ملک میں سال کی پہلی سہ ماہی میں خواتین پر تشدد میں 360 فیصد تک اضافہ

اپ ڈیٹ 13 مئ 2020
رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی

خواتین و بچوں کے حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق پر کام کرنے والی سماجی تنظیم سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمینٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2020 کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان بھر میں خواتین و بچوں پر تشدد سمیت اغوا اور قتل کے واقعات میں 360 فیصد تک کا اضافہ دیکھا گیا۔

تنظیم کی جانب سے جاری کردہ پہلی سہ ماہی کی رپورٹ ملک کے معروف انگریزی و اردو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے ڈیٹا سے بنائی گئی اور تنظیم نے ملک کے 6 بڑے اخبارات کا 3 ماہ تک جائرہ لیا۔

مجموعی طور پر رپورٹ میں 8 مسائل کا جائزہ لیا گیا جن میں بچوں پر تشدد، اغوا، خواتین پر تشدد، ریپ اور جنسی استحصال، قتل، گھریلو تشدد، کم عمری کی شادیاں اور چائلڈ لیبر جیسے مسائل شامل تھے۔

تنظیم نے جنوری سے مارچ کے اختتام تک اخبارات میں شائع رپورٹس کا ڈیٹا جمع کرکے ان کے نتائج جاری کیے، جن سے معلوم ہوا کہ ملک بھر میں سال 2020 کی پہلی سہ ماہی کے دوران ہر طرح کے تشدد اور جرائم میں اضافہ دیکھا گیا تاہم گزشتہ 3 ماہ کے دوران کچھ دنوں میں جرائم میں کمی بھی نوٹ کی گئی۔

مذکورہ تنظیم ہر سہ ماہی پر رپورٹ جاری کرتی ہے اور اس بار شائع کی گئی رپورٹ کو کورونا وائرس سے نہیں جوڑا گیا اور نہ ہی رپورٹ میں جرائم کے اضافے کو وبا کے تناظر میں دیکھا گیا۔

رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر پہلی سہ ماہی میں خواتین و بچوں پر تشدد، ان کے قتل، اغوا اور ریپ جیسے واقعات میں اضافہ ہوا، تاہم فروری میں ایسے واقعات میں 73 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر پہلی سہ ماہی میں مذکورہ 6 مسائل کے جرائم میں مارچ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا اور مارچ میں ان جرائم میں 360 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اوسط پہلی سہ ماہی میں خواتین اور بچوں پر تشدد میں 200 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

بچوں کا استحصال

رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی کے دوران ملک بھر میں بچوں کے استحصال میں اضافہ دیکھا گیا اور مجموعی طور پر سب سے زیادہ واقعات 61 مارچ میں پیش آئے جب کہ فروری میں بچوں کے استحصال کے 13 واقعات رپورٹ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ وہ واقعات ہیں جو اخبارات میں شائع ہوئے جب کہ رپورٹس نہ ہونے والے واقعات کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

اسی طرح پہلی سہ ماہی کے دوران چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ دیکھا گیا تاہم 3 ماہ کے دوران چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کے صرف 6 کیسز ہی رپورٹ ہو سکے۔

گھریلو تشدد

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گھریلو تشدد کے واقعات میں پہلی سہ ماہی کے دوران 230 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا اور سب سے زیادہ کیسز مارچ میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 20 تھی، فروری میں ملک بھر میں گھریلو تشدد کے 6 کیس رپورٹ ہوئے۔

ریپ اور ہراسانی

رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں پہلی سہ ماہی کے دوران کام کی جگہوں پر ہراسانی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے اور سب سے زیادہ کیسز فروری میں 5 رپورٹ ہوئے، کام کی جگہوں پر ہراسانی کے 2 کیسز مارچ اور ایک کیس جنوری میں رپورٹ ہوا۔

پہلی سہ ماہی کے دوران ریپ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور سب سے زیادہ کیسز مارچ میں 25 رپورٹ ہوئے جب کہ فروری میں بھی ریپ کے 24 اور جنوری میں 9 کیس رپورٹ ہوئے۔

خواتین پر تشدد

ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا اور سب سے زیادہ کیسز مارچ میں رپورٹ ہوئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں عورت کی پریشانی کی وجہ صرف مرد نہیں بلکہ ...

رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے کیسز میں فروری میں 73 فیصد تک کمی دیکھی گئی اور حیران کن طور پر فروری میں ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، جب کہ جنوری میں خواتین پر تشدد کے 9 جب کہ مارچ میں 36 کیسز رپورٹ ہوئے۔

خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ کیسز صوبہ پنجاب میں سامنے آئے، جہاں کیسز کا تناسب 34 فیصد رہا جب کہ سندھ 8 فیصد کے دوسرے اور خیبرپختونخوا 3 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

بلوچستان سے خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے۔

رپورٹ میں اغوا اور قتل و غارت کے واقعات میں اضافے کا ذکر بھی کیا گیا اور مجموعی طور پر پہلی سہ ماہی میں سب سے زیادہ جرائم مارچ میں رپورٹ ہوئے اور مارچ میں جرائم میں 360 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں