ڈی آئی خان سے 'صحافیوں' کو گرفتار نہیں کیا، ڈپٹی کمشنر

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2020
معافی نامے کے بعد دونوں افراد کو چھوڑ دیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
معافی نامے کے بعد دونوں افراد کو چھوڑ دیا گیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسمٰعیل خان (ڈی آئی خان) کے ڈپٹی کمشنر محمد عمیر نے صحافیوں کو حراست میں لینے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں افراد پروپیگینڈا پھیلا رہے تھے اور ان کا کسی میڈیا آرگنائزیشن سے تعلق نہیں تھا۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ملک کے معروف صحافیوں کی جانب سے یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا کہ ڈی آئی خان میں 'صحافیوں' کو فرائض کی انجام دہی کے دوران گرفتار کیا گیا۔

سینئر صحافی نسیم زہرہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ چینل 24 نیوز کے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے رپورٹر توقیر اور دیگر 2 صحافی جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر فرائض انجام دیتے ہوئے ڈی آئی خان قرنطیہ مرکز کی صورتحال پر رپورٹنگ کر رہے تھے، انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ یہ مضحکہ خیز ہے، کورونا کو شکست دینے کے لیے میڈیا کو خامیاں نمایاں کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 5 برس کے دوران 33 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ

اسی ٹوئٹ پر صحافی حامد میر نے بھی جواب دیا اور لکھا کہ 'پنجاب حکومت نے ڈی آئی خان میں 3 صحافیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ حکومت عوام سے کچھ سچ چھپانا چاہتی ہے'۔

تاہم حامد میر کی جانب سے ٹوئٹ میں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور پنجاب حکومت کا ذکر کیا گیا جبکہ ڈیرہ اسمٰعیل خان صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہے۔

بعد ازاں حامد میر کی جنب سے ٹوئٹ ڈیلیٹ کردی گئی۔

ادھر ان تمام دعوؤں کے بعد ڈپٹی کمشنر ڈیرہ اسمٰعیل خان محمد عمیر سے جب ڈان نیوز نے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے صحافیوں کی گرفتاری کی تردید کی۔

انہوں نے ڈان نیوز کو بتایا کہ گرفتار افراد صحافی نہیں ہیں بلکہ وہ پروپیگینڈا پھیلا رہے تھے جبکہ ان کا میڈیا آرگنائزیشن سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق گرفتار افراد ڈی آئی خان میں قرنطینہ سے متعلق جعلی خبریں چلا رہے تھے اور میڈیا اور عوام کو گمراہ کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ان افراد کو گرفتار کیا اور یہ لوگ میڈیا کارڈ تک نہیں دکھا سکے'، ساتھ ہی انہوں نے یہ واضح کیا کہ یہ لوگ ضلع میں ان حالات میں امن و امان کی صورتحال پیدا کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں متعلقہ قانون کے تحت زیر حراست لیا گیا۔

محمد عمیر کے مطابق ان دونوں افراد کو 3 ایم پی او (مینٹی ننس آف پبلک آرڈر) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا جو امن و عامہ سے متعلق قانون ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی کا قتل: اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں جے آئی ٹی کا مطالبہ

علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں افراد پریس کلب کے رکن بھی نہیں تھے جبکہ حراست میں لیے گئے ان افراد نے تحریری معافی نامہ جمع کروایا جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

دوسری جانب ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ وجاہت زیدی اور توقیر حسین مقامی اخبار درہ ٹائمز کے ساتھ بطور پیج میکر اور فوٹو اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں افراد کو سوشل میڈیا پر یہ خبرنشر کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس میں دعویٰ کیا جارہا تھا قرنطینہ میں 17 روز گزرنے کے باوجود ایران سے آئے زائرین کو جانے کی اجازت نہ دینے پر وہ بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں