نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا علاج یا ویکسین تو اب تک دستیاب نہیں مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کو اس کے لیے موثر قرار دیا تھا۔

درحقیقت وہ تو اس پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اس دوا کو روز کھاتے ہیں تاکہ کورونا وائرس سے بچ سکیں۔

مگر اب کووڈ 19 کے علاج کے حوالے سے ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کے اثرات پر سب سے بڑی تحقیق کے نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اس سے فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

جریدے جرنل لانسیٹ میں شائع تحقیق میں امریکا اور سوئٹزرلینڈ کے سائنسدانوں نے 6 براعظمووں کے 671 ہسپتالوں میں زیرعلاج 96 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کا تجزیہ کیا۔

15 ہزار کے قریب افراد کا علاج کلوروکوئن (ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کی پرانی قسم)، ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن یا ان دونوں ادویات کو ایک اینٹی بائیوٹیک کے ساتھ دیا گیا جبکہ باقی افراد کو ان میں سے کوئی دوا نہیں دی گئی اور کنٹرول گروپ کے طور پر کام کیا گیا۔

ان ادویات کو استعمال کرنے والے مریضوں میں سائنسدانوں نے دل کی دھڑکن کی سنگین بے ترتیبی کے خطرے کو دریافت کیا۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ مریضوں کے علاج کے لیے ان ادویات کا استعمال طبی ٹرائلز سے باہر نہیں کیا جانا چاہیے، جب تک تمام ٹرائلز کے نتائج سے ان ادویات کے محفوظ ہونے اور افادیت کی تصدیق نہ ہوجائے۔

محقققین نے دریافت کیا کہ جن افراد کو کلوروکوئن یا ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن دی گئی ان میں ہسپتال میں موت کا خطرہ ان افراد کے مقابلے میں 16 سے 18 فیصد زیادہ تھا جن ک یہ ادویات استعمال نہیں کرائی گئیں۔

اسی طرح جن مریضوں کوو یہ ادویات ایک اینٹی بائیوٹیک کے ساتھ استعمال کرائی گیں ان میں ہلاکت کا امکان دیگر کے مقابلے میں 22 سے 24 فیصد تک بڑھ گیا۔

یہ شرح اس وقت بھی نمایاں نظر آئی جب محققین نے دیگر عناصر جیسے تمباکو نوشی، امراض قلب، ذیابیطس، پھیپھڑوں کے امراض یا مدافعتی مسائل کا مدنظر رکھا۔

تحقیق کے مطابق جن افراد کو ان ادویات کا استعمال کرایا گیا ان میں دل کی دھڑکن کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔

تحقیقی ٹیم کے قائد اور ہارورڈ میدیکل اسکول کے میڈیسین پروفیسر مندیپ مہرا نے بتایا ؛ہم نے ڈیٹا کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی اور نتائج ہمیشہ یکساں رہے، فائدے کے شواہد نہیں ملے جبکہ نقصان کے آثار مسلسل سامنے آتے رہے'۔

امریکی صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ڈاکٹر کی درخواست پر ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کھا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس کے بارے میں بہت زیادہ اچھی کہانیاں سنی ہیں۔

پروفیسر مندیپ مہرا کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں صرف کووڈ 19 کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ صدر میں انفیکشن کی تصدیق نہیں ہوئی۔

ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کو ملیریا کے علاج کے لیے منظوری دی گئی ہے اور اس نے کلوروکوئن کی جگہ اس وقت لی جب دننیا کے بیشتر حصوں میں ملیریا کا باعث بننے والا پیراسائٹ اس دوا کے خلاف مزاحمت کرنے لگا تھا۔

اس کے علاوہ یہ دوا آٹو امیون امراض جیسے جوڑوں کے ورم اور لپس کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

ڈاکٹروں نے کووڈ 19 کے لیے اس دوا پر توجہ اس وقت دینا شروع کی جب فرانس میں ایک چھوٹے پیمانے پر ہونے والی تحقیق میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اس سے کووڈ 19 کے ورم کی علامات میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے جو سانس لینے میں مسائل اور نظام تنفس فیل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

مگر اس دوا کی افادیت کے شواہد اب تک ثابت نہیں ہوسکے ہیں مگر اب بھی اس پر کئی ممالک میں تحقیق جاری ہے۔

مگر ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوا اتنی مددگار نہیں جتنی ڈاکٹروں کو توقع ہے۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی آئروین میڈیکل سینٹر کی 13 سو مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن سے وینٹی لیٹرز کی ضرورت کی شرح میں کوئی کمی نہیں ائی جبکہ ہلاکت کا خطرہ بھی کم نہیں ہوا۔

یورپ اور چین میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ مریضوں کو اس دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ان رپورٹس کے بعد یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بیان جاری کیا تھا کہ طبی ماہرین اس دوا کو کووڈ 19 کے لیے تجویز نہ کریں اور صرف تحقیق یا ہسپتال کے اندر ہی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر مندیپ مہرا نے کہا کہ ڈاکٹروں کو ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کی جگہ دیگر ادویات پر تحقیق کرنی چاہیے جیسے ریمیڈیسیور۔

اس دوا کے بارے میں اب تک تحقیقی رپورٹس میں معلوم ہوا ہے کہ یہ کووڈ 19 کے مریضوں کو جلد صحتیاب ہونے میں مدد دے سکتی ہے جبکہ امریکا اور جاپان میں اسے ایمرجنسی استعمال کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔

اس دوا کے اب تک سنگین مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں