Dawnnews Television Logo

کورونا وائرس کے سامنے آتے ہی اس وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں اور طبی رضاکاروں کی جانب سے ایک ہی واضح پیغام دیا جاتا رہا ہے کہ گھروں میں رہیں، محفوظ رہیں۔

اور جب پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی حالات معمول کی جانب گامزن ہیں تو فرنٹ لائن جنگجو اب بھی اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر وبا سے لڑ رہے ہیں اور نہ صرف اپنی زندگیاں بلکہ انہوں نے اپنے پیاروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دی ہیں۔

یہاں وہ ہیرو اپنے نامعلوم دشمن کے خلاف جدوجہد کو یاد کر رہے ہیں، وہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں اور کئی سوالوں کے جواب دے رہے ہیں، کیوں کہ کورونا حالیہ تاریخ کا مشکل ترین مرحلہ ہے۔

یہ ملک بھر میں کورونا کے خلاف لڑنے والے ہزاروں فرنٹ لائن ورکرز میں سے چند کی کہانیاں ہیں مگر ڈان ڈاٹ کام وقتا بوقتا ایسے ہیروز کی کہانیاں آپ تک پہنچاتا رہے گا۔

===========================================================================

ڈاکٹر صائمہ کمال معتصم، کراچی

کووڈ-19 آئی سی یو کی سربراہ، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز


ان کا کہناہے کہ جب تک آپ ایک کورونا کے مریض کو سانس لینے کے ہانپتے ہوئے نہیں دیکھتے اور اس کا خیال نہیں رکھا ہو، نوجوانوں کو اس سے ہلاک ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہو، گھنٹوں تک 3 تہوں والا حفاظتی لباس نہ پہنا ہو اور جب آپ کچھ کھا بھی نہیں سکتے، یا بیت الخلا تک نہیں جاسکتے ہوں، تب تک آپ کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کورونا کیا ہے۔

ڈاکٹر صائمہ کمال کے مطابق ایک معالج ہونے کی حیثیت سے آپ خود کو اس وقت بےبس محسوس کرتے ہیں جب آپ ایک جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور پھر بھی اسے بچا نہ سکیں، تب احساس ہوتا ہے کہ یہی حقیقت ہے اور واقعی حقیقت ہے۔

ڈاکٹر صائمہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد اپنے طویل دن کی تیاری کرتی ہیں، ہسپتال پہنچنے کے بعد ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں ملتا، وہ 3 سے 4 گھنٹوں کے لیے 3 تہوں والا حفاظتی لباس زیب تن کرتی ہیں، اس دوران وہ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات سے بھی نمٹتی ہیں۔

لیکن ان کا دن شام کو گھر واپس آنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا، ’گھر میں مجھے ہسپتال سے انتظامی امور اور مریضوں کے حوالے سے کالز آتی رہتی ہیں‘۔

’وسائل کی کمی سے لے کر اس بیماری اور حالات کی غیر یقینی تک مختلف امور کی وجہ سے گزشتہ دو مہینے ذہنی اور جسمانی طور پر خاصے مشکل رہے‘۔

صائمہ خود کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہسپتال آتے اور جاتے وقت ماسک اور دستانے پہنتی ہیں اور گھر پہنچنے کے بعد وہ سب سے پہلے خود کو اور اپنے کپڑوں کو صاف کرتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ سب کرنا ضروری ہے کیوں کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ دوسروں کو کورونا سے متاثر بھی کرسکتے ہیں‘۔

=======================================================================

ڈاکٹر آفتاب پھل، حیدرآباد

کووڈ-19 کے آئیسولیشن وارڈ کے فوکل پرسن، لیاقت یونیورسٹی ہسپتال


ڈاکٹر آفتاب پھل —فوٹو:عمیر علی
ڈاکٹر آفتاب پھل —فوٹو:عمیر علی

ڈاکٹر آفتاب پھل نے گزشتہ تین ہفتوں سے اپنے اہل خانہ کو نہیں دیکھا۔

ہسپتال میں طویل شفٹیں ختم کرنے کے بعد زیادہ تر رات کو ان کی والدہ انہیں فون کرتی ہیں اور ہمیشہ یہی مشورہ دیتی ہیں کہ ’کیسے ہو؟ اپنا خیال رکھنا‘۔

ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ ’میں نے (جسمانی طور پر) خود کو اپنی فیملی سے مکمل طور پر دور کرلیا ہے، میں ایک الگ کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں، وہاں ایک باورچی موجود ہے جو مجھ سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے کھانا پیش کردیتا ہے، اس کے علاوہ کوئی وہاں مجھ سے ملنے نہیں آسکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے ہم جذباتی نہیں ہوتے اور ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘۔

ڈاکٹر کے مطابق ’ڈاکٹروں کو اکثر کورونا وائرس کے بارے میں انتہائی عجیب رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کئی تعلیم یافتہ افراد ہمیں کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وائرس مغربی سازش ہے‘۔

لیکن وائرس کے مہلک ہونے کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ان کے ذہن میں ہمیشہ اہنے عملے کی حفاظت کی فکر رہتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان آئسولیشن وارڈز میں کام کرنے والے عملے کو سب سے زیادہ وائرس سے خطرہ ہوتا ہے، وہ بغیر کسی فائدے کے بہت اچھا کام کررہے ہیں، ان کے ساتھی تقریباً اتنی ہی تنخواہوں میں دوسرا کام کررہے ہیں جو اتنا خطرناک اور نقصان دہ نہیں‘۔

=========================================================================

ذاکر علی مشوری، حیدرآباد

ایمبولینس ڈرائیور، لیاقت یونیورسٹی ہسپتال


ذاکر علی شاہ —فوٹو بشکریہ عمیر علی
ذاکر علی شاہ —فوٹو بشکریہ عمیر علی

21 سالہ ذاکر علی مشوری نے بتایا کہ ’آخر میں کیوں خوفزدہ ہوں؟ یہ میرا کام ہے اور مجھے کرنا ہے‘۔

آج کل وہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو آئسولیشن وارڈز اور لیاقت یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کو ایمرجنسی ڈیوٹیز کے لیے ہسپتال پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں کئی مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کے ساتھ ٹنڈو محمد خان میتیں بھی منتقل کرچکا ہوں‘۔

ذاکر کا کہنا تھا کہ ’مجھے اگر کسی بات کی پریشانی ہوتی بھی تو وہ صرف اپنی فیملی کی، لیکن میں حفاظتی لباس پہن کر ایسے سارے خیالات کو نظرانداز کردیتا ہوں‘۔

’میرے والدین مجھ سے کہتے ہیں کہ میں کورونا سے متاثر مریضوں کے قریب نا جاؤں اور حفاظتی لباس ضرور پہنوں، لیکن میں کیا کرسکتا ہوں، ضرورت کے وقت میرا ایمبولینس میں ہونا لازمی ہوتا ہے کیوں کہ یہ میرا کام ہے‘۔

ان کے مطابق ’14 گھنٹوں کی طویل شفٹ کے بعد جب میں گھر واپس آتا ہوں تو سب سے پہلے اپنے کپڑے تبدیل کرتا ہوں، غسل کرکے اور پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کا کھانا کھاتا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے اب تک اپنا ٹیسٹ نہیں کروایا، مجھے کہا گیا تھا کہ ٹیسٹ صرف تب کروایا جائے جب اس وائرس کی کوئی علامت ظاہر ہورہی ہو اور الحمداللہ مجھ میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی‘۔

========================================================================

عاشق حسین، لاہور

ٹیکنیشن، ایمرجنسی آپریشن ڈپارٹمنٹ، چلڈرن ہسپتال لاہور


عاشق حسین کا کہنا تھا کہ ’اس عالمی وبا کی وجہ سے ہم سب معمولی خوف مسوس کرتے ہیں، لیکن طبی رضاکار ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے عوام کا خیال رکھنا ضروری ہے‘۔

وہ ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کے وارڈ میں جانے سے قبل حفاظتی لباس زیب تن کرتے ہیں، تاہم گھر میں انہیں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنی فیملی کو اس وائرس سے متاثر نہ کردیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں بچوں اور دیگر فیملی ممبران سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے علاوہ بزرگوں اور بچوں سے دور رہنے میں ہی ان کی بہتری ہے‘۔

ان کے مطابق ’ہم گزشتہ دو ماہ سے تمام حفاظتی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی فاصلہ اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ حفاظتی لباس پہننے کے ساتھ ہینڈ سینیٹائزر کا بھی استعمال کررہے ہیں‘۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ عوام بھی اس وائرس کے خطرے کو سمجھ کر اپنے ہی فائدے کے لیے خود حفاظت کریں گے تاکہ دوسرے بھی محفوظ رہیں۔

=========================================================================

صدف نورین

نرس، چلڈرن ہسپتال، لاہور


چند ماہ قبل تک نورین کا مریضوں کے ہجوم سے اکتا جانا معمول تھا، جن کا علاج وہ اور ان کے ساتھی کرتے تھے لیکن کووڈ-19 کے بعد جسمانی دباؤ کے بجائے ذہنی دباؤ غالب ہے۔

کورونا سے قبل صدف نورین کے لیے ان کا کام اتنا پیچیدہ یا تھکا دینے والا معاملہ نہیں تھا مگر اب وہ ذہنی اضطراب کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔

نرس کے مطابق کورونا وائرس کے بعد سے دوسری بیماریوں اور ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’گھر پہنچنے کے بعد میں نیم گرم پانی سے نہانے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھتی ہوں، بھاپ لیتی ہوں اور سینیٹائزر کا استعمال کرتی ہوں‘۔

وہ خود کو ڈس انفیکٹ کرنے سے قبل جس بھی چیز کو جیسے دروازہ، کرسی یا کوئی برتن کو ہاتھ لگاتی ہیں اس کی بھی صفائی ہوتی ہے۔

نورین کا بس یہی ماننا ہے کہ حفاظت علاج سے بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ بیماری صرف انہیں ہی نہیں بلکہ ان کے پیاروں اور معاشرے کو بھی متاثر کرسکتی ہے‘۔

=========================================================================

ڈاکٹر بختاور فاطمہ، لاہور

پوسٹ گریجویٹ ٹرینی، لیڈی ولنگڈن ہسپتال


ڈاکٹر فاطمہ جب چھٹیوں پر گھر میں تھیں تب کورونا کی وبا نے ملک کو لپیٹ میں لیا تھا اور جب وہ واپس ڈیوٹی پر آئیں تو انہوں نے خود کو وبا کی زد میں پایا۔

انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ طویل عرصے تک اپنے اہل خانہ کو دیکھ نہیں پائیں گی اور شاید وہ بھی دیگر طبی رضاکاروں کی طرح اس وبا کا نشانہ بھی بن جائیں۔

وبا کے دنوں میں ڈاکٹر فاطمہ اپنے سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے لیے پریشان تھیں اور سب سے زیادہ انہیں اپنے والد کی فکر تھی کیوں کہ وہ ذیابطیس کے مریض ہیں۔

اگرچہ ڈاکٹر فاطمہ اور ان کے دیگر ساتھی پہلے کی طرح پرجوش انداز میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، تاہم وہ پہلے سے زیادہ محتاط ہوگئے ہیں اور سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، تاکہ وہ دوسروں کو کورونا سے متاثر کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔

'ریڈزون' میں ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دینے سے جہاں ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں وہ پہلے سے زیادہ محتاط بھی ہوگئی ہیں۔

اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد وہ اپنے حفاظتی لباس کی کٹ بند کرکے باحفاظت گھر لوٹتی ہیں۔

ڈاکٹر فاطمہ نے بتایا کہ وہ گھر جانے سے پہلے اپنے کپڑے دھوکر انہیں سکھاتی ہیں اور پھر وہ گھر جاتی ہیں اور وہ گھرکچھ بھی نہیں لے کر جاتیں۔

ڈاکٹر فاطمہ چاہتی ہیں کہ عوام کورونا کو مذاق سمجھنے کے بجائے اسے حقیقی خطرہ سمجھے، کیوں کہ اس وبا نے درجنوں افراد کی زندگی چھین لی ہے۔

انہوں نے لوگوں کو تجویز دی کہ وہ احتیاط کے طور پر وقت پر اپنے ہاتھ دھونے سمیت دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی محفوظ رکھیں۔

========================================================================

عمران خان، سوات

ایمبولینس ڈرائیور، سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال


عمران خان ڈیوٹی سے قبل حفاظتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ فضل خالق
عمران خان ڈیوٹی سے قبل حفاظتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں — فوٹو بشکریہ فضل خالق

عمران خان اپنے اہل خانہ کو ذہنی اضطراب سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیوٹی کے دوران کورونا کے مریض کو ہسپتال منتقل کرنے یا پھر کورونا سے جاں بحق ہونے والے شخص کی لاش کو منتقل کرنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں بتاتے۔

عمران خان نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں وہ خود بھی پریشان تھے اور ڈیوٹی نبھانے سے کترا رہے تھے لیکن پھر انہوں نے ہمت کرکے وبا سے بہادری کا مقابلہ کیا اور اپنے دل کے خوف پر قابو پایا۔

'میں کسی بھی بڑی امیدوں کے بغیر اپنے خدا پر توکل کرکے اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھا رہا ہوں'۔

عمران خان نے بتایا کہ انہیں حفاظتی لباس اور آلات فراہم کیے گئے ہیں اور وہ ڈیوٹی کے بعد گھر واپسی سے قبل خود کو اچھے طریقے سے جراثیم کش اسپرے سے صاف کرنے سمیت دیگر حفاظتی انتظامات اپنا کر گھر لوٹتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے چند ہفتوں میں انہوں نے یہی سبق سیکھا ہے کہ کورونا کی وبا کو ہلکا نہ سمجھا جائے۔

عمران خان کے مطابق انہوں نے کورونا کے بہت سارے مریض دیکھے، جن میں سے کئی کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی جب کہ کئی مریض بہتر حالت میں بھی تھے۔

انہوں نے لوگوں کو تجویز دی کہ سخت احتیاطی تدابیر اپنا کر ہی مرض سے بچا جا سکتا ہے۔

==========================================================================

اسد اقبال، سوات

لفٹ آپریٹر، سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال


اسد اقبال —فوٹو بشکریہ فضل خالق
اسد اقبال —فوٹو بشکریہ فضل خالق

اسد اقبال نے بتایا کہ وہ ڈیوٹی پر جانے سے قبل آیت الکرسی پڑھ کر خود پر دم کرتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہی ان کی حفاظت کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ جب بھی کوئی کورونا کا مریض ہسپتال آتا ہے تو وہ عملے کے پہلے شخص ہوتے ہیں جو مریض سے ملتے اور انہیں دیکھتے ہیں اور ان کی ذمہ داری مریضوں کو لفٹ کے ذریعے کورونا کے لیے تیسری منزل پر بنائے گئے وارڈ میں شفٹ کرنا ہوتا ہے۔

اسد اقبال نے بتایا کہ ایک طرف تو تھوڑی دیکھ بھال کرنے پر بھی مریض انہیں دعائیں دیتے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ کورونا کے مریض کا سنتے ہی دوسری طرف بھاگتے ہیں مگر انہوں نے کبھی کسی مریض سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔

اگرچہ اسد اقبال اپنی ملازمت کے دوران انسانیت کی خدمت کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں تاہم دوسری طرف انہوں نے اپنے اہل خانہ سے اپنی ملازمت کی حقیقت خفیہ رکھی ہوئی ہے۔

'اگر وہ گھر والوں کو بتائیں گے کہ وہ آئسولیشن وارڈ میں کام کرتے ہیں تو گھر والے انہیں کام پر جانے سے روکیں گے'۔

لہٰذا وہ اپنے گھر والوں سے بچنے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ڈیوٹی کے بعد نہاکر اپنے کپڑے دھوکر اور خود کو ڈس انفیکٹڈ کرکے کچھ وقت دھوپ میں گزارنے کے بعد گھر لوٹتے ہیں۔

اسد اقبال کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جانب سے کورونا وائرس کو مذاق سمجھنے پر انہیں افسوس ہوتا ہے، وہ ہر روز کورونا کے مریض دیکھتے ہیں، ان میں سے کچھ زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں، اس مرض کو مذاق نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط کی جائے۔

==========================================================================

ڈاکٹر محمد عارف، سوات

کورونا آئسولیشن وارڈ، سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال


ڈاکٹر محمد عارف —فوٹو بشکریہ فضل خالق
ڈاکٹر محمد عارف —فوٹو بشکریہ فضل خالق

ڈاکٹر محمد عارف نے بتایا کہ انہوں نے رنگ، مذہب، نسل اور ذات پات کی تفریق کے بغیر انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا اور وہ وبا کی اس گھڑی میں اپنی ذمہ داریاں فرنٹ لائن پر احسن انداز میں ادا کر رہے ہیں۔

نوجوان ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وہ کسی کورونا کے مریض کو دیکھتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے ان کا دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا کے مریض ٹھیک طرح سے سانس نہیں لے پاتے اور شدید تکلیف میں ہونے کی وجہ سے ان کی رنگت بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔

ڈاکٹر محمد عارف کے مطابق ہسپتال میں خدمات انجام دینے والے کچھ ڈاکٹرز بھی احتیاطی تدابیر کے تحت قرنطینہ میں ہیں اور وہ گھر جانے کے بجائے قرنطینہ سینٹر میں بنائے گئے خصوصی کمروں میں وقت گزارتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر محمد عارف نے وبا کے ان دنوں میں کورونا کے علاوہ دیگر امراض میں مبتلا افراد کو بھی فون پر ہدایات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے لوگوں کو تجویز دی کہ وہ وبا کے ان دنوں میں گھروں سے نہ نکلیں اور یہاں تک کہ اگر وہ بیمار بھی ہیں تو بھی وہ گھر پر رہیں اور معالج سے فون پر رابطہ کریں، جیسے وہ 24 گھنٹے فون پر دستیاب رہتے ہیں۔

==========================================================================

فضیلت اکرم، سوات

نرس، سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال


فضیلت اکرم —فوٹو بشکریہ فضل خالق
فضیلت اکرم —فوٹو بشکریہ فضل خالق

گزشتہ 14 سال سے بطور نرس خدمات سر انجام دینے والی فضیلت اکرم کا کہنا تھا کہ جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے، تب سے ان کی زندگی تنہائی کا شکار ہوگئی ہے۔

حال ہی میں انہیں کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کی نگہداشت کے وارڈ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے۔

وہ وبا سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رات کے کھانے پر ٹیبل پر اپنی اپنی زندگی کے حوالے سے باتیں کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اب وہ گھر جاتی ہیں تو کسی سے نہیں ملتیں اور انہوں نے اپنے بچوں کو بھی ان سے دوری اختیار کرنے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔

'میرے بچے سمجھتے ہیں کہ میں عجیب ہوں لیکن میں اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے یہ ہی کر سکتی ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ سارا دن کام کرنا اور پھر خود کو ایک ہی کمرے تک محدود کرنا کوئی آسان کام نہیں۔

وہ کہتی ہیں یہ بہت تھکاوٹ کا کام ہے اور وہ ڈیوٹی کے دوران ہر وقت خوف میں رہتی ہیں کہ کہیں وہ بھی کورونا کا شکار نہ ہوجائیں اور پھر وہ وبا کو گھر لے جا کر اپنے ہی بچوں کو بھی اس میں مبتلا نہ کردے۔

فضیلت اکرم کے مطابق خوف کی وجہ سے ان کے ذہنی اضطراب میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ٹھیک طرح سے نیند بھی نہیں لے پاتیں۔

فضیلت اکرم نے ابھی تک کورونا کے باعث 8 مریضوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ ان لمحات کو اپنی زندگی کے سب سے غمگین لمحات کہتی ہیں۔

انہوں نے مریضوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمر رسیدہ افراد زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں، وہ ٹھیک طرح سے نہ تو سانس لے پاتے ہیں اور نہ ہی سو پاتے ہیں۔

انہوں نے افسردہ ہوکر بتایا کہ جب کورونا سے پہلی موت ہوئی تو مریض کے ورثا کو اس سے دور رکھا گیا اور انہیں ان کے جنازے میں بھی شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

==========================================================================

عطا اللہ، سوات

نرس، سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال


عطا اللہ —فوٹو بشکریہ فضل خالق
عطا اللہ —فوٹو بشکریہ فضل خالق

عطااللہ نے بتایا کہ جب سے انہوں نے کورونا کے انتہائی علیل مریضوں کے لیے بنائے گئے خصوصی وارڈ میں خدمات سر انجام دینا شروع کی ہیں تب سے ان کے دوست ان سے ملنے سے کتراتے ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں نرس کے طور پر خدمات سر انجام دینا شروع کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نرس بننے سے قبل ان کے ایک دوست نے ان سے رابطہ کیا تھا اور وہ ان کے گھر میں کچھ وقت تک رہنا چاہتے تھے مگر جب سے انہوں نے سنا ہے کہ میں نے کورونا کے مریضوں کے وارڈ میں خدمات دینا شروع کی ہیں تب سے وہ ملا ہی نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ مسلسل تکلیف میں رہنے کی وجہ سے کورونا کے مریضوں کا دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے اور وہ سب ان کی زندگی بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ ہر ہار اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے۔

ان کے مطابق احتیاطی تدابیراور مریض کی نگہداشت سے ہی وبا سے بچا جا سکتا ہے۔

=======================================================================

ڈاکٹر رحیم خان، کوئٹہ

ترجمان، وائے ڈی اے بلوچستان چیپٹر


—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) بلوچستان کے ترجمان ڈاکٹر رحیم خان کے مطابق ڈاکٹروں کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا خوف یہ نہیں ہے کہ وہ کورونا سے متاثر ہوں گے بلکہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس سے متاثر کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر رحیم خان سول ہسپتال کوئٹہ میں میڈیکل افسر ہیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت دن رات کام کر رہے ہیں، وہ فون پر علاج بتا رہے ہیں، وہ سرجری کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا مکمل علم نہیں کہ وہ جن مریضوں سے مل رہے ہیں ان میں کون کورونا کا مریض ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب ڈاکٹر ڈیوٹی سے گھر جاتے ہیں اور اہل خانہ سے ملتے ہیں یا جب وہ اپنے دوستوں سے ملتے ہیں تو وہ اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں وہ اپنے عزیزوں کو کورونا میں تو مبتلا نہیں کر رہے۔

ڈاکٹر رحیم خان کے مطابق ہسپتال اس وقت کورونا کے پھیلاؤ کا مرکز بن چکے ہیں، اس لیے وہ کافی دن سے گھر نہیں جا رہے ہیں کیونکہ ان کے گھر جانے سے خطرہ ہے اور انہوں نے ایک ہوسٹل میں عارضی رہائش اختیار کر رکھی ہے۔

'ڈاکٹر کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہتی ہے کہ کہیں وہ کورونا کا شکار تو نہیں ہوگئے اور وہ کہیں دوسروں کو تو اس سے متاثر نہیں کر رہے'۔

انہوں نے لوگوں کو آسان اور سادہ مشورہ دیا کہ وہ گھروں میں رہیں اور لمبی و صحت مند زندگی پائیں۔

ڈاکٹر رحیم خان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کیسز بڑھ رہے ہیں اور ایک سے دوسرے انسان میں وائرس کی تیزی سے منتقلی ہو رہی ہے اور ہمیں اس سلسلے کو توڑنا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب تک ہونے والے ٹیسٹ زمینی حقائق کا انتہائی چھوٹا تناسب بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہجوم میں جانیں سے پرہیز کریں اور افطار پارٹیوں سے بھی اجتناب کریں، زندگی ہوگی تو ان چیزوں سے مزہ حاصل کیا جا سکے گا اور لوگوں کو کورونا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

========================================================================

جمال شاہ

صدر آل پاکستان میڈیکل اسٹاف فیڈریشن


جمال شاہ سول ہسپتال کوئٹہ میں پیڈیاٹریشن ہیں—فوٹو:ڈان نیوز
جمال شاہ سول ہسپتال کوئٹہ میں پیڈیاٹریشن ہیں—فوٹو:ڈان نیوز

آل پاکستان میڈیکل اسٹاف فیڈریشن کے صدر جمال شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب سے کورونا کی بیماری آئی ہے تب سے ہر گزرتا دن ہمارے لیے مشکل تر بنتا جا رہا ہے۔

سول ہسپتال کوئٹہ میں سینئر پیڈیاٹریشن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر جمال شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری قوم ابھی تک کورونا کی سنگین صورت حال کو ٹھیک طرح سے سمجھنے سے قاصر ہے جبکہ وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے طبی رضاکار بیماری کا مقابلہ کرتے کرتے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ موجودہ حالات اور سنگینی کو سمجھیں اور گھروں تک محدود رہیں۔


ایڈیٹنگ: عدیل احمد، ثنا چوہدری

ہیڈر الیوسٹریشن: مشبیٰ سید

مترجم: ساگر سہندڑو، میمونہ رضا نقوی

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔