اسلام آباد ہائی کورٹ: ہوٹلز کو قرنطینہ مرکز بنانے کے خلاف درخواست خارج

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2020
تھری اور فور اسٹار ہوٹلز کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کے فیصلے کیخلاف نجی ہوٹل کے مالک نے عدالت سے رجوع کیا تھا - فائل فوٹو:اے ایف پی
تھری اور فور اسٹار ہوٹلز کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کے فیصلے کیخلاف نجی ہوٹل کے مالک نے عدالت سے رجوع کیا تھا - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ‏کورونا وائرس ایمرجنسی میں تھری اور فور اسٹار ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کے حکومتی احکامات کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نجی ہوٹل کی جانب سے تھری اسٹار اور 4 اسٹار ہوٹلز کو قرنطینہ مراکز بنانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی منظوری پر سماعت کی۔

دوران سماعت نجی ہوٹل کی جانب سے ایڈووکیٹ سکندر بشیر عدالت میں پیش ہوکر ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این ڈی ایم اے) کی جانب سے ہوٹل کو قرنطینہ بنانے کے احکامات جاری کیے گئے جس کا انہیں اختیار ہی نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی اختیار کے دائرہ کار پر سوالات اٹھادیے

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نجی پراپرٹی کے بجائے اپنی پراپرٹی کیوں نہیں استعمال کر رہی، قرنطینہ سنیٹر بننے کے بعد اس ہوٹل میں کون آیا کرے گا‘۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ حکومت نجی پراپرٹی کی بجائے وزیراعظم کا گھر قرنطینہ سینٹر کے طور پر کیوں استعمال نہیں کرتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’حکومت جو کر رہی ہے عوام کی تحفظ کے لیے کر رہی ہے عدالت کیسے مداخلت کر سکتی ہے، اگر عوامی تحفظ کی بات ہو تو اس کے لیے حکومت میرا گھر بھی استعمال کر سکتی ہے‘۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ‘اگر آئینی ایمرجنسی بھی نافذ ہو جائے تو بھی بنیادی حقوق کو معطل نہیں کیا جا سکتا‘۔

انہوں نے بتایا کہ 20 مارچ کے بعد ہوٹل کے تمام اسٹاف کو چھٹی دے دی گئی تھی اور صرف 8 گارڈز ڈیوٹی پر معمور ہیں، یہ ایک نجی پراپرٹی ہے حکومت کو اسے قرنطینہ بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ حالات ایک ایمرجنسی کی صورت ہیں یہ عدالت کیسے مداخلت کر سکتی ہے، یہ عدالت مہارت نہیں رکھتی کہ ایمرجنسی حالات سے کیسے نمٹا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اگر درخواست گزار یہ سمجھتا ہے کہ اس سے اُسے نقصان ہو گا تو وہ بعد میں ہرجانے کا دعوٰی کر سکتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کوئی فیصلہ کیسے دے سکتی ہے حکومتی اقدامات جو عوام کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے ہوں سے متصادم ہوں۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ’کم سے کم این ڈی ایم اے کو یہاں آ کر عدالت کو بتانا چاہیے کہ وہ آخر کرنا کیا چاہتے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا اس صورتحال میں کسی دوسرے ممالک کی عدالتوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت کی‘ جس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ دوسرے ممالک میں کیا ہو رہا ہے مجھے آئین پاکستان کے تحت اپنےحقوق چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کا بلند ترین ہوٹل عوام کے لیے کھول دیا گیا

عدالت نے وکیل کا مؤقف سننے کے بعد کورونا ایمرجنسی میں ہوٹلز کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کے احکامات کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے درخواست کو خارج کردیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ’این ڈی ایم اے نے تھری اور فور اسٹار ہوٹلز کو قرنطینہ مراکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا'۔

عدالت نے کہا کہ ’یہ غیر معمولی حالات ہیں جن میں انفرادی حقوق پر عوامی مفاد کو ترجیح حاصل ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اقدامات بلاشبہ عوام کے تحفظ کے لیے ہیں، اگر درخواست گزار کے ہوٹل کو اس فیصلے سے نقصان ہوا تو اس کے لیے بھی قانونی راستہ اپنایا جا سکتا ہے‘۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے آج 3 اپریل کو مزید نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرین کی مجموعی تعداد 2 ہزار 458 ہوگئی جبکہ اب تک 35 افراد اس وائرس سے انتقال کرچکے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Apr 03, 2020 05:58pm
5 سٹار ہوٹلز کو استعمال نہیں کیا جاسکتا.