کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین نہیں تھا، جہانگیر ترین

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2020
جہانگرترین پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں—فائل/فوٹو:ڈان
جہانگرترین پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہیں—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے چینی بحران رپورٹ کی روشنی میں ایگریکلچر ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹانے کی خبر پر کہا ہے کہ وہ کسی ٹاسک فورس کے چیئرمین نہیں رہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں شہباز گل کے ٹوئٹ کے برخلاف وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'خبریں آرہی ہیں کہ مجھے ایگریکلچر ٹاسک فورس کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین کبھی نہیں رہا، کیا کوئی مجھے چیئرمین بنانے کا نوٹی فکیشن دکھا سکتا ہے'۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ 'برائے مہربائی ریکارڈ درست کرلیں'۔

خیال رہے کہ دو روز قبل سامنے آنے والی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی چینی بحران پر رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی کی قیمت بڑھنے اور برآمد سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کو ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

جہانگیر ترین کی ٹاسک فورس کے حوالے سے وضاحت سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق ترجمان اور پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'جہانگیر ترین کو چینی اور آٹے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی روشنی میں ایگریکلچر ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے'۔

شہباز گل نے کہا کہ 'انکوائری کمیٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی'۔

چینی، آٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ

یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔

ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں