ایک رات جب 3 بجے اس کی آنکھ کھلی تو اس کے ذہن کی گھڑی پورا آدھا گھنٹہ اپنی جگہ سے ہِل چکی تھی، اس نے فوراً موبائل میں وقت دیکھا تو 3 بج کر 1 منٹ ہورہے تھے لیکن اسے یوں محسوس ہوا کہ یہ 3 بج کر 31 منٹ ہیں۔ اب اس نے موبائل کے وقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے موبائل کی گھڑی آدھا گھنٹہ آگے کردی کیونکہ اس کے ذہن نے کہا کہ وقت آدھا گھنٹہ آگے نکل چکا ہے۔

وہ ساڑھے 5 بجے جاگا تو اس کے مطابق 6 بج چکے تھے اور یہی وقت تھا جب گلی کے سِرے پر موجود تندور کھل جاتا تھا۔ وہ فوراً وہاں پہنچا تاکہ نان خرید سکے لیکن تندور بند تھا۔

’تندور والا وقت کا تو بہت پابند ہے معلوم نہیں آج کہاں رہ گیا‘، اس نے سوچا۔

کچھ دیر انتظار کے بعد تندور والا آتا دکھائی دیا۔

’اوہ ہو! آج آپ لیٹ ہوگئے ہیں؟‘، اس نے فوراً کہا۔

’ہاں 5 منٹ دیر ہوگئی، آپ بتائیے اتنی جلدی کیسے آگئے؟ یوں تو 6 بجے کے بعد ہی آتے ہیں؟‘ تندور والے نے کہا اور دکان کھول کر آگ جلانے لگا۔

تو ابھی بھی تو وقت 6 سے اوپر ہی ہوچلا ہے، اس نے ذہن میں سوچا لیکن کچھ کہے بغیر ایک طرف خاموش کھڑا رہا۔

تندور سے نان لے کر جب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی ابھی سو رہی تھی۔

’اٹھو، اٹھو 7 ہوگئے ہیں، حامد کو جگاؤ اس نے اسکول بھی تو جانا ہے‘، وہ کمرے میں داخل ہوکر زور سے چلّایا۔

اس کی بیوی آنکھیں ملتے ہوئے جاگی اور پاس پڑے موبائل پر وقت دیکھا۔

’کیا ہوگیا ہے، ابھی تو ساڑھے 6 ہوئے ہیں‘، بیوی نے کہا۔

’7 ہوگئے ہیں، تم میرا یقین کرو۔ تمہارے موبائل کی گھڑی خراب ہے، فوراً اسے آدھا گھنٹہ آگے کرو اور بیٹے کو جگاؤ اور ہاں کیا تم نے کل حامد کا یونیفارم دھولیا تھا، وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ بہت میلا ہوچکا ہے، اس اتوار کو ہم نیا یونیفارم خریدنے جائیں گے۔‘

’آپ کو کیا ہوگیا ہے؟‘، بیوی نے دُکھ بھرے لہجے میں کہا۔

اس کے بعد اخبار والے اور دودھ والے سے لڑائی ہوتی ہے، وہ پریشان ہے کہ دنیا آدھا گھنٹہ پیچھے کیوں چل رہی ہے جب کہ وقت پورا آدھا گھنٹہ آگے نکل چکا ہے اور ایسے میں جب وقت سَرَک کر آگے نکل گیا ہو تو ہمیں اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے اپنی گھڑیوں کوآدھا گھنٹہ آگے کر لینا چاہیے۔

اگلی صبح پھر اس کی آنکھ 3 بجے کھلی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے 4 ہوچکے ہیں۔ اس نے موبائل کی گھڑی آدھا گھنٹہ مزید آگے کردی اور پورے 5 بجے نان لینے تندور پر پہنچ گیا۔

’تندور والا بھی اب وقت کا پابند نہیں رہا، پورا ایک گھنٹہ لیٹ ہے آج‘، کافی انتظار کے بعد جب اس نے تندور والے کو آتے دیکھا تو سوچا۔

’اٹھو اٹھو، 7 ہوگئے ہیں، بیٹے کو جگاؤ، دیر ہورہی ہے‘، گھر داخل ہوتے ہی اس نے چلّا کر کہا۔

’لیکن ابھی تو 6 بجے ہیں‘، بیوی نے احتجاجاً کہا۔

’7 ہیں 7، تم لوگوں کو یقین کیوں نہیں ہو رہا کہ وقت نے تمہارے ساتھ عجیب دھوکہ کیا ہے اور چپکے سے سَرَک کر آگے نکل گیا ہے‘، اس نے کہا۔

بس پھر یونہی وقت آگے سرَکتا رہا اور ایک رات جب 3 بجے اس کی آنکھ کھلی تو دراصل اس کے لیے 6 بج چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے باہر تندور پر پہنچا، لیکن آگے اندھیرا تھا۔

’اوہ یعنی اب سورج بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ 6 بج چکے ہیں اور ابھی تک نہیں نکلا‘، وہ سوچنے لگا کہ ہر شے پیچھے کی جانب کیسے سفر کرنے لگ گئی ہے۔ وہ گلیوں گلیوں گھومتا رہا اور لوگوں کی سست طبعیت پر کڑھتا رہا جو دن نکلنے کے باوجود صرف اور صرف اس لیے سو رہے ہیں کہ ان کی گھڑیوں پر ٹھیک وقت نہیں ہوا حالانکہ اس وقت تک تندور کھل جانے چاہئیں، بچوں کو اسکول جانے کی تیاری کرنی چاہیے اور سورج؟ اسے تو ضرور نکلنا چاہیے ورنہ لوگ یونہی اپنی نیندوں میں ڈوبے رہیں گے۔

جب وہ گلیوں میں گھوم رہا تھا، تب اس کی بیوی کی آنکھ کُھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر موجود نہیں۔ وہ پریشان ہوکر بیٹھ گئی، اس نے کئی بار اپنے شوہر کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا فون لگاتار بند تھا، حتٰی کہ 6 ہوگئے تب ہی وہ ہاتھوں میں نان لیے گھر میں داخل ہوا۔

’کہاں تھے تم؟‘، بیوی نے جیسے ہی اسے دیکھا دوڑ کر اس کے پاس آئی اور پوچھا۔

’میں کہاں تھا؟ دنیا سے پوچھو جو دن چڑھے تک سوئی رہتی ہے، تم جاکر حامد کو جگاؤ، دیر ہورہی ہے، یہاں 9 بج چکے ہیں۔ میں تمہیں ایک بات بتاؤں، ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوچکا ہے، وقت چپکے سے 3 گھنٹے آگے نکل چکا ہے یا شاید دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ میں ابھی تک اس مسئلے کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا کہ کون آگے نکل چکا ہے اور کون پیچھے لیکن کچھ گڑبڑ ضرور ہوچکی ہے۔‘

’دیکھو ہمیں پھر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا۔ آپ بہت عجیب باتیں کرنے لگے ہیں اور یہ تندور پر صبح صبح مت جایا کریں، اتنی دفعہ آپ کو منع کیا ہے‘، اس کی بیوی نے تقریباً روتے ہوئے اس سے کہا۔

’تو کیا تم سمجھتی ہو کہ میں پاگل ہوگیا ہوں؟ اگر میں پاگل ہوچکا ہوتا تو کیا میں تمہیں اور حامد کو پہچانتا؟ دفتر میں کام بھی ٹھیک کر رہا ہوں اور آج دیکھو لیٹ بھی ہوگیا ہوں۔‘

’آپ لیٹ نہیں ہوئے، سمجھنے کی کوشش کریں۔ ابھی 6 بجے ہیں‘، اس کی بیوی نے کہا۔

’9 بج کر 10 منٹ ہیں۔ دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔‘

’وقت بھلا اپنی رفتار کیسے بدل سکتا ہے؟‘، اس کی بیوی نے پوچھا۔

’زمین پر موجود موسم جب اپنا آپ بدل سکتے ہیں، ٹھنڈے علاقوں میں گرم لُو اور گرم علاقوں میں برف باری ہوسکتی ہے تو وقت اپنی رفتار کیوں کر نہیں بدل سکتا؟ اس بحث کا وقت نہیں ہے، مجھے دیر ہورہی ہے‘، اس نے جواب دیا۔

اس کی بیوی رونے لگی۔ وہ خود بھی پریشان ہوگیا، یہ سب کیا ہے، لوگوں کو اس کی باتوں کا یقین کیوں نہیں ہورہا۔

’اچھا اگر تمہیں محسوس ہوتا ہے کہ میرے ساتھ کچھ مسئلہ ہے تو ہم آج ہی ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔‘، اس نے بیوی سے کہا۔

ڈاکٹر نے اس کا چیک اَپ کیا اور بتایا کہ اس کی انٹرنل کلاک ہل گئی ہے۔

’کیا آپ نے کسی دُور دراز ملک کا سفر کیا ہے؟‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’نہیں بالکل نہیں، میں کبھی بھی اپنے ملک سے باہر نہیں گیا‘، اس نے جواب دیا۔

’شاید آپ وقت پر سوتے اور جاگتے نہیں‘، ڈاکٹر نے کہا۔

’بالکل غلط، میں پورے 9 بجے رات سونے چلا جاتا ہوں‘، اس نے جواب دیا۔

’ڈاکٹر صاحب کل جب یہ 9 بجے سونے لگے تو اس وقت ہمارے وقت کے مطابق 6 بج رہے تھے، انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا کہ اب کافی دیر ہوگئی ہے حالانکہ سورج ابھی نہیں ڈوبا تھا‘، اس کی بیوی نے ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر سے کہا۔

’ہمارے 6 نہیں، ہمارے 9 بج چکے تھے، آپ لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ ہم 3 گھنٹے پیچھے رہ گئے ہیں اور وقت آگے نکل گیا ہے۔‘

’ایسا بھلا کیسے ممکن ہے کہ آدمی پیچھے رہ جائے اور وقت آگے نکل گیا ہو؟‘، ڈاکٹر نے سوال کیا۔

’ہوسکتا ہے۔ بالکل ہوسکتا ہے۔ وقت اور آدمی کی رفتار ایک سی تو نہیں۔ وقت کسی بھی لمحے آگے نکل سکتا ہے یا ہم پیچھے رہ سکتے ہیں۔ وقت عجیب بھید ہے‘، اس نے جواب دیا۔

’کیا کوئی حادثہ؟‘، ڈاکٹر نے پوچھا تو اس کی بیوی زار و قطار رونے لگی۔

’یہ اس حادثے کے بعد کومے میں چلے گئے تھے، بعد میں ہوش میں تو آگئے لیکن پھر اب یہ اس شب و روز سے مطمئن نہیں‘، اس کی بیوی نے روتے ہوئے کہا۔

’کوئی حادثہ نہیں ہوا، یہ سب جھوٹ ہے، بکواس ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں‘، وہ چلّاتے ہوئے اٹھا اور ڈاکٹر کے کمرے میں اِدھر سے اُدھر گھومنے لگا۔

’میں آپ کو چند ادویات لکھ کر دے رہا ہوں، آرام کیجیے۔ آپ کو سکون کی ضرورت ہے‘، ڈاکٹر نے اس سے کہا۔

’ہاں ہاں آپ کو کچھ نہیں ہوا، آپ گاڑی میں جاکر بیٹھیں، ابھی تو ہمیں واپسی پر اسکول بھی جانا ہے، میں یہ ادویات لے کر آتی ہوں‘، اس کی بیوی نے کہا۔

’ہاں جلدی کرو، دیر ہورہی ہے‘، وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

اس کے جانے کے بعد اس کی بیوی نے ڈاکٹر سے کہا۔

’ڈاکٹر صاحب دراصل 3 ماہ پہلے یہ بیٹے کو لے کر اسکول جانے کے لیے نکلے، اس دن بھی انہیں بہت دیر ہورہی تھی، ہروقت انہیں محسوس ہوتا کہ وقت نہیں رہا، دیر ہوگئی ہے۔ بارش ہورہی تھی اور انہیں جلدی پہنچنا تھا لیکن گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔

’ہمارا بیٹا، ہمارا اکلوتا بیٹا حامد اس حادثے میں فوت ہوگیا اور یہ کومہ میں چلے گئے تھے۔ پھر جب سے یہ کومہ سے واپس آئے ہیں تو انہیں حامد گھر میں چلتے پھرتے دکھائی دیتا ہے۔ یہ اس سے باتیں کرتے ہیں۔ مجھے ہر روز صبح اسے جگانے کا کہتے ہیں۔ میں عجیب دُکھ میں مبتلا ہوں، جب یہ ہر روز کہتے ہیں کہ حامد کو جگاؤ اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے۔ یہ ہر وہ روٹین کا کام ویسے ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو حادثے سے پہلے کر رہے تھے۔ نوکری سے انہیں نکال دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں مانتے۔ اب میں خود کو سنبھالوں کہ انہیں؟‘، خاتون پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔

’آپ کو حوصلہ رکھنا ہوگا، میں کچھ سکون آور ادویات لکھ رہا ہوں۔ یہ چند روز استعمال کرائیں اور 15 دن بعد پھر آئیں، اگر فرق نہ پڑا تو ہمیں انہیں ہسپتال ہی میں منتقل کرنا پڑے گا۔‘

پہلے پہل تو اس شخص نے کوئی بھی دوا لینے سے صاف انکار کردیا، کئی دن بیوی کی منت سماجت کے بعد ایک روز اس نے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات لینا شروع کردیں، اب وہ زیادہ تر وقت سوکر گزارتا تھا، جاگ آتی تو دیوار پر لگے وال کلاک کو گھورنا شروع کردیتا۔

’15 منٹ آگے کرو اسے‘, وہ چیخ کر کہتا۔

’20 منٹ کا فرق پڑگیا ہے۔‘

’5 منٹ پھر پیچھے ہوگیا۔ ذرا پھر سے کلاک کا ٹائم درست کردو۔‘

بیوی بے حد پریشان رہتی، وہ جو کہتا کلاک پر وہی وقت کردیتی ورنہ وہ کھانا اور دوا کھانے سے انکار کردیتا۔

کافی دن یونہی گزر گئے کہ پھر ایک صبح وہ جاگا تو چیخ اٹھا۔

’اوہ میرے خدا، دنیا پورا ایک دن پیچھے رہ گئی ہے، اس نے کیلنڈر پر تاریخ درست کی اور یہ بتانے کے لیے بیوی کو جگایا۔

تبصرے (0) بند ہیں