لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

جمعرات کے روز ایک قومی اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جس کے مطابق عید کی چھٹیوں کے دوران 50 افراد کورونا وائرس کی زد میں آئے۔ یہ خبر حصول توجہ کی دوڑ میں شامل دیگر متعدد مسائل کی زد میں آکر ہم جیسے کئی پکے قارئین کی نظروں سے شاید اوجھل ہوگئی ہوگی۔

جیسے، اگر قاری کو اس کے مقابلے میں ایک اور خبر زیادہ دلچسپ لگی ہوگی مثلاً، اگر قارئین کو اتنی ہی لمبائی اور چوڑائی میں مذکورہ خبر کے مقابلے میں ایک دوسری اور زیادہ رس بھری خبر پڑھنے سے غالب امکان ہے کہ نہیں چونکیں ہوں گے جس کے مطابق اس کے مقابلے میں وہ قاری جو زیادہ دلچسپ خبروں کے متلاشی ہوتے ہیں ان کی نظر سے یہ خبر تو بالکل نہیں چوکی ہوگی جس میں بتایا گیا کہ لاہور میں ندیم افضل کے گھر سے 3 جوڑے چوری ہوگئے۔ اگرچہ موصوف کو عوامی طریقوں سے خبروں میں رہنا چاہیے لیکن خبر آپ کے سامنے ہے، اس خبر سے پیدا ہونے والی دلچسپی سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چوری شدہ پہناوے ضرور مغربی طرز کے ہوں گے۔ لیکن یہ خبر بھی اس شور میں دب کے رہ جائے گی جو سوشل میڈیا پر ایک اداکار اور ان کے تشدد پسند حملہ آوروں نے برپا کیا ہوا ہے۔

سارے حالات و واقعات میں ان 50 افراد سے شاید کوئی بھی ہمدردی کے مظاہرہ نہیں کرنا چاہے گا حالانکہ اس وقت ان کی اہمیت نمایاں ہے کیونکہ ہنگامی حالات میں ان کی موجودگی زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونے لگتی ہے۔

50 افراد کے اضافے کے ساتھ اس مخصوص گروہ میں کورونا وائرس کا شکار بننے والوں کی تعداد اب صرف پنجاب میں 600 سے بڑھ چکی ہے۔ یہ ان گروہ میں شمار کیے جاتے ہیں جنہیں ہم ضرورت کے وقت خوب استعمال کرتے ہیں اور ذرا بھی اہمیت دینا گوارا نہیں کرتے، یہ افراد پولیس اہلکار ہیں جنہیں اکثر و بیشتر ہم بُرا کہنے اور ان پر اپنا غصہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہوتے۔

خبروں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ کورونا وائرس کا شکار بننے والے پاکستانی پولیس اہلکار کا پہلا کیس رواں برس مارچ میں سندھ میں رپورٹ ہوا تھا۔ تب سے اب تک وائرس سے ہمارے خطرناک معاشقے کی چھوٹی لیکن غیر معمولی قیمت چکانے اور اپنی وردیوں کی شناخت سے پہچانے جانے والے ان افراد کے کیسوں میں ہر جگہ مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان میں سے چند نے اپنی جانیں بھی گنوائیں اور پریس نے ہر بار یہ ظاہر کیا کہ ان واقعات کو تو ہونا ہی تھا۔

وائرس کے باعث پہلے صحافی کی موت اور کورونا وائرس سے پہلے ڈاکٹر کی موت کی طرح کورونا وائرس کے باعث پہلے پولیس اہلکار کی موت، جیسی سرخی دراصل یہ یقین دہانی کرواتی یا خوف دلاتی ہے کہ موت کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ لیکن اگر یہ سرخیاں کسی حد تک تقدیر کا لکھا قارئین کو پڑھا رہی ہیں تو بھی ان میں سے چند شہیدوں کو زیادہ ہنگامہ کھڑا کیے بغیر کٹھن اور خطرناک حالات میں دکھیل دیا گیا اور یہ سب خالصتاً حملہ آور کو تیار ہدف دینے کی پرانی عادت کے مطابق کیا گیا۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کی یادیں اب بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔ اب تک جاری اس جنگ کی سب سے ہولناک تصاویر میں پولیس مرکزی کرداروں میں سے ایک دکھائی دیتی ہے۔

کورونا وائرس سے اپنی جان گنوانے والے پولیس اہلکاروں کو شہید پیکج دینے کا وعدہ کیا گیا جو دراصل اس لڑائی سے حاصل ہونے والا ایک گفٹ ہے جس کے باعث اس فورس کی ان گنت جانیں لقمہ اجل بنیں۔ اسے ایک ایسی گارنٹی کے طور پر اچھا اقدام کہا گیا ہے جس کی مدد سے حوصلے پروان چڑھیں گے لیکن درحقیقت اس نے سیکیورٹی کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی سے متعلق معنی خیز مباحثے کی راہ میں رکاوٹ کا کام کیا ہے۔

اس پیکج کو فخریہ انداز میں ایک حتمی معاوضے کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جو روحانی تسکین کے ساتھ قربانی دینے والے کے لواحقین کی مادی ضروریات کو بھی کسی حد تک پورا کرنے کا سامان کرتا ہے۔ کنٹرول کورونا کے اس مرحلے کے دوران جن پولیس اہلکاروں کو خطرے سے بھرپور مقامات پر تعینات کیا گیا ہے ان کا خیال رکھنے والے ان اقدامات پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے جو انہیں کورونا وائرس سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایک طرف جہاں ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹر اور ان کے نیم طبّی عملے کے لیے حفاظتی ساز وسامان کی کمی کے معاملے پر شور مچایا گیا ہے وہیں دوسری طرف پولیس اہلکاروں کو مختلف خطرات سے بھرپور حالات میں بغیر کسی تیاری کے کورونا وائرس کے قریب تر پہنچا دیا گیا ہے۔

عید کی 4 یا 5 چھٹیوں کے دوران 50 پولیس اہلکاروں کا وائرس کی زد میں آنا دراصل اعلیٰ حکام، خواہ وہ اہل ہوں یا نہ ہوں، سے لے کر عام عوام کی جانب سے پولیس کے ساتھ بڑی آسانی سے برتے جانے والے امتیازی رویے کو ظاہر کرتا ہے۔

وہ موت کے منہ میں جاسکتے ہیں اگر انہیں جانا پڑا۔ ایک کے بعد ایک۔ پھر صفوں کی صفیں۔ وہ شہید قرار دیے جائیں گے۔ پھر ہماری اس محبوب سرزمین پر سرکاری حکم نامے کے ذریعے انہیں دنیا اور آخرت میں اس کا اجر ملے گا۔ ہم اس وقت ان کی ازلی جدائی کو خاطر میں نہیں لائیں گے کیونکہ یہی لوگ یہ تاثر دے سکتے ہیں کہ مرنے والے لوگ ہماری حفاظت پر مامور تھے۔ ایک عرصے سے یہی صورتحال بنی ہوئی ہے اور اب جبکہ خطرہ کا سایہ بڑھ گیا ہے پھر بھی منظرِعام پر کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی اور متوقع اعداد تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید چند انسانوں کو اپنی جانوں کی قربانی دینا ہوگی۔

شاید ایک اقدام کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا اقدام جو فطرتاً انسانیت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو اور جس کا مقصد زندگیوں اور لوگوں کو مرض سے بچانا ہو، پھر چاہے وہ زندگیاں کسی کی بھی ہوں اور ملازمتی رجسٹر یا قانون نافذ کرنے والے محکمے کے شہید پیکجوں میں ان کی زندگیوں کی قدر و قیمت چاہے کتنی ہی چھوٹی یا بڑی درج کیوں نہ ہو۔

پورے پاکستان میں کورونا وائرس آزادانہ طور پر پولیس اہلکاروں کو اپنا شکار بناتا رہا ہے۔ تواتر کے ساتھ عوام سے رابطے میں آنے والے مختلف مقامات پر تعینات وائرس زدہ پولیس اہلکاروں سے متعلق یہ اعداد و شمار وائرس کے وسیع پھیلاؤ کا خطرہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں بہت سے پیشہ ورانہ افراد، ٹریڈ یونینز اور حساس مشاہدہ کار ملک کے اندر پورے نظامِ صحت کو ہڑپ کرجانے والے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے سخت انتظامات کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ہمارے ہاں خبر کی تلاش میں خطرہ مول لینے والے صحافیوں جیسے دیگر فرنٹ لائن پر موجود افراد کے تحفظ پر بھی بات کی جاچکی ہے۔ حتیٰ کہ مشورے بھی سنائی دیے ہیں اور افسوس کے ساتھ حسبِ ضرورت کورونا وائرس کا شکار بننے والے سیاستدانوں کے لیے تعزیتی الفاظ بھی پڑھنے کو ملے۔ مگر میرے پولیس والے دوست کے لیے ایسی کوئی ہمدردی وجود نہیں رکھتی۔ کوئی بھی پولیس اہلکار کی زندگی بچانا ہی نہیں چاہتا۔

بلاشبہ پولیس اہلکار کا شمار ان سب سے زیادہ ضائع ہونے والے غیر اہم افراد میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے روشن کھلونے کی طرح ہے جسے کھیلنے والا کھیل کی بساط پر ابتدا میں ہی کھو دینا چاہتا ہے تاکہ داؤ اور گرم جوشی کو بڑھایا جائے اور کھیل میں شیطانی عنصر پیدا کیا جاسکے۔ انسانی تذلیل کی ایسی بہت کم مثالیں ملیں گی جس کا سامنا یہ سستے پیدل سپاہی کرتے ہیں۔


یہ مضمون 29 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں