برطانوی اراکین پارلیمان نے دہلی فسادات پر اپنی حکومت سے جواب مانگ لیا

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2020
دہلی میں حالیہ دنوں میں ہونے والے فسادات نے دردناک یادیں تازہ کردی ہیں—تصویر: دی انڈیپینڈنٹ
دہلی میں حالیہ دنوں میں ہونے والے فسادات نے دردناک یادیں تازہ کردی ہیں—تصویر: دی انڈیپینڈنٹ

لندن: دہلی میں حالیہ فسادات میں 45 افراد کی ہلاکت پر برطانوی اراکین پارلیمان نے خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر (ایف سی او) پر زور دیا ہے کہ اس معاملے پر بھارتی حکومت سے کی گئی بات چیت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سکھ اراکینِ پارلیمان تنمنجیت سنگھ دیشی اور پریت گِل کور نے دہلی فسادات پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسی دوران پارلیمنٹ میں ایف سی او کے نمائندوں سے فوری سوال پوچھتے ہوئے لیبر پارٹی کے رکن تنمنجیت سنگھ دیشی کا کہنا تھا کہ دہلی میں حالیہ دنوں میں ہونے والے فسادات نے ’دردناک یادیں تازہ کردی ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، ترک صدر

انہوں نے کہا کہ ’جب میں بھارت میں زیر تعلیم تھا (تو) 1984 میں بطور ایک مذہبی اقلیت (میں نے) سکھوں کی نسل کشی ہوتے دیکھی ہے، اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے، معاشرے کو تقسیم کرنے کے ارادے رکھنے والوں (اور جو) مذہب کے نام پر قتل و غارت گری اور مذہبی مقامات تباہ کرنے پر تلے ہیں ان کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بننا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں وزیر سے پوچھتا ہوں کہ بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم پر انہوں نے بھارتی ہم منصب کو کیا پیغام دیا؟‘

لیبر پارٹی کی ہی رکن پارلیمان پریت گِل کور نے بھی دریافت کیا کہ ’کیا وزیر بتاسکتے ہیں کہ اس بات کو یقنی بنانے کے لیے انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے کہ بھارت میں تمام نسلی و مذہبی اقلیتیں خود کو محفوظ اور ظلم و ستم سے آزاد تصور کریں؟‘

مزید پڑھیں: ایران کی بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کی مذمت

ان کے علاوہ ایک رکن پارلیمان خالد محمود نے بھی سوال کیا کہ دہلی میں ہونے والے فسادات کے ردِ عمل میں برطانوی حکومت کیا کررہی ہے؟

خالد محمود نے کہا کہ فسادات ’تشویشناک‘ تھے اور خبردار کیا کہ بھارتی شہریت ترمیمی قانون 2019 کے تحت شہریوں کی قومی رجسٹریشن کی جائے گی جس کے بعد مسلمانوں کو ’حراستی مراکز میں رکھنے‘ کے بعد ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے اقدامات ان کے نعرے ’ہندوؤں کا بھارت‘ کو ’نفرت انگیز قوم پرست مظالم‘ کی صورت میں ڈھال رہے ہیں۔

خالد محمود نے ایوان کو بتایا کہ مسلمانوں کو سڑکوں پر تشدد اور قتل کیا جاتا رہا جبکہ پولیس نے کچھ نہیں کیا اور ’مودی نے انتخابی کامیابی سے مذموم فائدہ اٹھایا‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سفیر کا دہلی فسادات پر 'محتاط' مذمتی بیان

سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے ایف سی او نائیجیل ایڈمز نے کہا کہ ’نئی دہلی میں موجود برطانوی ہائی کمیشن اور بھارت بھر میں ہمارے ڈپٹی ہائی کمشران کا سفارتی نیٹ ورک بھارت میں ہونے والے حالیہ فسادات اور شہریت ترمیمی قانون 2019 سے متعلق ہونے والے معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’دہلی میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعات بہت تشویشناک تھے اور صورتحال تاحال کشیدہ ہے، ایک احتجاج کرنے والے کی موت بھی بہت زیادہ ہے ہم تمام فریقین پر تحمل برقرار رکھنے کے لیے زور دیتے ہیں اور بھارتی حکومت پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ بھارت میں تمام مذاہب کے افراد کے تحفظات دور کرے گی‘۔

خیال رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں نئے متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران فسادات شروع ہوگئے تھے جس میں تقریباً 40 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے جبکہ دکانوں، گھروں، اسکولوں، مساجد اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں