عراق میں مظاہرین کو اغوا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 24 مئ 2020
عراق میں یکم اکتوبر کو حکومت مخالف احتجاج شروع ہوا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
عراق میں یکم اکتوبر کو حکومت مخالف احتجاج شروع ہوا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عراق میں 5 ماہ تک طویل احتجاج کے دوران درجنوں مظاہرین کو اغوا کرکے ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق عراق کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ احتجاج میں شریک ہونے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ کی یکم اکتوبر 2019 سے 21 مارچ 2020 تک تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 123 افراد لاپتہ ہوگئے تھے جن میں سے 98 افراد کا سراغ لگالیا گیا ہے لیکن 25 افراد کے متعلق تاحال کوئی علم نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: حکومت مخالف مظاہرے، 2 روز میں 10 افراد ہلاک

مظاہرین کے حوالے سےکہا گیا ہے کہ کم ازکم 28 افراد کومسلح ملیشیا کی جانب سے اغوا کیا گیا۔

اقوام متحدہ کےتفتیش کاروں نے تمام مغویوں کے انٹرویو کیے جن سے تاثر ملتا ہے کہ مظاہروں کی جگہ سے مسلح یا چہرے کو چھپائے ہوئے افراد نے انہیں زبردستی گاڑیوں میں ڈالا اور عدالت کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا۔

اغوا کاروں نے ان سے تفتیش کی اور خاص کر مرد مغویوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بدترین تشدد کے لیے بجلی کے کرنٹ، ٹھنڈا پانی ڈالنا، چھٹ پر الٹا لٹکانے، جان سے مارنے کی دھمکی، اہل خانہ کو مارنے کی دھمکیاں دینے جیسے حربے استعمال کیے گئے۔

رپورٹ میں اغوا کاروں کا نام نہیں دیا گیا ہے لیکن نشاندہی کی گئی ہے کہ ایسی مسلح فورسز اس عمل میں ملوث ہیں جن کو وسائل تک رسائی حاصل ہے۔

'انصاف اور احتساب'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری لاپتہ اور اغوا کی وارداتیں تشدد زدہ صورت حال میں انسانی حقوق کی اضافی خلاف ورزیاں ہیں جہاں مظاہروں کے مقام پر پہلے ہی قتل، فائرنگ اور چھریوں کے وار، دھمکیاں اور طاقت کا غیر قانونی استعمال عروج پر ہے۔

اقوام متحدہ نےگزشتہ برس اکتوبر میں حکومت کی کرپشن، بے روزگاری اور سہولیات کے فقدان کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج میں 490 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

مزید پڑھیں:عراق میں مظاہرے پھر شدت اختیار کرگئے، 3 افراد ہلاک

اس احتجاج میں 7 ہزار 783 مظاہرین زخمی ہوگئے تھے۔

انسانی حقوق کے اداروں نے سیکیورٹی فورسز کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال، براہ راست فائرنگ، آنسو گیس اور دیگر سخت اقدامات کررہے ہیں۔

عراق کی گزشتہ حکومت نے بارہا یہی مؤقف اپنا رکھا تھا کہ مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے نامعلوم افراد کا سراغ نہیں لگا سکے۔

عراق کے نئے وزیراعظم مصطفیٰ القادیمی نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی حکومت 5 ماہ کے احتجاج کے دوران ہونے والے واقعات کی حقیقت پر پردہ نہیں ڈالیں گے اور سچ کو سامنے لائے گی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران بہنے والے خون کے ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے نمائندہ خصوصی برائے عراق جیئنین ہینز کا کہنا تھا کہ 'نئی حکومت کی جانب سے ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا قیام انصاف اور احتساب کی جانب سے سنجیدہ قدم ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت زخمی مظاہرین کو طبی امداد دینے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے کاعزم حوصلہ افزا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:عراق: حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آگئی

عراق کے نئے وزیراعظم نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ حکومت مخالف تمام مظاہرین کو رہا کردیا جائے گا لیکن عدالتوں کی جانب سے اب تک ایسا نہیں کیا گیا۔

مظاہرین نے حالیہ ہفتوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود دوبارہ احتجاج شروع کردیا تھا۔

کورونا وائرس کے بحران کے دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں تنزلی سے عراق کی حکومت کے پاس محدود آپشنز رہ گئے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومت کی ناکامی کی ذمہ داری سیاسی جماعتیں ہیں جو اب بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں، جس کامطلب ہے کہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا ہمارا مطالبہ بدستور موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں