لاہور قلندرز نے آخرکار اپنے چوتھے میچ میں پہلی فتح حاصل کر ہی لی۔ لاہور قلندرز کی اننگ کے پہلے 10 اوورز سے یہی لگ رہا تھا کہ ہم ایک بار پھر خالص لاہور قلندرز کا میچ دیکھنے جا رہے ہیں۔ پاور پلے میں اچھی ہٹنگ، پھر وکٹوں کا گرنا اور رن ریٹ کا آسمان سے زمین پر آجانا۔

یہ وہ صورتحال تھی جب واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک آسان سے ہدف کا تعاقب کرے گی، لیکن بین ڈنک اور سمیت پٹیل نے کچھ اور ہی سوچا ہوا تھا۔ اننگ کا پہلا حصہ ختم ہوا تو دونوں میں جیسے نئی طاقت سی بھر آئی، ہر گزرتے اوور کے ساتھ لاہور قلندرز کا رن ریٹ بڑھتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی جیت کی امید بھی۔

اگرچہ آخری اوورز میں یہ دونوں کھلاڑی آؤٹ ہوگئے لیکن جانے سے پہلے وہ لاہور قلندرز کو ایک ایسی پوزیشن پر پہنچا گئے تھے جہاں سے ہارنا شاید لاہور قلندرز کے بس میں بھی نہیں تھا۔

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ لاہور قلندرز نے کوئٹہ کو ایک زبردست ہدف دیا، لیکن اس کے باوجود یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا قلندرز کی بیٹنگ میں سب ٹھیک رہا؟

فخر زمان

فخر زمان کی خراب فارم کا سلسلہ جاری ہے اور وہ اس میچ میں بھی ناکام رہے۔ اب تو یقین ہی نہیں آتا کہ کیا یہ وہی فخر ہیں جن پر پوری قوم فخر کیا کرتی تھی؟ کیا یہ وہی فخر ہیں جنہوں نے 3 سال پہلے پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی فائنل جتوانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا؟ کیا یہ وہی فخر ہیں جو 2 سال پہلے ایک روزہ کرکٹ میں ڈبل سنچری کرنے والے پہلے پاکستانی بیٹسمین بنے تھے؟

فخر پاکستان کی طرف سے آخری 10 ٹی20 میچوں میں 100 رنز بھی نہیں بنا پائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ناکام ہیں تو کیا لاہور کے پاس ان کا کوئی متبادل موجود ہے؟ اس وقت تو صرف سلمان بٹ کا ہی نام موجود ہے جو قلندرز کے اسکواڈ میں شامل تو ہیں مگر اس بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس فارمیٹ کے لیے کارآمد ثابت ہوسکیں گے یا نہیں، لیکن جب انہیں اسکواڈ کا حصہ بنا ہی لیا گیا ہے تو ایک موقع بھی ضرور دینا چاہیے۔

ویسے قلندرز کی انتظامیہ اگر نیشنل ٹی20 کپ پر نظر ڈالتی تو قلندرز کے کپتان سہیل اختر کے ساتھ نادرن کی ٹیم کا حصہ رہنے والے علی عمران ایک اچھے اوپنر ثابت ہوسکتے تھے جنہوں نے وہ ٹورنامنٹ 139 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلا تھا۔

کرس لن

کرس لن بہت عمدہ اور جارحانہ کھیل پیش کرتے ہیں لیکن انہیں قلندرز کے لیے اس ٹورنامنٹ میں کچھ لمبی اننگز بھی کھیلنا ہوں گی۔ پاور پلے میں ہی ہر بار وکٹ دے جانا نہ صرف ان کے لیے اچھا نہیں بلکہ قلندرز کی فتح میں بھی یہ عادت حائل ہورہی ہے۔

محمد حفیظ

محمد حفیظ اس ٹورنامنٹ میں ایک بڑا اسکور تو ضرور بنا چکے ہیں مگر یہ بھی یاد رہے کہ اس ایک اچھی اننگ کے ساتھ 3 ناکامیاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ محمد حفیظ کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ وہ اس ٹیم کے سب سے تجربے کار کھلاڑی ہیں، مڈل آرڈر میں ان کی ذمہ دارانہ اننگ کی ٹیم کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے، اس لیے وقت کی ضرورت تو یہی ہے کہ وہ اب تسلسل کے ساتھ پرفارم کریں۔

سہیل اختر

اسی طرح کپتان سہیل اختر سے لاہور کی انتظامیہ کو بہت توقعات وابستہ ہیں، لیکن کیا سہیل کے پاس وہ صلاحیت ہے کہ ان توقعات پر پورا اتر سکیں؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے اور اس کا جواب صرف اور صرف ان کی اچھی کارکردگی ہی دے سکتی ہے۔


کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پہلے دس اوورز میں عمدہ باؤلنگ کی لیکن دسویں اوور کے بعد جب مار پڑنے لگی تو کسی باؤلرز کے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ عمر اکمل کی جگہ اسکواڈ میں شامل ہونے والے انور علی کو دیکھ کر ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ وہ اپنی کرکٹ کھیل چکے اور اب کوئٹہ کو ان سے آگے دیکھنا چاہئے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد ہدف کا تعاقب کرنا پسند کرتے ہیں لیکن ان کی ٹیم مسلسل دوسری مرتبہ ہدف کے تعاقب میں ناکام ہوئی، اور دونوں ہی مرتبہ ان کے باؤلرز مخالف ٹیم کو بڑا سکور بنانے سے نہیں روک سکے۔

ملتان کی طرف سے ریلی روسو اور شان مسعود اور لاہور کی طرف سے بین ڈنک اور سمیت پٹیل کے درمیان ایک بڑی پارٹنرشپ کے دوران سرفراز احمد اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز صرف رنز روکنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آئے، کوئی باؤلر ایسا نہیں تھا جو اس پارٹنرشپ کو توڑنے کی کوشش کرتا۔

نسیم شاہ کی پریشانی

دونوں میچوں میں نسیم شاہ نے اپنے کوٹے میں 40 سے زائد زنر دیے، جو کوئٹہ کے لیے کسی بھی طور پر اچھی خبر نہیں ہے۔ کوئٹہ کے کوچنگ اسٹاف کو دیکھنا ہوگا کہ نسیم کہاں غلطی کر رہے ہیں، ان کی لائن اور لینتھ میں کون سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی کوئٹہ کو زاہد محمود کو کھلانے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔

اچھی پارٹنرشپ کی کمی

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو اس ہدف کے تعاقب میں ایک یا 2 اچھی پارٹنر شپ کی ضرورت تھی لیکن کوئٹہ کو ایسی کوئی پارٹنرشپ نہیں مل سکی۔ وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں اور اگر بین کٹنگ کی دھواں دار اننگ نہ ہوتی تو لاہور قلندرز کی جیت کا مارجن کافی بڑا ہوسکتا تھا۔

شین واٹسن سے بات کرنی ہوگی

کوئٹہ کے شین واٹسن جو پچھلے ٹورنامنٹس میں کوئٹہ کی فتح میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، اس بار کچھ بجھے بجھے سے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی طرف سے اب تک صرف ایک بڑی اننگ نظر آئی، مگر وہ بھی میچ کی جیت کا سبب نہیں بن سکی۔ فیلڈنگ میں بھی واٹسن کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ واٹسن جیسے کھلاڑی کو باہر تو نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ کسی بھی وقت میچ کا پانسا پلٹ سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے جو وہ بھرپور کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں۔

مسئلہ نمبر 3 کا

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے لیے اس ٹورنامنٹ میں اب تک سب سے بڑا مسئلہ نمبر 3 کی پوزیشن رہی ہے۔ پہلے 3 میچوں میں احمد شہزاد کو موقع دیا گیا، جب وہ مسلسل ناکام رہے تو پھر احسن علی کو آزمایا گیا، مگر وہ بھی اب تک کچھ نہیں کرسکے۔

پچھلے سال بھی کوئٹہ کی ٹیم اسی مسئلے کا شکار نظر آئی تھی لیکن لیگ میچوں کے آخر تک احمد شہزاد نے اس پوزیشن کو سنبھال لیا تھا۔ شین واٹسن کو نمبر 3 پر شفٹ کرنے سے شاید کوئٹہ کے دونوں مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ جیسن رائے کے ساتھ احمد شہزاد یا احسن علی اوپنر کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔

سرفراز احمد کی اصل ذمہ داری کیا؟

کوئٹہ کے کپتان سرفراز احمد اس ٹورنامنٹ کا بہترین آغاز کرچکے ہیں لیکن پچھے 2 میچوں میں وہ بھی اپنے رنگ میں نظر نہیں آرہے۔ سرفراز احمد نے ابتدائی 3 سے 4 میچوں میں صرف اپنی کپتانی کو ہی نہیں بلکہ بیٹنگ کو بھی بہترین طریقے سے سنبھالا اور جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن پھر کچھ پریشان نظر آئے۔

ملتان کے خلاف میچ میں ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں سرفراز احمد نویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے آئے۔ حالانکہ اس میچ میں ایک عمدہ اوپننگ پارٹنرشپ کے بعد سرفراز احمد کی طرف سے ایک ذمہ دارانہ اننگ کی ضرورت تھی لیکن سرفراز احمد پویلین میں بیٹھے رہے اور کوئٹہ کی وکٹیں گرتی رہیں۔

پھر جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور لاہور کے خلاف میچ میں وہ ابتدائی 2 وکٹیں جلدی گرنے کے بعد بیٹنگ کے لیے آئے تو جلد بازی میں ایک اونچا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں سمیت پٹیل کو وکٹ دے بیٹھے۔ سرفراز احمد کو سمجھنا ہوگا کہ ان کا کام نہ ہی پویلین میں بیٹھ کر وکٹیں گرتے دیکھنا ہے اور نہ ہی چھکے مارنا، سرفراز نمبر 4 پر ذمہ داری سے بیٹنگ کریں، آسان گیندوں پر باؤنڈری لگائیں اور اپنے ساتھی بیٹسمینوں کی رہنمائی کریں، یہ سب ہوگا تو کوئٹہ کے لیے مشکلات بتدریج کم ہوتی رہیں گی۔

اعظم خان اور احسن علی کے لیے خصوصی مشورہ

اعظم خان اور احسن علی کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان سپر لیگ میں پاکستانی بیٹسمینوں کو کم ہی مواقع ملتے ہیں اور انہیں تو مسلسل مواقع مل رہے ہیں۔ اس لیے انہیں ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ اگر وہ ان موقعوں کو یونہی ضائع کرتے رہے تو انہیں کسی اور کے لیے جگہ خالی کرنی پڑسکتی ہے۔ کوئٹہ کے پاس اگرچہ زیادہ آپشنز نہیں ہیں لیکن خرم منظور اور احمد شہزاد مسلسل موقع کے انتظار میں ہیں۔


عثمان شنواری کو جب خراب کارکردگی کے بعد باہر بٹھانا پڑا اور پھر اچانک حارث رؤف کی انجری کی خبر سامنے آئی تو ایسا لگا جیسے پریشانی کی شکار لاہور قلندرز اب کھڑی نہ ہوسکے، مگر ان کے شروع کردہ پلیئرز ڈیویلپمنٹ پروگرام کی تلاش دلبر حسین اور سلمان ارشاد نے اس کمی کو کسی حد تک پورا کردیا۔

اگرچہ دلبر حسین ملتان سلطان کے خلاف پہلے میچ میں تو کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے مگر پشاور زلمی کے خلاف دوسرے میچ میں انہوں نے اپنا اثر ضرور دکھایا۔ بارش کی وجہ سے 12 اوورز تک محدود رہ جانے والے میچ میں دلبر حسین نے 3 اوورز میں 24 رنز کی عوض 4 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی اس کارکردگی کے سبب پشاور 132 رنز تک محدود رہا، ورنہ 150 رنز تو باآسانی نظر آرہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ لاہور 132 رنز بھی نہیں بناسکا۔ اسی طرح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف بھی دلبر نے 2 اوورز میں 2 وکٹیں حاصل کرکے اپنی اہمیت ایک بار پھر بتائی۔

سلمان ارشاد پہلے میچ میں تو وکٹ حاصل نہ کرسکے لیکن دوسرے میچ میں وہ 4 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹی20 کرکٹ میں رنز روکنے کا سب سے بہترین طریقہ وکٹیں حاصل کرنا ہے اور اگر یہ دونوں باؤلرز اسی طرح شاہین آفریدی کا ساتھ دے سکیں تو لاہور قلندرز ٹورنامنٹ میں پہلی بار اگلے راؤنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں