Dawnnews Television Logo

'ڈریں اس وقت سے جب ہمارا قیمتی ڈیلتا بحیرہ عرب میں غرق ہوجائے گا'

دریائے سندھ سے میٹھے پانی کےاخراج کو بربادی کہاجاتا ہےاس لیے انڈس ڈیلٹا کی اہمیت سے متعلق شعور اور احساس دلانا ضروری ہے۔
اپ ڈیٹ 22 مئ 2020 01:37pm

'جو آپ دیکھتے نہیں اسے محسوس بھی نہیں کرسکتے ہیں۔' پاکستان کی پہلی افریقی نژاد قانون ساز تنزیلہ قمبرانی نے یہ جملہ ان غریب طبقات کی حالتِ زار کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جو اپنے زمانے کے خوشحال انڈس ڈیلٹا کے باسی ہیں۔

تنزیلہ قمبرانی شیدی برادری سے تعلق رکھتی ہیں جو صوبہ سندھ اور بلوچستان میں مکران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غربت کی سطح 'ناقابلِ یقین' حد تک بلند ہے۔ پاکستان کی ماحولیاتی اور معاشی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے مشہور انڈس ڈیلٹا دنیا کا 5واں بڑا ڈیلٹا اور مینگروز یا تمر کا 7واں سب سے بڑا جنگل ہے۔

اس کی بین الاقوامی اہمیت کے اعتراف میں اس ویٹ لینڈ (مرطوب زمین) کو 2002ء میں رامسار سائٹ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں، دلدل، ندیوں اور مینگرووز کے جنگلات کا ایک پیچیدہ نظام تشکیل دیتا عظیم دریائے سندھ بحیرہ عرب میں جاکر گرتا ہے۔ جب تیزی سے طاقتور دریا سمندر میں گرتا ہے تو اپنے پیچھے زرخیز مٹی چھوڑ جاتا ہے اور پھر وہی مٹی زرخیز زمین کے ٹکڑے کو وجود دیتی ہے۔

تاہم حکومت کی جانب سے ڈیم کی تعمیر اور پانی کی بدانتظامی کے نتیجے میں دریا کے بہاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ڈیلٹا سکڑ گیا ہے، اور انسانی جان اور ماحولیات دونوں کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ میٹھے پانی کی عدم موجودگی کے باعث سمندری پانی ڈیلٹا میں داخل ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں مٹی اور آبی ذخائر تباہ ہورہے ہیں اور یہ انسانوں، جانوروں یا فصلوں کے لیے ناقابلِ استعمال ہوتا جارہا ہے۔

پچھلے سال دی تھرڈ پول نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ ڈیلٹا سے لگ بھگ 12 لاکھ افراد پہلے ہی کراچی منتقل ہوچکے ہیں۔ سالوں سے ڈیلٹا میں آباد افراد ذریعہ معاش کے خاتمے، بیماریوں میں اضافے اور حالات سے تنگ آکر پہلے سے گنجان آباد شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں۔ تنزیلہ قمبرانی نے کہا کہ، 'آبادی کی اکثریت میں ہیپاٹائٹس سی مثبت پایا گیا ہے'۔ یہاں کئی ایکڑ اراضی ہے جہاں کچھ نہیں اگایا جاسکتا اور لوگ صرف اس وجہ سے یہاں رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس نقل مکانی کرنے کے وسائل موجود نہیں ہیں۔

برسوں سے ڈیلٹا میں رہنے والے پسماندہ طبقات کوا ایک عرصے تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے—تصویر بشکریہ الطاف سیال
برسوں سے ڈیلٹا میں رہنے والے پسماندہ طبقات کوا ایک عرصے تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے—تصویر بشکریہ الطاف سیال

ڈیلٹا کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی حالتِ زار کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کو خود ڈیلٹا کا دورہ کرنا ہوگا۔

یہاں مقیم برادریوں کی متعدد درخواستوں اور ماہرین کی طرف سے 2018ء میں شائع ہونے والے اپنی نوعیت کے پہلے مطالعہ میں شامل کی جانے والی زبردست سفارشات کے باوجود یہاں کے حالات میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔

نقصان کا تخمینہ

اس تحقیق نے کچھ چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ انتہائی حیران کن دریافتوں میں سے ایک دریافت یہ ہے کہ پچھلی 2 صدیوں کے دوران ڈیلٹا میں 92 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

تصویر بشکریہ یو ایس جیولاجیکل سروے
تصویر بشکریہ یو ایس جیولاجیکل سروے

ریموٹ سینسنگ اور جیو اسپاشیل آلات (geospatial tools) کی مدد سے یونیورسٹی کے 5 محققین کی جانب سے کیے گئے 15 ماہ طویل مطالعے میں یہ بھی پتا چلا کہ سیلابی میدانوں کا تقریباً 60 فیصد ساحل بنجر بن چکا ہے جبکہ 32 فیصد زیرِ آب آگیا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ 1990ء میں 16فیصد حصے پر محیط مینگرووز والا سیلابی میدان گھٹ کر 10 فیصد تک محدود ہوگیا۔ تاہم 2017ء تک حکومت اور قدرتی وسائل کے تحفظ پسندوں کی مشترکہ کاوشوں کے باوجود یہ محض 13فیصد تک ہی بڑھ سکا۔

تحقیق کی قیادت کرنے والے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی (MUET) جامشورو کے پروفیسر الطاف سیال نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 'جب ڈیلٹا ایک خوشحال ماحولیاتی نظام کا حامل تھا تب اس میں 17 ندیاں تھیں لیکن آج صرف 2 فعال ندیاں رہ گئی ہیں'۔

مینگرووز سے بھرے سیلابی میدان تیزی سے غائب ہو رہے ہیں—تصویر بشکریہ الطاف سیال
مینگرووز سے بھرے سیلابی میدان تیزی سے غائب ہو رہے ہیں—تصویر بشکریہ الطاف سیال

شواہد کے مطابق ڈیلٹا میں دریا کے بہاؤ میں کمی کے نتیجے میں ذرخیز مٹی کے ذخائر میں کمی، سطح اور زیرِ زمین سمندری پانی کا چڑھاؤ، زمین کے دھنسنے کے عمل، سطح سمندر میں اضافہ، آب و ہوا کی تبدیلی اور انسانی سرگرمیاں، وہ ساری وجوہات ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک کے سکڑنے اور انحطاط میں کردار ادا کیا ہے۔

گلیشیئر اس نظام کا حصہ ہے

ہندوکش ہمالیہ کے گلیشیئر دریائے سندھ کے بہاؤ کے 80 فیصد حصے کو وجود دیتا ہے، مگر یہ تیزی کے ساتھ پگھلتا جا رہا ہے، ایسے میں مختصر مدت کے لیے اگرچہ ایک بڑی آبادی کو زندگی گزارنے کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہونا چاہیے۔ تاہم، ناقص پالیسیوں اور نامکمل منصوبوں نے ڈیلٹا اور زمینی پانی دونوں کو برباد کردیا ہے۔

یہ نتائج رہائشیوں کے تجربات سے بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ضلع ٹھٹہ کے کھارو چھان نامی گاؤں کے قریب رہنے والے گلاب شاہ نے بتایا کہ ان کے کنبے کے پاس 6 ہزار 500 ایکڑ اراضی ہے جسے وہ بیچ کر شہر منتقل ہونا چاہتے ہیں لیکن انہیں کوئی خریدار ہی نہیں مل رہا ہے اور اگر وہ فصلیں کاشت کرنا چاہیں بھی تو انہیں کسان ڈھونڈنے سے نہیں ملتے کیونکہ پینے کے پانی کی شدید قلت کے سبب لوگ اس کے گاؤں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ گلاب شاہ کہتے ہیں کہ 'میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے'۔

اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ڈیلٹا کی 88.4 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے، جن میں سے 31.4 فیصد 'غریب ترین لوگ' ہیں۔

معیشت ماحول سے برتر ہے

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں کے ذریعے زور آور دریائے سندھ کو قابو کرنا شاید سب سے بڑی غلطی تھی۔ ماحولیاتی ماہر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے انڈس فار آل پروگرام کے سابق کوآرڈینیٹر ناصر پنہور کہتے ہیں کہ دریائے سندھ اور اس کے مضافات پر آبی ذخائر تعمیر کیے گئے تھے تاکہ زراعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے ساتھ ساتھ آگے چل کر صنعتی ترقی کی ضرورتوں کو بھی پورا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ ڈیلٹا ذرخیز مٹی سے محروم ہوگیا ہے کیونکہ معاشی ترجیحات ماحولیاتی نتائج پر غالب آگئیں جو آنے والے برسوں میں بھی اسی طرح پریشانی کا باعث بنی رہیں گی۔ انہوں نے ڈیلٹا کے سنگین انحطاط کا الزام دریا کے بہاؤ کی سمت موڑنے کے عمل پر عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہ فطرت میں انسانی مداخلت کی بدترین مثال ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور اہم عنصر نہروں، بیراجوں اور آبی ذخائر کا پیچیدہ نظام ہے کہ جس نے دریائے سندھ، جہلم اور چناب سے پانی کی سپلائی ان علاقوں میں منتقل کی جہاں پہلے مشرقی دریاؤں کے ذریعے پانی آتا تھا۔ یہ انتظام ستمبر 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے مابین طے شدہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو جانے والے پانی کی تلافی کے لیے کیا گیا تھا۔

فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے برطانوی دور میں آبپاشی کا نظام تیار کیا گیا تھا، جس نے انڈس بیسن کو ایک گنجان آباد علاقے میں تبدیل کردیا تھا۔ اس کے بعد سے وسیع پیمانے پر انسانی مداخلتیں منفی ماحولیاتی نتائج کا باعث بنی ہیں۔

الطاف سیال نے مزید کہا کہ ڈیموں کا ایک سلسلہ تعمیر کیا گیا، جیسے 1965ء میں ورسک ڈیم، اس کے بعد 1967ء میں منگلا ڈیم اور 76ء-1968ء کے دوران تربیلا کا تعمیراتی کام ہوا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے میں ڈیلٹا کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر بجلی کی ضرورت ہو تو شاید دریا سے چلنے والے پلانٹس پر غور کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ پانی کے بہاؤ کے لیے زیادہ رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔ مگر انہوں نے زور دیا کہ ہوا اور شمسی توانائی بہتر انتخاب ہیں، خاص طور پر جب دونوں وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہوں۔

حیاتیاتی تنوع کو ایک دھچکا

الطاف سیال کے مطابق ڈیلٹاؤں کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ حیاتیاتی لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ 'پیداواری مقامات' ہیں، ان کا بھرپور حیاتیاتی تنوع ہجرت کرکے آنے والے پرندوں اور جانوروں کو پناہ گاہ اور قدرتی طور پر افزائش کی جگہ فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیلٹا اپنے اندر اور آس پاس رہنے والے لاکھوں افراد پر مشتمل آبادی اور بالخصوص زراعت سے وابستہ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

مگر دریائے کے بالائی بہاؤ پر ڈیموں کی تعمیر ذرخیز مٹی میں کمی کا باعث بنی جس نے زراعت سے وابستہ انڈس ڈیلٹا کے رہائشیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ ناصر پنہور نے ورلڈ بینک کے 2019ء کے ایک مطالعے کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ تعمیراتی کام سے قبل ہر سال انڈس ڈیلٹا تک اندازاً 27 کروڑ ٹن مٹی پہنچا کرتی تھی جو آج گھٹ کر محض ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن رہ گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'بہاؤ میں کمی کے نتیجے میں ڈیلٹا میں نمایاں کھارا پن پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے پودوں کے تنوع میں کمی واقع ہوئی ہے'۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیلٹا میں بھرپور انداز میں اگنے والے 8 میں سے 4 پودوں کی قسمیں کچھ برسوں کے دوران غائب ہوچکی ہیں۔

اس کے علاوہ MUET کے 'پاکستان امریکا سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز ان واٹر' کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دستیاب پانی کا 78 فیصد حصہ پینے یا کھیتی باڑی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ زمینی پانی اگرچہ اتنا بدتر نہ سہی لیکن اتنا ہی خراب ضرور ہے۔ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ زمینی پانی کے 94 فیصد نمونوں میں کلورائڈ کی مقدار محفوظ حد سے زیادہ ہے۔

کشتیوں کے ذریعے نالوں سے پانی اور مٹی کے نمونے اکٹھے کرنے والے تحقیقاتی ٹیم کے ایک ممبر غلام شبیر سولنگی نے بتایا کہ یہاں تک کہ ریورس اوسموسس (آر او) پلانٹ سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں ہمیں آرسینک کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی مجوزہ حد سے زیادہ ملی۔

الطاف سیال نے کہا کہ سنگین انحطاط کے باوجود پاکستان کا سب سے زیادہ متاثرہ حصہ عوام کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آبی نظام کی ناقص تفہیم

دریا کا بہاؤ سمندر کے لیے کیوں ضروری ہے؟ اس بارے میں عوام یا پالیسی سازوں کے مابین تفہیم بہت ہی کم ہے۔ ناصر پنہور کہتے ہیں کہ 'ڈیلٹا کو ایک ناکارہ زمین سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ سے میٹھے پانی کے اخراج کو بھی ’بربادی‘ کہا جاتا ہے۔ انڈس ڈیلٹا کی اہمیت کے بارے میں ہر ایک کو شعور اور احساس دلانا ضروری ہے۔'

الطاف سیال بتاتے ہیں کہ 'اگر ڈیلٹا کو دریائے سندھ سے میٹھا پانی حاصل نہیں ہوا تو یہ مر سکتا ہے'۔ انہوں نے وسطی ایشیا کے بحیرہ ارال کی مثال دی جو دریائے سیحوں کے اوپری بہاؤ پر بند باندھنے کی وجہ سے ڈرامائی انداز میں سکڑ گیا تھا۔

سفارشات

اس رپورٹ کے مرکزی مصنف نے بتایا ہے کہ سطح پر سمندری پانی کے چڑھاؤ کو روکنے کے لبے ڈائکس اور لیویز کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈیلٹا کی مقامی برادریوں کے مطالبات میں شامل تھا کیونکہ اس سے انہیں کراچی کی منڈیوں تک فوری اور آسان رسائی مل سکے گی۔

تاہم، آبی وسائل کے ماہر حسن عباس نے کہا کہ ڈائکس مینگروو جنگلات کے لیے ضروری سمندری لہروں کے آڑے آئیں گے اور ڈائکس پر سڑکیں تیز سیلابوں کو سمندر میں گرنے سے روکیں گی نتیجتاً آنے والے کئی ماہ تک مقامی آبادیاں سیلابی میدانوں میں پھنس جائیں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'ڈیلٹا میں سے گزرتی ہوئی ساحلی شاہراہ اس وقت ہی اچھا خیال ثابت ہوسکتی ہے جب یہ سمندری لہروں کے ساتھ ساتھ قدرتی سیلاب کے بہاؤ میں رکاوٹ کا سبب نہ بنتی ہو'۔ تحقیق میں 38 کلومیٹر ساحلی شاہراہوں کی لمبائی 200 کلو میٹر تک بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔

الطاف سیال کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی کچھ اقدامات پر کام شروع ہوچکا تھا۔ تنزیلہ قمبرانی نے 87 کلو میٹر طویل سندھ کوسٹل ہائی وے کا ذکر کرتے ہوئے اسے ایک 'اچھا اقدام' قرار دیا مگر ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اسے مکمل ہونے میں ایک دہائی لگے گی۔

الطاف سیال نے مزید کہا کہ اس بات کے قطعی ثبوت موجود ہیں کہ جب بھی ڈیلٹا میں لیویز تعمیر کی گئیں وہاں سطحی سمندری پانی کا دخل کم سے کم رہا۔ انہوں نے نیدرلینڈ کی مثال دی جہاں سمندری پانی کے سیلاب سے بچنے کے لیے لیویز تعمیر کی گئی ہیں۔

دیگر سفارشات میں بائیو سلین زراعت کا فروغ، قدرتی آبی ذخائر میں کیکڑے اور جھینگوں کی افزائش کی حوصلہ افزائی، لکڑی کے لیے مینگرووز کو زیادہ کاٹنے اور گرانے پر پابندی، اوچیٹو اور اولڈ پناری جیسے سوکھے چینلوں کی بحالی، نہروں جیسے پیانیاری اور پھلیلی کے آخری سرے پر پانی کی دستیابی اور میٹھے پانی کے ذریعے نمکین جھیلوں کی بحالی شامل ہیں۔

لیکن سب سے اہم بات جو اس تحقیق میں بتائی گئی وہ یہ کہ ماہرین کے بین الاقوامی پینل کی تجویز کے مطابق کوٹری بیراج کے نیچے سالانہ 86 لاکھ ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کا بہاؤ یقینی بنایا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کو عام ہونے کے تقریباً 3 سال بعد بھی، حکومت کی طرف سے کسی بھی سفارش پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔

USPCAS-W کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بخشل لاشاری کے مطابق 'ہم سے ایک سال قبل وزارتِ منصوبہ بندی برائے ترقی اور خصوصی اقدام نے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے ہماری تحقیق دیکھی تھی اور وہ ڈیلٹا کے حالات کو بہتر بنانے کے طریقہ کار پر ہم سے تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے لیکن اب تک کی رپورٹ کی بنیاد پر کچھ ٹھوس کام نہیں ہوا'۔

قانون ساز تنزیلہ قمبرانی نے الطاف سیال کی رپورٹ کے بارے میں نہ پڑھا تھا نہ سنا لیکن ساحلی شہر بدین سے تعلق رکھنے والے فرد کی حیثیت سے وہ سمندری دخل، پانی کی لاگنگ اور نمکینی کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔

'ہم وفاقی اور صوبائی حکومت کے نوٹس میں یہ مسئلہ لانے کی کوششیں کر کرکے تھک گئے۔ اگر انہوں نے ڈیلٹا کی حالتِ زار کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو آنے والے 50 برسوں میں پاکستان کا نقشہ بدل جائے گا، جب تمام ڈیلٹا بحیرہ عرب میں غرق ہوجائے گا'۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔