mahir.dawn@gmail.com
[email protected]

لفظ ہانگ کانگ اور لفظ فلو کا مجموعہ پرانے قارئین کو گزرا دور یاد دلاسکتا ہے۔ قریب 50 برس قبل مذکورہ الفاظ کا مجموعہ 'ہانگ کانگ فلو' عالمی سطح پر زبان زدِ عام ہوا تھا۔

اس اصطلاح کا بننا فطری تھا اور جہاں تک میرے بچپن کی یادوں کا تعلق ہے تو اس سے کسی بھی قسم کی بڑی ہنگامہ خیزی کا خیال جڑا ہوا نہیں تھا۔ ایسے میں آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ انفلوئنزا اے وائرس کی اس مخصوص قسم H3N2 ایک اندازے کے مطابق 69ء-1968ء میں پوری دنیا میں 10 لاکھ سے 40 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

اس مرض کے باعث امریکا میں ایک لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے، اتفاق دیکھیے کہ وہاں اس وقت کورونا وائرس کے باعث بھی اتنے ہی لوگ موت کا شکار بنے ہیں۔ ان دنوں ایک منصوبہ بندی کے تحت ہانگ کانگ پر الزامات کی بارش نہیں کی گئی تھی جو اس وقت ابھی برطانیہ کی کالونی تھا۔

اسی طرح ایک دہائی قبل ایشین فلو کے باعث بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے لیکن نہ بندشیں لگیں نہ لاک ڈاؤن نافذ ہوا اور نہ ہی سماجی دُوری اختیار کرنے کے لیے کہا گیا حالانکہ ان اقدامات سے چند زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔

دوسری طرف موجودہ حالات میں اس مہلک وائرس کا نیم خود مختار چینی سرزمین سے بڑے ہی مختلف انداز میں تعلق جوڑا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بیجنگ میں کچھ تاخیر سے منعقد ہونے والے نیشنل پیپلز کارنگریس (این پی سی) کو یہ بتایا گیا کہ کورونا وائرس کو مات دینے کے بعد اب چینی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) ہانگ کانگ کے مختلف مقامات میں عظیم تر جمہوریت اور خودمختاری کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر ضابطہ لانے کے لیے ڈیزائن کردہ 'حفاظتی قوانین' کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہے۔

سال 2019ء ہانگ کانگ کے لیے افراتفری کا سال رہا اور ان قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر تحرک دیکھنے کو ملا جن کے تحت قانون ہاتھ میں لینے والوں کو چین کے مرکزی علاقوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا۔ تاہم ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکیٹو کیری لیم بالآخر متعلقہ بل روکنے پر رضامند ہوچکی ہیں۔

دوسری طرف مقامی قانون ساز کونسل بھی ان قوانین کی منظوری دینے میں ناکام رہی جن کی مدد سے 'نفرت انگیز تقاریر‘، ’نظام اور اداروں کو نقصان پہنچانا‘، 'بغاوت' اور 'غیر ملکی' مداخلت جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے یک پارٹی نظام والے چین کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کو خلافِ قانون قرار دیا جاسکتا تھا۔ سو اب بیجنگ نے اپنے کھیل کے اصولوں میں سلامتی قوانین کو شامل کرتے ہوئے اس کٹھن مرحلے کو بائی پاس کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

حسبِ توقع مغرب میں کچھ عناصر نے خوب تنقید کے نشتر چلائے ہیں لیکن یہ تنقید شاید صرف شعلہ بیانی تک ہی محدود رہے۔ امریکا نے پابندیوں کی دھمکی دی تو ہے لیکن چین پر اپنے اقتصادی انحصار کی وجہ سے وہ بیجنگ سے کھلی دشمنی پر اتر آنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو سمیت دیگر اہم امریکی جس محتاط انداز اور دبے دبے الفاظ کے ساتھ چین کو کورونا وائرس پیدا کرنے اور پھیلانے والا قرار دیتے ہوئے سی پی سی پر حملہ آور ہو رہے ہیں اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر موضوعات سمیت اس مخصوص معاملے پر امریکی مؤقف میں کچھ وزن نہیں۔

اس بات میں کچھ زیادہ شک نہیں کہ ووہان میں وبائی پھوٹ کے موقعے پر ابتدائی ردِعمل مزید بہتر ہوسکتا تھا اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مقامی حکام نے بیجنگ تک بُری خبروں کو بروقت نہیں پہنچایا جو زی جن پنگ کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والی آمریت سے جنم لینے والے مسائل میں سے اہم مسئلہ ہے۔

دوسری طرف ابتدائی طور پر یہ بات بتانے میں شاید مشکل پیش آ رہی ہو کہ آیا انسان سے انسان سے وائرس کی منتقلی باعثِ فکر ہے یا نہیں۔ کئی حوالوں کے مطابق بیجنگ میں حکومت کو جیسے ہی صورتحال کا مکمل اندازہ ہوا تو اس نے ذرا بھی وقت ضائع کیے بغیر وائرس پر ضابطہ لانے کی کوششیں تیز کردیں اور عالمی حکام کو بھی وبا کے خطرات سے آگاہ کردیا۔

سختی سے نافذ العمل لاک ڈاؤن کے ساتھ چین نے اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس کی ابتدا ووہان سے ہوئی جہاں تمام ریسٹورنٹ کو اپنے کنٹرول میں لیا گیا تاکہ لوگوں کو 3 وقت کا کھانا فراہم کیا جاتا رہے جبکہ رہائشی عمارتوں کے باہر مسلح محافظوں کو تعینات کردیا گیا تاکہ کوئی بھی قوانین کی خلاف وزری نہ کرسکے۔

تاہم اسی دوران دیگر کئی ممالک مذکورہ دونوں اصولوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنانے سے قاصر رہے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چینی معیشت نے زبردست نقصان تو اٹھایا جس کا اندازہ این پی سی کے موقعے پر دہائیوں میں پہلی مرتبہ پیداواری ہدف سے انکار سے لگایا جاسکتا ہے، مگر اس کا باوجود اپنے زیادہ تر حریفوں کے مقابلے میں بحالی کے اعتبار سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح کسی حد تک چین کی جانب مغربی دشمنی کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دوسری طرف چین نے اگرچہ اختلافِ رائے کو دبانے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی لیکن بحیرہ جنوبی اور بحیرہ مشرقی چین میں چھوٹا موٹا طاقت کا کھیل اور بھارت کے ساتھ باہمی لائن آف کنٹرول پر مڈ بھیڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسی اثنا میں چین نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے دیگر ملکوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی نرم طاقت یا سافٹ پاور کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔

لیکن واشنگٹن میں خراب کارکردگی کو اپنے حق میں استعمال کرنے سے متعلق چین کی کوششیں تب تک رنگ نہیں لاسکتیں جب تک یہ دیگر کو 'صرف اپنے نقش قدم پر چلنے' پر مجبور کرنے کا تاثر دیتا رہے گا۔ چین نے جس طرح ہانگ کانگ کے تناظر میں گمراہی کا شکار بن کر سخت طریقوں کو اپنایا ہے اس سے کہیں زیادہ نفیس و اعلیٰ پائے کے طریقوں کے ساتھ وہ ٹرمپ کو عالمی میدان میں چت کرسکتا ہے۔

چین کے اس امکانی اقدام کا موازنہ کریمیا پر روسی قبضے سے کیا جا رہا ہے حالانکہ کشمیر پر بھارتی قبضہ اس سے بہتر تمثیل ہے۔ تائیوان کی جانب بڑھتا جارحانہ رویہ ایک اضافی پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ عالمی وبا کے بعد منظرنامہ کچھ بھی ہو لیکن اس قدیم چینی بددعا کا عملی مظاہرہ واضح طور پر دکھائی دے گا جس کے معنی کچھ یوں ہیں کہ، 'دعا ہے کہ تم دلچسب (کٹھن) دن دیکھو۔'


یہ مضمون 27 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں