پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں لاہور قلندرز کی جیت ہمیشہ ہی ایک اہم اور انہونی واقعہ بن جاتا ہے کہ آخر یہ ٹیم کبھی کبھار تو جیت کا مزہ چکھتی ہے۔ اسی لیے جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے فتح کے اگلے ہی دن لاہور قلندرز کو کراچی کنگز کے خلاف 188 کا ہدف ملا تو خیال یہی تھا کہ اگر کوئی قلندر دھمال کرے تب ہی جیت کا کوئی امکان ہے، ورنہ تو صورتحال مشکل ہی دکھائی دے رہی ہے۔ اور پھر یہی ہوا کہ بین ڈنک نے اتنے چھکے مارے کہ واقعی دھمال کا سا سماں بندھ گیا۔

پھر جب پشاور زلمی سے لاہور کا مقابلہ ہوا تو میچ شروع ہونے سے پہلے پشاور کو ہی فیورٹ قرار دیا جارہا تھا کیونکہ بھلا یہ کس کو امید تھی کہ قلندرز کبھی لگاتار 3 میچ بھی جیت سکتے ہیں۔ امید ہو بھی تو کیسے کہ اس سے پہلے قلندرز کسی ایک بھی سیزن میں 3 سے زیادہ میچ نہیں جیت سکے تھے۔

لیکن پھر سب نے دیکھا کہ یہ ناقابلِ یقین کام بھی ہوگیا اور لگاتا تیسرا میچ جیت کر قلندرز نے سب کو حیران ہی کردیا، یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قلندرز کی دھمال کی ہیٹ ٹرک ہوگئی۔

ٹاس لاہور نے جیتا اور ٹورنامنٹ کی روایت کے مطابق پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ لاہور کے لیے اچھی خبر اس میچ میں کرس لن اور حارث رؤف کی واپسی تھی لیکن حارث رؤف کو باؤلنگ کرتے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ان کو واپس لانے میں کچھ جلدی کر دی گئی ہے۔

لیکن لاہور پر بات کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کچھ باتیں مشکل میں گرفتار پشاور سے متعلق کی جائیں۔

پشاور زلمی

ٹام بینٹن

ٹام بینٹن کو جس کسی نے بھی پچھلے سال انگلش ٹی20 کپ میں بیٹنگ کرتے دیکھا، وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اگر آپ کے علم میں نہیں تو بتاتے چلیں کہ بیٹن اور بابر اعظم کی اوپننگ جوڑی تھی، جو بہت کامیاب رہی۔

اس پورے ایونٹ میں بینٹن کی پاور ہٹنگ اور ساتھ ہی نت نئے ایجاد کیے گئے شاٹس نے سب کو متاثر کیا، مگر بدقسمتی سے پی ایس ایل ٹام بینٹن کے لیے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ انہیں دیکھ کر بالکل نہیں لگ رہا کہ یہ وہی بینٹن ہیں جو باؤلرز کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہے۔

بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی سے متعلق غلط فیصلہ

بینٹن ایک بار پھر سے ناکام ہوکر پویلین واپس لوٹے تو لوِنگ اسٹون کو تیسرے نمبر پر بھیجنا کسی بھی طور پر اچھا فیصلہ نہیں تھا۔ اس کی بڑی وجہ سے یہ ہے کہ حیدر علی اس پوزیشن میں بہت اچھا کھیل رہے تھے اور ان کی فارم سے یقیناً کسی بھی طور پر پریشانی نہیں ہونی چاہیے تھی، دوسری طرف لوِنگ اسٹون بھی اپنی پوزیشن پر بہت اچھا کردار ادا کررہے تھے، لیکن ناجانے یہ فیصلہ کیوں کیا گیا۔

اچھا پھر یہ پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا بلکہ پچھلے میچ میں جب بینٹن اور امام الحق دونوں کو ٹیم میں جگہ ملی تو حیدر علی کو تیسرے سے چوتھے نمبر پر منتقل کردیا گیا اور اس میچ میں شعیب ملک اور لونگ اسٹون کو اوپر لانے کے لیے بھی حیدر علی کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے پانچویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔ لیکن سچ پوچھیے تو یہ صرف نمبر کی تبدیلی تھی، وقت شاید وہی تھا کیونکہ بینٹن, لوِنگ اسٹون اور کامران اکمل بہت جلدی آؤٹ ہوگئے۔

حیدر علی

اس ٹورنامنٹ میں اگر کسی نئے کھلاڑی نے سب کو متاثر کیا ہے تو وہ حیدر علی ہیں۔ کرکٹ کو گہری نظر سے دیکھنے والے زیادہ تر پاکستانی شائقین حیدر علی سے پی ایس ایل سے پہلے واقف تو تھے، مگر ان کی صلاحیتیں اس لیگ میں کھل کر سامنے آگئیں۔ انڈر 19 ورلڈکپ اور اس سے قبل جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے دوروں میں حیدر نے تسلسل سے اسکور تو کیا اور وہ اسکور اچھے اسٹرائیک ریٹ سے بھی تھا لیکن حیدر علی اس قدر سکون سے بڑے شاٹ بھی کھیل سکتے ہیں، اس کا اندازہ شاید چند ایک کو ہی تھا۔

اس اننگ میں ابتدا میں حیدر کو کچھ مشکلات ضرور پیش آئیں اور حیدر نے کچھ غلط شاٹس بھی کھیلے لیکن اس دوران رنز بنانے کا کام شعیب ملک نے سنبھالا ہوا تھا۔ شعیب ملک کے ساتھ حیدر علی کی پارٹنرشپ نے نہ صرف پشاور زلمی کی اننگ کو سنبھالا بلکہ 15ویں اوور کے اختتام تک لگ رہا تھا کہ زلمی شاید 200 رنز سے بھی آگے نکل جائے، مگر شعیب ملک کی وکٹ گرنے کے بعد زلمی کی وکٹیں تسلسل سے گرنے لگیں اور اسکور 187 تک محدود ہوگیا۔

لاہور قلندرز

فخر زمان

حقیقت تو یہ ہے کہ فخر زمان کو کھلانا لاہور قلندرز کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری بن چکا ہے، کیونکہ اسکواڈ میں دوسرا ایسا کوئی کھلاڑی ہی نہیں ہے جو ٹیم کو تیز آغاز فراہم کرسکے۔ اگرچہ قلندرز نے اس بار بھی سلمان بٹ کو ٹیم کا حصہ بنا رکھا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ کسی بھی پہلو سے ٹی20 کے بیٹسمین نہیں لگتے۔

مسلسل ناکامی کے باوجود اس میچ میں بھی فخر زمان وہی شاٹس کھیلتے نظر آئے جن کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار رہے، مگر اس بار فخر اور قلندرز کی قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور فخر کی جانب سے کھیلا گیا ہر شاٹ فیلڈرز کی پہنچ سے دُور ہی رہا اور یوں فخر زمان نے اس سیزن میں پہلی مرتبہ نصف سنچری مکمل کرلی۔

کرس لن

کرس لن سے لاہور قلندرز نے اس بار وہی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں جو اس سے پہلے کبھی کرس گیل، ڈیوائن براوو، برینڈن مک کولم یا پھر اے بی ڈی ویلیئرز سے کی ہوئیں تھی۔ جبکہ کرس لن بھی ان باقی کھلاڑیوں کی طرح امیدوں پر پورا اترنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

وہ ہر اننگ میں آتے, بلّا گھما کر امیدوں کو سہارا دیتے اور پاور پلے کے دوران ہی واپسی کی راہ لیتے۔ لیکن بیماری کے سبب 2 میچوں میں باہر رہنے کے بعد جب کرس لن کی واپسی ہوئی تو وہ کچھ بدلے بدلے اور ذمہ دار لگے۔ امیدوں پر پورا اترنے کی خواہش ان کے کھیل سے محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک اہم موقع پر تیز بیٹنگ کی اور 3 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 32 گیندوں پر 59 رنز بناکر جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اننگ کو دیکھنے کے بعد پہلی بار ایسا لگا کہ قلندروں نے جو امیدیں کرس لن سے لگا رکھی تھیں وہ پوری ہوسکتی ہیں۔

شاندار اختتام

فخر اور کرس لن کی پارٹنرشپ نے لاہور قلندرز کو فتح کے پاس لا کھڑا کیا لیکن جیسے ہی 16ویں اوور میں لن آؤٹ ہوئے تو قلندروں کی قلندری واپس لوٹ آئی اور چند ہی لمحات میں پشاور زلمی میچ میں واپس آچکی تھی۔ وہ تو شکر ہے کہ سمت پٹیل اور ڈیوڈ ویزے نے آخر میں ہوش سے کام لیا ورنہ قلندرز تو فتح کے منہ سے شکست کی طرف لوٹ چکے تھے۔

پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اپنا اور حسن علی کا کوٹا پہلے ہی وکٹ حاصل کرنے کی امید میں ختم کر چکے تھے ورنہ اگر 19واں اوور راحت علی کی جگہ ان دونوں میں سے کسی نے کیا ہوتا تو شاید میچ کا نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا۔


پشاور زلمی اس بار خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پشاور کے غیر ملکی کھلاڑی اس طرح فارم میں نہیں ہیں جس طرح دیگر ٹیموں کے ہیں، اور یہی کمی ان کو متاثر کررہی ہے۔

کپتان کے طور پر ٹورنامنٹ کا آغاز کرنے والے ڈیرن سیمی ان فٹ ہوکر ہیڈ کوچ بن گئے۔ ٹام بینٹن اور لیام ڈاسن نے کسی ایک میچ میں بھی ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جو متاثر کن ہو یا جیت میں اس کا کوئی کردار ہو۔ جبکہ لیوس گریگوری اور لونگ اسٹون صرف ایک ایک میچ میں ہی اچھی کارکردگی دکھا سکے ہیں۔ کارلوس بریتھویٹ نے لاہور قلندرز کے خلاف آخری اوورز میں اچھی باؤلنگ کی لیکن وہ بیٹنگ میں ناکام ہی رہے ہیں۔

بہرحال، ان تمام تر حالات میں پشاور کے پاس اب بھی ایک آخری موقع ہے۔ اگر ملتان کے خلاف یہ میچ جیت گئے تو آگے جانے کے امکانات موجود ہیں، لیکن اگر اس میچ میں بھی شکست کا سلسلہ جاری رہا تو بات شاید یہیں ختم ہوجائے۔

دوسری طرف لاہور قلندرز بطور ٹیم اس وقت بہترین فارم میں ہے اور پہلی بار اگلے راؤنڈ میں رسائی ممکن نظر آرہی ہے۔

اس لیے اب اس لیگ کا ہر ایک میچ اہم نہیں بلکہ اہم ترین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں