پہلے باؤلنگ کو ترجیح دی۔ گیند بازی کا انتخاب سرفراز کا خاصہ بن چکا ہے اور نتائج بھی اس فیصلے کے حق میں دلالت کرتے ہیں۔ وکٹ پر تھوڑا گھاس ضرور موجود تھا تاہم اس سے باؤلرز کو کوئی مدد نہیں ملنے والی تھی۔ کل ایک ہائی اسکورنگ میچ متوقع تھا اور یہ توقع پوری ہوئی، کیونکہ بال بغیر نکھرے دکھائے سیدھا بلّے پر آرہی تھی۔

لیوک رونکی کل ایک بار پھر اٹیکنگ موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ رونکی اس کام کے ماہر ہیں اور اکثر وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ میچ کی پہلی دونوں گیندیں چوکے اور چھکے کی صورت میں منتج ہوئیں، جس کے بعد سہیل خان نے خود کو سنبھالا۔

پھر دوسرے اوور کے لیے نسیم شاہ جب گیند بازی کرنے آئے تو رونکی نے ایک بار پھر پہلے سے سوچا ہوا شاٹ مارنا چاہا لیکن نسیم کا ہر طرح سے بہترین اور سیدھا یارکر ان کی لیگ اسٹمپ لے اُڑا۔ نسیم پاکستان کی تیز گیند بازی کی جادوئی نرسری سے ابھر کر سامنے آنے والے تازہ شاہکار ہیں۔

رونکی کو ان سے محتاط رہنا چاہیے۔ وہ ایک خاص ٹیلنٹ ہیں اور بلے باز کو اپنی گیند بازی کا احترام کرنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ اپنے اندر جوان وقار یونس کی جھلک رکھنے والے نسیم شاہ کو دیکھ کر دل اطمینان سے بھر جاتا ہے کہ چلو اس مار دھاڑ کے دور میں بلے بازوں کو تِگنی کا ناچ نچانے والا کوئی تو ہے۔

کوئٹہ کو نقصان پہنچ چکا تھا اور رونکی غلطی کا خمیازہ بھی بھگت چکے تھے۔ کولن منرو کوئٹہ کے خلاف پہلے میچ میں بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوگئے تھے لیکن کل وہ بڑی حد تک فارم میں نظر آئے۔ انہوں نے چند اچھے شاٹس لگا کر رونکی کے جلد آؤٹ ہونے کے نقصان کو کسی حد تک بھرنے کی کوشش کی مگر ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں ان پر وہ پورا نہ اتر سکے۔

ڈیوڈ مالن سے بھی اسلام آباد والوں نے ٹورنامنٹ کے پہلے میچ جیسی پرفارمنس کی امیدیں باندھ رکھی تھیں جو پوری نہ ہوسکیں۔ ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں انہوں نے 65 رنز بنائے تھے لیکن ابتدائی میچ کے بعد سے ان کی کارکردگی زوال پذیر رہی ہے۔ کل کے میچ میں نسیم شاہ کی ایک اور خوبصورت گیند نے انہیں پویلین کی راہ دکھائی۔

تماشائیوں سے بھرے ہوئے اسٹیڈیم میں جب کوئی فاسٹ باؤلر کلین بولڈ کرتا ہے تو کھیل کا حُسن جیسے اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ نسیم شاہ نے کل ایسا ہی کیا۔ اچھی لینتھ پر پڑنے والی اس گیند نے مڈل اسٹمپ کو ہوا میں اچھال دیا اور حاضرین و ناظرین کو بے اختیار اپنی سیٹوں پر کھڑا ہوکر داد دینے کے لیے مجبور کردیا۔

کولن منرو کی عمدہ اننگز کا خاتمہ حسنین نے کیا۔ کل کے میچ میں ایک قابلِ غور بات یہ بھی تھی کہ کوئٹہ کے باؤلرز نے زیادہ سے زیادہ لیگ اسٹمپ پر باؤلنگ کی، جس کا اسلام آباد نے فائدہ بھی اٹھایا گوکہ ایسی ہی ایک گیند کولن منرو کی پویلین واپس کا سبب بھی بنی۔ شاداب نے ایک بار پھر اپنے آپ کو پروموٹ کیا، اور وہ کولن انگرام اور آصف علی سے پہلے بیٹنگ کے لیے آئے۔

شاداب اور انگرام کے درمیان 76 رنز کی شاندار شراکت داری قائم ہوئی جس نے اسلام آباد کو میچ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا۔ شاداب نے اپنی باری میں بہت ہی خوبصورت اسٹروکس لگائے۔ ان کا شاندار چھکا قابلِ دید تھا جسے انہوں نے فلک کرکے اسکوائر لیگ کے اوپر سے مارا۔ اس چھکے میں ویرات کوہلی کے اسٹائل کی جھلک نظر آئی۔ بطورِ کپتان انہوں نے ذمہ داری کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دلیرانہ فیصلے بھی لیتے رہے، بلاشبہ پاکستان کو ایسے کھلاڑیوں اور کپتانوں کی اشد ضرورت ہے۔

کل کوئٹہ کی فیلڈنگ کافی غیر متاثرکن رہی اور متعدد کیچز ڈراپ کیے۔ میچ کے دوران ایک موقعے پر سرفراز کی کپتانی بھی کمزور دکھائی دی، خاص کر جب اعظم خان جیسے سست مزاج فیلڈر پوائنٹ پر کھڑے نظر آئے تو حیرت ہوئی کہ سرفراز نے انہیں کیا سوچ کر وہاں بھیجا ہے، کیونکہ اعظم خان کی مہربانی سے ہی شاداب ایک بار کیچ آؤٹ ہونے سے بچ گئے تھے۔

شاداب ایک اچھی اننگز کھیل کر جب بین کٹنگ کی گیند کو لیگ سائیڈ پر کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب اسلام آباد آرام سے 200 رنز بنالے گا لیکن آصف علی اپنی روش نہیں بدل پا رہے ہیں گوکہ انہوں نے 2 عدد چھکے ضرور رسید کیے لیکن اسکور کو زیادہ آگے نہیں لے جاسکے اور ٹائمل ملز کی عمدہ باؤلنگ کی نذر ہوگئے۔

لوگ ایک عرصے سے اس بات سے واقف ہیں کہ آصف علی ایک یا 2 چھکے لگا کر گیند کو ہوا میں ضرور اچھالیں گے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کھیل اب بہت محدود ہوچکا ہے، اور شاید ان کے پاس کچھ الگ کرنے کو بالکل بھی نہیں ہے۔ ٹائمل ملز جب 16واں اوور کرنے آئے تب اسلام آباد کا اسکور 15 اوورز کے اختتام پر 154 رنز تھا، لیکن ملز کے اسی اوور نے میچ کا رُخ موڑ دیا اور اسلام آباد نے اپنا سارا مومینٹم ہی کھو دیا۔

کوئٹہ اور اسلام آباد کے میچ میں واضح فرق کپتانی کا رہا

سرفراز نے کوئٹہ کو جتوادیا اور شاداب نے اسلام آباد کو ہروادیا

اس اوور میں آصف علی کی وکٹ سمیت صرف 3 رنز ہی بن سکے۔ فہیم اشرف بطور آل راؤنڈر اب تک مسلسل ناکامی سے دوچار نظر آئے ہیں۔ رن آؤٹ ہونے سے پہلے انہوں نے 4 رنز بنائے۔ جس طرح پہلے کہا کہ وکٹ میں باؤلرز کے لیے کوئی مدد نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود نسیم شاہ کو کھیلنے میں بہت ہی مشکل پیش آرہی تھی۔ انہوں نے ملز کے پیدا کردہ دباؤ کو برقرار رکھا اور اپنے باقی ماندہ 2 اوورز میں صرف 8 رنز دیے۔ کولن انگرام کا ایک کیچ بھی ان کی گیند پر چھوٹا ورنہ ان کے کھاتے میں ایک اور وکٹ جُڑ جاتی۔ نسیم شاہ کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ وکٹ ٹیکنگ ڈیلیوری کرتے ہیں اور کنٹرول بھی نہیں کھوتے۔ بہت سارے وکٹ ٹیکنگ باؤلرز وکٹوں کے حصول کی خاطر اکثر خراب گیند پھینک دیتے ہیں۔ یعنی شروع میں کپتان کو 2 قیمتی وکٹیں نکال کردیں اور جب اسکور روکنا تھا تب اسکور روک کر بھی دکھایا۔

ایک ایک کرکے جہاں سب آؤٹ ہو رہے تھے وہیں انگرام نے ایک شاندار باری کھیلی اور 63 رنز بناکر ناقابلِ شکست رہے۔ کوئٹہ نے آخری 5 اوورز میں شاندار کم بیک کیا، کیونکہ جہاں ایک طرح یہ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ اسلام آباد 200 رنز سے زیادہ اسکور کرلے گی، وہیں ان کو 190 رنز بھی نہیں بنانے دیے۔

ایک ہائی اسکورنگ میچ میں جہاں سب کو مار پڑ رہی تھی تو نسیم شاہ نے 4 اوورز میں صرف 23 رنز کے عوض 2 وکٹیں لیں وہ بھی اسلام آباد کے سب سے اچھے بلے بازوں کی۔

کوئٹہ اننگز

کوئٹہ والوں نے نسبتاً محتاط آغاز کیا۔ واٹسن اس لیگ میں ابھی تک اپنی صلاحیتوں کے کمالات نہیں دکھا پائے ہیں۔ تاہم جیسن روئے ایک دو مشکل اننگ کے بعد واپس فارم میں آگئے ہیں اور انہوں نے عمدہ اسٹروکس لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔

دوسری طرف رومان رئیس کل تقریباً ایک سال بعد مسابقتی کرکٹ میں واپسی کر رہے تھے، اس لیے انہیں بھی سیٹ ہونے میں کچھ وقت لگا۔ واٹسن خاموش کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے اور جب برداشت جواب دے گئی تو انہوں نے فہیم اشرف پر دھاوا بولنے کی کوشش کی لیکن اسی کوشش میں مڈ وکٹ پر جکڑے گئے۔

محمد موسیٰ سے کپتان شاداب نے مسلسل 3 اوورز کروائے اور پاور پلے ختم ہوتے ہی وہ خود باؤلنگ کے لیے آگئے۔ احمد شہزاد نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور 2 شاندار چھکے رسید کرکے ان کا استقبال کیا۔ مگر ہر بار کی طرح وہ اس بار بھی جذباتی ہوگئے اور ایک اوور میں 13 رنز سمیٹ لینے کے باوجود بھی ایک مرتبہ پھر کریز سے نکل کر شاداب پر حملہ آور ہونا چاہا لیکن اس بار شاداب کا پلّہ بھاری رہا، کیونکہ انہوں نے گیند کی رفتار بہت کم رکھی اور بلے باز کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔

احمد شہزاد عمر اکمل کی کمی بالکل بھی محسوس نہیں ہونے دے رہے۔ احمد کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ پی ایس ایل میں اچھا کھیل کر قومی ٹیم میں واپسی کا کیس مضبوط کرنا چاہتے ہیں اسی لیے بڑی اننگز کھیلنے کی کوشش میں انہوں نے رسک لینے کا فیصلہ کیا جو انہیں راس نہیں آیا۔

کپتان سرفراز نے اعظم خان کو خود سے پہلے بھیجا لیکن آج ان کا دن نہیں تھا۔ اسلام آباد والے ان کی ہر ایک حکمتِ عملی سے واقف ہوچکے ہیں، اور انہیں وکٹوں پر باؤلنگ کرنے کے بجائے جسم سے دُور کھلایا گیا۔ شاید وہ آف سائیڈ پر ان کی کمزوری بھانپ چکے تھے اس کے علاوہ اعظم کا فٹ ورک بھی اتنا عمدہ نہیں اس لیے انہیں آف اسٹمپ کے باہر کھیلنے پر مجبور کیا، یہی وجہ ہے کہ اس حکمتِ عملی کے تحت پھینکی جانے والی گیند کو لیگ کی طرف کھیلنے کے چکر میں وہ بولڈ ہوگئے۔

باؤلر تو تھے احمد صفی عبداللہ! وہ اس وقت باؤلنگ کے شعبے کا ایک غیر معمولی ٹیلنٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ احمد صفی نے اپنی عمدہ باؤلنگ کی بدولت پہلے اعظم خان اور پھر جیسن روئے کو آؤٹ کیا۔

احمد صفی نے ناصرف 2 قیمتی وکٹیں لیں بلکہ رنز بھی روکے۔ انہیں دیکھ کر گزشتہ سال کے عمر خان یاد آگئے۔ ویسے محمد اصغر بھی ایسی ہی عمدہ باؤلنگ کی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ صفی عبداللہ بہترین آرم گیند کروانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔

جب جیسن روئے آؤٹ ہوئے تب کوئٹہ کا اسکور 12 اوورز کے اختتام پر 104 رنز تھا۔ یعنی اب 48 گیندوں پر 84 رنز درکار تھے۔ اس موقعے پر شماریاتی ماہرین کے مطابق کوئٹہ کے پاس جیت کے صرف 20 فیصد امکانات تھے، لیکن کل کپتان سرفراز کا مزاج بالکل بدلا ہوا تھا، وہ مسلسل عمدہ کھیل پیش کر رہے ہیں۔ ان دنوں ان میں ذمہ دار کپتان کی ساری خصوصیات نظر آ رہی ہیں۔ اس سیزن میں وہ حقیقی معنوں میں خود کو کپتان ثابت کر رہے ہیں۔

اس میچ میں بھی انہوں ںے نواز کو وکٹ روکنے کا کہا اور خود اٹیک کردیا۔ 20 گیندوں پر 33 رنز کی قابلِ قدر باری کھیل کر جب وہ پویلین لوٹ رہے تھے تب وہ میچ کو کافی قریب کرگئے تھے۔

یہی وہ مقام تھا جب شاداب کا ’پینک بٹن‘ دب گیا اور حالات نے ان کے قوی پر اثر ڈالنا شروع کردیا۔ جب بین کٹنگ کریز پر نئے آئے تھے تب انہیں ایک بار پھر احمد صفی کو ٹرائی کرنا چاہیے تھا کہ شاید وہ وکٹ نکال پاتے لیکن وہاں شاداب نے فہیم اشرف کے اوورز نکالنے کی کوشش کی جنہیں مار پڑ رہی تھی۔ اس کے علاوہ عماد بٹ کو بھی گلیڈی ایٹرز نے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ لہٰذا نئے آنے والے کٹنگ کو موسیٰ سے بھی ڈرایا جاسکتا تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور کٹنگ بہت جلد سیٹ ہوگئے۔

فہیم اشرف تو پورے میچ میں رانا نوید الحسن کی طرح آدھی پچ پر میٹھی میٹھی گیندیں پھینکتے نظر آئے۔ حتیٰ کہ جب 18 گیندوں پر 33 رنز درکار تھے تب فہیم نے 17 رنز بنوا دیے۔ لہٰذا آخری 2 اوورز میں صرف 16 رنز درکار تھے اور کوئٹہ کے پاس ابھی 5 وکٹیں باقی تھیں۔

اس میچ میں شاداب خان میں ہمیں قلندرز کے کپتان سہیل اختر کی شان نظر آئی، یعنی وہ بھی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے۔ یاد رہے کہ یہ آخری اوورز ہی تھے جو دونوں ٹیمیں کے درمیان واضح فرق نظر آئے۔ ان آخری اوورز میں جہاں اسلام آباد کے باؤلرز ناکام نظر آئے وہیں کوئٹہ کے گیند بازوں نے زبردست واپسی کی۔

ہاں یہاں رومان رئیس کا ذکر ضرور کرنا چاہیے جنہوں نے شاندار 19واں اوور کروایا اور نوبال کروانے کے باوجود صرف 5 رنز ہی دیے۔

کوئٹہ کے نواز نے یہاں بہت ساری گیندیں بشمول ایک عدد فری ہٹ بھی ضائع کیں، یہاں تک کے ان سے سنگل بھی لیکن جارہا تھا، جس نے اسلام آباد کو بہت امیدیں دلوادی تھیں۔ تاہم جب آپ کے ساتھ بین کٹنگ جیسا ہیرا موجود ہو تو فکر کس بات کی؟ شاداب اور اسلام آباد نے آخری اوور عماد بٹ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ سامنے محمد نواز تھے، جنہوں نے پہلی بال کو ضائع کردیا اور دوسری بال پر بڑی مشکل سے ایک رن لینے میں کامیاب ہوئے۔

یہ وہ وقت تھا جب دونوں ہی ٹیموں کے امکان برابر تھے، کیونکہ اب کچھ بھی ہوسکتا تھا، مگر کٹنگ کا ٹربو گئیر آن ہوچکا تھا اور انہوں نے 2 فلک شگاف چھکے لگا کر سارا معاملہ ہی سمیٹ دیا۔

اسلام آباد کے شائقین سوال کرتے نظر آئے کہ عماد بٹ کو آخری اوور کیوں دیا گیا؟ بظاہر تو عماد کے پاس سلو بال، کٹرز کی ورائٹی اور تجربہ ہی تھا جس کی وجہ سے کپتان نے انہیں گیند تھمائی، لیکن شاید فیلڈ سیٹنگ کی وجہ سے عماد کی لائن بین کٹنگ سمجھ چکے تھے۔ عماد کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو اتنی آسان پچ پر یہ رنز بچانا بہت مشکل ٹاسک تھا۔

تاہم صفی اور موسیٰ کا ایک، ایک اوور بچ جانا اور فہیم اشرف کو مہنگے ثابت ہونے کے باوجود مسلسل باؤلنگ ملتے رہنا شاداب کی کپتانی پر سوالیہ نشانات چھوڑ گئے۔

گزشتہ ہفتے لاہور قلندرز کے باؤلرز نے ایک کام اچھا کیا تھا کہ وہ وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ سیزن میں کپتانی کے فرائض سرانجام دینے والے محمد سمیع اسلام آباد کے لیے یہ کام کرتے تھے مگر اس بار وہ ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ اس باؤلنگ اٹیک میں تجربے اور مہارت کی کمی نظر آتی ہے۔

اس لیے اگر اسلام آباد کو مسلسل جیتنا ہے وہ کم از کم فہیم اشرف اور عماد بٹ کی باؤلنگ سے نہیں ہوپائے گا۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو موسیٰ کو بالکل ٹھیک ٹھیک استعمال کرنا ہوگا، اور پھر کوشش کرکے جتنا جلدی ہوسکے ڈیل اسٹین جیسا باؤلر میدان میں اتارنا پڑے گا۔ امید ہے اگلے میچ سے پہلے پہلے وہ ٹیم جوائن کرلیں گے۔

کل سرفراز کی بہتر کپتانی اور کوئٹہ کے بہترین باؤلرز نے یہ میچ ان کی جھولی میں ڈالا ہے۔ شاداب ابھی نئے نئے ہیں اس قسم کی صورتِ حال میں فیصلہ سازی وقت کے ساتھ وہ سیکھ جائیں گے۔ کل کی فتح کے ساتھ ہی سرفراز پاکستان سپر لیگ کے سب سے کامیاب کپتان بھی بن گئے۔ ان کی جیت کی شرح کسی بھی دوسرے کپتان سے زیادہ ہوچکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں